روبوٹ کے ذریعے دنیا کا پہلا آنکھ کا آپریشن

موجودہ دور کو بجا طور پر کمپیوٹر کا دور کہا جاتا ہے۔ نت نئی ایجادات، حیران کن انکشافات! ابھی انسان کسی ایک چیز پر حیرت کا اظہار کر ہی رہا ہوتا ہے کہ اس اثنا میں کوئی نئی چیز چلی آتی ہے۔ کمپیوٹر اور مشینوں کا صحت کے شعبے میں بھی بہت اثر نفوذ ہے۔ چند دہائیوں پیشتر ایکسرے مشین بہت بڑی چیز سمجھی جاتی تھی لیکن پھر کمپیوٹر اور مشینوں کے باہمی اشتراک سے الٹرا ساؤنڈ، پھر سی ٹی اسکین اور اس سے بھی آگے کی چیزیں سامنے آچکی ہیں۔
 

image

آنکھوں کے امراض میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے استعمال سے بنی نوع انسان کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ کسی کی آنکھ کے آپریشن کے لیے مہینوں پہلے سے وقت لیا جاتا تھا، پھر گھنٹوں پر محیط آپریشن ہوتا اور اس کے بعد مریض کو تین سے چار دن ہسپتال میں رکھا جاتا، اس کے بعد آنکھ کی پٹی کھولی جاتی تھی۔ وقت بدلا، آپریشن کا دورانیہ کم ہوا، مریض کو دو دن میں گھر بھیجا جانے لگا، اس کے بعد لیزر شعاعوں کو آنکھ کے امراض کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ پندرہ سے بیس منٹ میں آپریشن کر کے مریض کو گھر بھیج دیا جاتا ہے۔عینک کی جگہ لینس نے لے لی اور اب LASIK ٹیکنالوجی کے بعد لینس کی بھی ضرورت نہیں رہی۔اب برطانیہ میں آنکھوں کے آپریشن میں ایک انقلابی قدم اٹھایا گیا ہے اور آنکھ کے آپریشن کے لیے روبوٹ کو استعمال کیا گیا ہے۔

جی ہاں آنکھ کے اندر پیچیدہ آپریشن کے لیے روبوٹ کو کامیابی سے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کارنامہ آکسفورڈ کے جان ریڈ کلف ہسپتال میں انجام دیا گیا۔آکسفور ڈیونیورسٹی میں قائم مقام پادری کے فرائض انجام دینے والے بل بیور کی آنکھ کے اندرونی حصے میں ایک باریک جھلی آگئی تھی، کتاب پڑھتے وقت انہیں صفحے کے مرکز میں کالا دھبہ نظر آتا تھا ، اس دھبے کے چاروں طرف حروف نظر آتے تھے لیکن بیچ میں کالے دھبے کے باعث وہ دیکھ نہیں پاتے تھے۔
 

image


آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر روبرٹ میک لورین نے جنہوں نے اس پورے آپریشن کی قیادت کی بل بیور کو یقین دلایا کہ یہ آپریشن انسانی ہاتھوں سے کیے گئے آپریشن سے زیادہ سہولت اور آسانی سے مکمل ہوجائے گا۔اس آپریشن میں آنکھ کے اندرونی حصے میں موجود ایک ملی میٹر کے سوویں حصے کے برابر باریک جھلی کو صاف کیا گیا ہے۔پروفیسر میک لورین کا کہنا تھا کہ اگرچہ روبوٹس کے ذریعے سرجری اب عام ہے لیکن آنکھ کے پچھلے حصے کے آپریشن کے لیے ایک ایسے انتہائی چھوٹے روبوٹ کی ضرورت تھی جو کہ پچھلے آنکھ کے اندرونی حصے میں داخل ہوکر یہ کام کرسکے، جبکہ سرجری کے لیے استعمال ہونے والے عام روبوٹس بہت بڑے ہوتے ہیں۔اس آپریشن کے لیے ایک ڈچ کمپنی کا تیار کردہ انتہائی چھوٹا روبوٹ استعمال کیا گیا۔

اس روبوٹ کو ایک جوائے اسٹک کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا تھا۔ آپریشن کے دوران آنکھ میں ایک باریک سوراخ کر کے اس میں انتہائی باریک سوئی داخل کی گئی، سرجنز اس پورے عمل کی ایک خرد بینMicroscope نگرانی کرتے رہے۔ جوائے اسٹک کے ذریعے روبوٹ کو کنٹرول کیا جاتا رہا اور روبوٹ ایک مشینی ہاتھ کی طرح کام کرتا رہا۔ جوائے اسٹک کی لمبی حرکت روبوٹ کی انتہائی معمولی حرکت کی صورت میں ظاہر ہوتی تھی اور اگر کسی مرحلے پر سرجن جوائے اسٹک پر اپنی گرفت چھوڑ دیتے تھے تو روبوٹ ساکن یا منجمد ہوجاتا تھا۔اس طرح یہ کامیاب آپریشن مکمل کیا گیا۔
 

image

سرجنز کہتے ہیں کہ عام طور پر ایسے آپریشن کے لیے بے تحاشہ اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے ، جب کہ اگر ہم یہی آپریشن انسانی ہاتھوں سے انجام دیتے ہیں تو ہم Retina(آنکھ کی عقبی دیوار) کو چھو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کچھ جریان خون ہوجاتا تھا لیکن روبوٹ کے ذریعے کیے گئے آپریشن کے نتائج انسانی ہاتھوں سے کیے گئے آپریشن سے کئی گنا زیادہ بہتر صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔

ستّر سالہ بل بیور کہتے ہیں کہ یہ بالکل افسانوی اور پریوں کی کہانیوں کی طرح لگتا ہے لیکن ایسا حقیقت میں ہوا ہے اور میں اب بالکل ٹھیک طریقے سے دیکھ سکتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں تاریخ کا وہ پہلا فرد بن گیا ہوں روبوٹ کے ذریعے جس کی آنکھ کا آپریشن کیا گیا ہے۔سرجنز کا کہنا ہے کہ اس پیچدہ اور مشکل آپریشن کی کامیابی سے مستقبل میں مزید بہتری کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

Surgeons at John Radcliffe Hospital, Oxford, have carried out the world’s first internal eye operation using a robot, remotely controlling the machine to lift a membrane 100th of a millimetre thick from a patient’s retina.