آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟

ہال کھچا کھچ بھرا ہواتھا، سٹیج کے دائیں جانب بچیاں اور بائیں جانب بچوں کے چمکتے چہرے آنکھوں کو خیرا کر رہے تھے۔ دیواروں پر رنگ برنگے غبارے ماحول کو دلفریب بنا رہے تھے۔ پچھلی نشستوں پر ان طلبہ و طالبات کے مائیں تشریف فرما تھیں۔ سٹیج پر علامہ اقبال ؒ کی تصویر کئی سوالات پوچھ رہی تھی۔ ایک کونے پر لیڈی ڈاکٹر فروکش تھیں اور باری باری طلبہ و طالبات اقبال کی شخصیت پر تقاریر، نظمیں اور کلام اقبال سے سماعتوں کو جلا بخش رہی تھیں۔ کئی سالوں بعد کوئی ایسی مجلس میسر آئی جو ذوق و شوق سے عبارت تھی، منتظمین اور شرکا ء سب ہی یکسو اور یک زبان تھے۔ یہ میرپور شہر (شہر) سے کوٹلی جانے والے راستے میں ایک پلازے میں منعقدہ تقریب تھی، جس کا انعقاد الخدمت فاونڈیشن پاکستان کے شعبہ کفالت یتامیٰ نے کیا تھا۔ یہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ اس طرح کی تقاریب ملک کے طول و عرض میں علامہ اقبالؒ کے یوم پیدائش کی مناسبت منائی جا رہی ہیں۔

یہ وہ بچے ، بچیاں جو شفقت پدری سے محروم ہو چکے ہیں اور الخدمت فاونڈیشن نے فیملی سپورٹ پروگرام کے تحت ان کی کفالت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ جنہیں ہر ماہ متعلقہ حلقے میں جمع کیا جاتا ہے، ان کی تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ان کا میڈیکل چیک کیا جاتا ہے اور ان کی ماوں سے مشاورت کرتے ہوئے ان کی تعلیمی، اخلاقی اور دیگر سرگرمیوں کو منظم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں بچوں کا طبی معائنہ بھی ہر ماہ کیا جاتا ہے ۔بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔

طلبہ و طالبات کے مقابلوں کے بعد مجھے گفتگو کا موقع ملا ، میں نے تقریر کرنے کے بجائے ہال میں موجود طلبہ و طالبات اور ان کی ماؤں سے سوالات کے ذریعے ان کی شخصیت کو جاننے کی کوشش کی۔ میرا پہلا سوال یہ تھا کہ آپ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں؟ خوش کن پہلو یہ تھا کہ طلبہ و طالبات کی اکثریت نے اپنی منزل طے کررکھی تھی۔ کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ ڈاکٹر، انجنیئر، فوجی افسر، پروفیسر، استاد، تاجر اور سیاسی راہنما سمیت سب ہی کچھ بننے کے لیے یہ نونہال کمر بستہ تھے۔ کچھ بچوں سے منزل تک پہنچنے کی حکمت عملی کے بارے میں پوچھا تو یوں لگا کہ وہ کسی کیئریر کونسلر سے زیر تربیت ہیں، انہوں نے مرحلہ وار پلاننگ کررکھی تھی اور پوری دلجمعی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔میرے سوالات کو جواب بچے آگے بڑھ ،بڑھ کر دے رہے تھے۔ ان کے اندر آگے بڑھنے کا جنون طاری تھا۔ ایک معصوم بچی نے بتا یا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے، میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر بن کر پہلا آپریشن کس کا کرنا ہے ، تو وہ جھٹ سے بولی اپنی مما کا، میں پوچھا کیوں تو کہنے لگی وہ اکثر بیمار رہتی ہیں۔

میں سوچتا رہ گیا کہ وہ کیا لوگ ہیں جنہوں نے مایوسیوں کے اندھیروں میں گرئے ہوئے ان معصوم بچوں کو امیدوں کے چراغ جلا دئیے ہیں۔وہ جن کے خواب چور ، چور ہو چکے تھے، انہیں دوبارہ سے خواب دیکھنے کے قابل بنا دیا ہے۔ وہ جن کے پاس کتاب کے لیے پیسے نہیں تھے، ان کی تعلیم، خوراک اور ہر طرح کی تربیت کا بھی سامان میسر کردیا ہے۔ وہ کسی بھی طور یتیم ، بے آسرا اور ناامید دکھائی نہیں دیتے تھے۔ ان کی مایوسیاں امید میں بدل چکیں تھیں، وہ سوتے جاگتے خواب دیکھنے کے قابل ہو چکے تھے۔ ان کے لباس اُجلے اور ان کے چہروں پر چمک تھی۔ ان کے ہاتھوں میں قلم اور کندھوں پر بستے تھے۔

اس تقریب میں کچھ ایسے بچے اور ان کی مائیں بھی موجود تھیں جو صرف ایسی سرگرمیوں سے اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہتی تھیں۔ایک خاتون جو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں پانچ ماہ سے مسلسل اس پروگرام میں شریک ہو رہی ہوں اور میرے ذوق میں اضافہ ہو رہا ہے، میں بچوں کی صلاحیت کو جلا بخشنے والے ، ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو تلاش کرنے اور ان کو پروآن چڑھانے کی اس کوشش میں عملی طور پر شریک رہنا چاہتی ہوں۔

تقریب میں شریک بچوں کا تعلق میرپور شہر اور مختلف نواحی دیہاتوں سے تھا، نرسری سے نویں جماعت کے طلبہ و طالبات شریک تھے۔ تقریب کا انعقاد میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طلبہ و طالبات (والینٹرز) کے تعاون سے کیا جارہا تھا۔ انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار طلبہ و طالبات ذوق و شوق سے اس تقریب کے انتظام و انصرام میں شریک تھے۔ ان رضا کاروں نے ہرطرف سے پنڈال کو گھیر رکھا تھا، نظم و ضبط اور حسن انتظام کے اعتبار سے ایک مثالی پروگرام ، جس میں نہ شور شرابہ اور نہ بلا وجہ کی آمد ورفت تسلسل میں مخل ہو رہی تھی۔ دکھی دلوں کو امید کی کرن دینے میں مگن کا قافلہ پوری تن دہی سے اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ رضا کاریت بھی کیا کمال شے ہے؟ ہاں مواقع میسر ہوں تو اس ملک کا ہر شہری کچھ نہ کچھ کرنے پر تیار ہے۔ اﷲ کرئے یہ چمن یوں ہی ہنستا بستا رہے، مایوسیاں چھٹتی رہیں اور امید کی کرنیں پورے ماحول کو پرعزم بنادیں۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105256 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More