یقیناً آپ نے آجکل لاہور میں پائی جانے والی اس خاص دھند
( smog ) کے بارے میں سنا ہوگا جس نے نہ صرف حدِ نگاہ کو بری طرح متاثر کیا
ہے بلکہ لوگوں کو گھروں میں ہی رہنے پر مجبور بھی کردیا ہے- لیکن یہ صرف
قدرتی دھند نہیں ہے بلکہ اس میں انسان کی جانب سے پھیلائی جانے والی فضائی
آلودگی بھی شامل ہے یعنی اس دھند میں دھواں بھی شامل ہے-
|
|
یہ مصنوعی انتہائی زہریلی ہے اور انسان کے نظامِ تنفس کو شدید نقصان پہنچا
سکتی ہے اور انہیں اچانک سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے-
اس کے علاوہ یہ آنکھوں کو نقصان اور ناک میں خارش بھی پیدا کرسکتی ہے-
لاہور میں یہ مصنوعی دھند کیسے پھیلی؟
لاہور میں گزشتہ 5 سالوں سے زائد عرصے سے دسمبر کے مہینے میں یہ دھند دیکھی
جاتی ہے- اور یہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ لاہور میں فضائی سروس تک معطل
ہوجاتی ہے- گزشتہ 5 سالوں کے دوران اس دھند میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا
ہے اور اس میں آلودگی کی بھاری مقدار موجود ہوتی ہے جو کہ وہاں موجود
ایندھن سے چلنے والی سواریوں اور صنعتوں کی وجہ سے جنم لیتی ہے-
|
|
لاہور کا شمار ایشیا کے سب سے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے- موسمِ سرما
میں تمام آلودگی آب و ہوا کی نچلی سطح پر آجاتی ہے جس کی وجہ خشک موسم٬
ٹھنڈ اور بارش ہوتی ہے-
اس دھند کا مقابلہ کیسے ممکن؟
اگر آپ لاہور یا پھر اس سے ملحقہ علاقوں کے رہائشی ہیں تو پھر چند
باتیں ضرور اپنے دماغ میں رکھیں:
چاہے آپ گاڑی میں ہوں٬ آفس میں ہوں یا پھر گھر میں اپنی کھڑکیاں بند رکھیں
اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ دھند آپ کے کمرے یا جگہ میں داخل نہ
ہوسکے- سب سے بہتر ہے کہ اس وقت تک گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں جب تک
کہ اس دھند کا خاتمہ نہیں ہوجاتا-
اگر گھر سے باہر نکلنا بہت ضروری ہے تو پھر چند تدابیر سے آپ اس دھند کے
اثرات کو کم سے کم کر سکتے ہیں- کار سواروں یا موٹر سائیکل سواروں کو ایسے
علاقے میں جانے سے گریز کرنا چاہیے جہاں ٹریفک جام ہوتا ہو- گاڑی کی
کھڑکیوں کے شیشے ہمیشہ بند رکھیں اور موٹر سائیکل والے حضرات ایسا راستہ
اختیار کریں جہاں ٹریفک کم ہوتا ہو-
|
|
ایسے افراد جو دمہ کے مریض ہیں یا پھر انہیں سانس کی دوسری اقسام کی
بیماریاں لاحق اپنے ساتھ ہر وقت inhaler ضرور رکھیں- اپنے ڈاکٹر کا فون
نمبر اسپیڈ ڈائل پر رکھیں تاکہ بوقت ضرورت اس سے فوراً رابطہ کیا جاسکے-
ایسے افراد جو اپنی فٹنس کے حوالے سے حساس ہوتے ہیں انہیں چاہیے کہ اس دھند
کے دوران سخت جسمانی سرگرمیوں سے پرہیز کریں کیونکہ اس سے سانس لینے کے عمل
میں اضافہ ہوجاتا ہے- اس مصنوعی دھند کا مطلب ہے کہ زمینی سطح میں اوزون
عام حالات کے مقابلے میں زیادہ موجود ہے جو سانس کے ذریعے آپ کے جسم میں
زیادہ مقدار میں جاسکتی ہے اور کئی قسم کے طبی نقصانات پہنچا سکتی ہے-
|
|
حکام کو بھی چاہیے کہ وہ سڑکوں پر چلنے والی سواریوں کے انجن پر نظر رکھیں٬
کہیں ایسا تو نہیں کہ خراب انجن ماحول اور دوسرے لوگوں کے لیے نقصان کا
باعث بن رہے ہیں؟ اس کے علاوہ پاکستان کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ
ایسی سرگرمیوں سے پرہیز کرے جو ماحول کو نقصان پہنچا سکتی ہیں کیونکہ یہ
کسی اور کے لیے نقصان دہ نہیں ہوگا بلکہ خود انسان ہی اس سے متاثر ہوگا- |