پاکستان کی چند “ باہمت “ شخصیات

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر انسان کچھ کر دکھانے کی ٹھان لے اور اس کے حوصلے بلند ہوں تو دنیا کی کوئی بھی رکاوٹ اسے اپنے مقصد میں کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی- دوسری صورت میں جو لوگ حالات اور مشکلات کا رونا روتے ہیں وہ پھر تمام عمر اسی غم میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں اور صرف ناکام ہی رہتے ہیں- تاہم ہم پاکستان کی جن “ باہمت “ شخصیات کا ذکر کرنے جارہے ہیں یہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جو اپنے نامساعد حالات کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں اور اپنی منزل کو حاصل کر کے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے ملک کا بھی نام روشن کرتے ہیں-
 

طاہر خان:
طاہر خان پشاور پولیس میں ایک کانسٹیبل کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور انہوں نے چند دنوں قبل بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے- یہ ڈگری انہوں نے اپنی ملازمت پر رہتے ہوئے انتہائی غربت کے عالم میں وقت گزارتے ہوئے پڑھائی کر کے حاصل کی ہے- طاہر خان کے مطابق وہ اپنی غربت کی وجہ سے دس سال تک جوتے اور کپڑے بھی نہ خرید سکے- اس کے علاوہ طاہر خان کا کہنا ہے کہ “ جب میں پولیس میں بھرتی ہوا تو اس وقت میرے گھر کے معاشی حالت انتہائی خراب تھے اور بی ایس سی کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کے لیے میرے پاس 3 ہزار روپے بھی نہیں تھے کہ میں فیس ادا کر سکتا- لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ کامیاب ہوگیا اور پاکستانی نوجوانوں کے لیے بھی میرا یہی پیغام ہے کہ وہ کبھی ہمت نہ ہاریں“-

image


ثاقب علی کاظمی:
ثاقب علی نے گھارو کے رہائشیوں کا پانی کا مسئلہ حل کرنے کا اعزاز حاصل کیا- گھارو کی خواتین اور بچوں کو پانی کے حصول کے لیے اپنے گھروں سے دو میل کے فاصلے تک پیدل چلنا پڑتا تھا- زمین سے پینے کے قابل پانی کو نکالے جانے کے لیے پہلے اس کی جانچ کرنا ضروری تھی اور یہ ایک مشکل مرحلہ بھی تھا لیکن اس کے بعد ہی اس پانی کو ایک سادہ سے واٹر پمپ کے ذریعے باہر نکالا جاسکتا تھا- البتہ اس پمپ کی تنصیب پر آنے والی لاگت بھی کم تھی- اور اسی حوالے سے ثاقب علی کاظمی نے متعدد سروے کیے اور آخر وہ اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب ہوگئے- انہوں نے متعدد گاؤں میں یہ پمپ لگائے- ان مختلف گاؤں کی آبادی 30 افراد سے لے کر 3 ہزار افراد پر مشتمل ہے- آج 37 پمپوں کے ذریعے 25 ہزار سے زائد خاندانوں کو میٹھا پانی مہیا کیا جارہا ہے-

image


صبیحہ عبات:
صبیحہ کا تعلق ہری پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے اور یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں خواتین کو کھیلوں میں شرکت کی آسانی سے اجازت نہیں ملتی- لیکن صبیحہ نے بطورِ سائیکلنگ ریس کے کھلاڑی کے علاقے کی سطح پر اپنے کالج کی نمائندگی کی- اپنے آغاز کے بعد دو سال کے مختصر عرصے میں ہی صبیحہ نے لاہور میں منعقد ہونے والے ایک سائیکلنگ کے ایک مقابلے میں قومی چمپئین ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا- صبیحہ کے والد گاؤں میں ایک ڈرائیور ہیں جبکہ صبیحہ نے گریجویشن تک تعلم حاصل کر رکھی ہے اور اپنا مستقبل روشن بنانا چاہتی ہیں- صبیحہ کا کہنا ہے کہ “ سائیکلنگ ایک مہنگا کھیل ہے٬ بالخصوص وہ سائیکل زیادہ مہنگی ہے جو Velodrom کے ریس ٹریک میں جگہ بنا سکے- ایک عام پروفیشنل سائیکل ڈیڑھ لاکھ کی مالیت کی ہوتی ہے جبکہ Velodrom سائیکل تو اس بھی زیادہ مہنگی ہے- اور یہ میں نہیں خرید سکتی جبکہ مجھے کسی کی مدد بھی حاصل نہیں ہے“- صبیحہ اگلے سال ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتی ہیں جو کہ ان کے لیے پہلا بین الاقوامی مقابلہ ہوگا-

image


شمیم اختر:
شمیم اختر کو پاکستان کی پہلی خاتون ٹرک ڈرائیور ہونے کا اعزاز حاصل ہے- راولپنڈی میں رہائش پذیر شمیم ٹرک ڈرائیوری کر کے نہ صرف اپنے دو بچوں کی کفالت کرتی ہیں بلکہ اپنی تین بہنوں کی شادی کے اخراجات بھی برداشت کرچکی ہیں- شمیم اختر نے ٹرک ڈرائیوری کا شعبہ اس وقت اختیار کیا جب ان کے خاندان کو شدید معاشی بحران سے گزرنا پڑا- شمیم اختر نے ٹرک چلانے کی باقاعدہ تربیت حاصل کی ہے اور اسلام آباد سے ڈرائیونگ لائنس حاصل کیا ہے- تاہم باوجود اس کے کہ شمیم اختر کے ساتھی کارکنان کے ان کے ساتھ عزت اور محبت سے پیش آتے ہیں لیکن پھر بھی شمیم کو پاکستان میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے- شمیم اختر کو امید ہے ان کا اپنی تمام روایات کو توڑ کر اٹھائے جانے والا یہ قدم دیگر پاکستانی خواتین کے لیے ضرور حوصلہ افزائی کا باعث بنے گا-

image
YOU MAY ALSO LIKE:

The main objective is to promote the 4 individuals who have achieved extra ordinary in their lives. The focus would be to promote their hard work, honesty & integrity and how they are an excellent example for all Pakistanis.