فیس بک کا خط آپکے لئے۔۔۔ دلچسپ اپیل

مجھے یونیورسٹی کے چند دوستوں نے یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے اور ایک دوسرے کی سرگرمیوں کے بارے میں جاننے کے لئے بنایا تھا۔ وہاں سے یہ خیال اتنا مقبول اور آسان بنا کہ آہستہ آہستہ میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی سوشل ویب سائٹ بن گئی۔

مجھے فیس بک اور مختصر ایف بی کہا جاتا ہے۔ سچ ہے لڑکیاں مجھ سے ایسے چپکتی ہیں جیسے میں ان کی بی ایف ہوں۔ لڑکے ایسے سارا ادن میرے ساتھ مصروف رہتے ہیں کہ جی ایف کو بھی بھولنے لگتے ہیں۔ جی ایف اور بی ایف کو ملوانے کا ذریعہ بھی میں ہی ہوں۔ انکو الگ کروانے کی وجہ بھی میں ہی بنتی ہوں۔

مجھے یونیورسٹی کے چند دوستوں نے یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے اور ایک دوسرے کی سرگرمیوں کے بارے میں جاننے کے لئے بنایا تھا۔ وہاں سے یہ خیال اتنا مقبول اور آسان بنا کہ آہستہ آہستہ میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی سوشل ویب سائٹ بن گئی۔ ابتدا سے لے کر آج تک میں نے اپنی خصوصیات بدل بدل کر استعمال کرنے والوں کی زندگی میں خوب رنگ جمانے کی کوشش کی۔
 

image

اس کوشش میں اتنی کامیاب رہی کہ جس کے لئے کسی تعارف کی ضرورت ہی نہیں۔ آج انسانوں نے مجھے استعمال کر کر کے جتنا مقبول بنا دیا ہے اگر اتنی محنت اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے پر لگاتے تو آج مجھ سے زیادہ یا کم سے کم مجھ جتنا تو نام ضرور کماتے۔ مگر نا جی ایک انگوٹھا، ایک میں اور انٹرنیٹ آج دنیا میں فساد کی جڑ اور ہر سستی کی وجہ سمجھے جاتے ہیں۔

حقیقت میں مجھ جتنی پھرتیلی اور تیز ترار کون ہوگی۔ دو دوسال پرانی حرکتیں جو آپ نے مجھ پر کی ان کے بارے میں بھی آپکو ایک کلک کے بعد بتاتی ہوں۔۔ نہ کچھ الٹا نہ سیدھا نہ کم نہ زیادہ پورا کا پورا جتنا آپ نے کیا اتنا ہی بتاتی ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ آپ کی اپنی حرکتیں اس طرح کی ہوتی ہیں کہ اکثر پرانی باتیں یا تو آپ دیکھنا نہیں چاہتے یا دیکھ کے شرمندہ ہوتے رہتے ہیں۔

مجھ جیسی امن پسند کون ہوگی۔ دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک جو بھی جس سے ملنا چاہے ایک نام لکھ کر ملوا دیتی ہوں۔ اسی لئے جب آپ گھر میں رہنے والوں کی بجائے مجھ سے زیادہ ملتے ہیں تو گالیاں مجھ غریب کو ہی پڑتی ہیں جبکہ حقیقت میں میں نے تو آج تک کسی کو نہیں کہا کہ اتنا وقت اتنی آنکھیں میرے لئے قربان کرو۔

انسانوں نے خاص طور پر پاکستانی نوجوانان نے اپنا جتنا وقت مجھ پر قربان کیا ہے اسکی مثال نہیں ملتی کیونکہ جی ان کو لگتا ہے مجھ سے دوری مطلب زندگی میں مزہ نہیں۔ اسی لئے میرے سامنے بیٹھ کر مجھ پر انگوٹھے کے وار کر کر کے گیمز کھیل کھیل کر مزہ لوٹتے رہتے ہیں یہ اور بات ہے کہ ان کی اس حرکت پر تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ چوبیس گھنٹے میں سے ہر دو گھنٹے بعد میرا دیدار کرنے پر کونسا مزا ان کو ملتا ہے۔

زندگی کا اصل مزہ تو زندگی میں ہوتا ہے زندہ دلی میں ہوتا ہے مگر نہ جی آنکھوں کی جان نہیں چھوڑی بہت سے چھوٹوں موٹوں نے مجھ پرمصروف رہ رہ کر عینک بھی لگوائی اور چربی بھی چڑھوائی۔ دماغ تو انسانوں کا جی جتنا مجھے استعمال کرنے سے گھومتا ہے شاید ہی اور کسی چیز سے گھومتا ہو۔ اب تو ڈاکٹروں نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے جتنا زیادہ مجھے برتیں گے آپ کا دماغی ارتکاز متاثر ہوگا۔ یہی تو وجہ ہے بالکل نئی نویلی نسل میں توجہ یا ارتکاز کم ہو رہا ہے اور اسکی وجہ میں غریب ہوں۔
 

image


نیند میں کمی اور بے چینی کا الزام بھی مجھ پر اب کوئی پوچھے کہ سونے سے پہلے مجھے برتیں گے تو دماغ نیند میں جانے کی بجائے زور زور سے بھاگنے ہی تو لگے گا۔ پھر کیا کریں گے جی۔

صبح اٹھیں گے نہیں اور آپ کے ماں باپ خیر سے مجھے کوسیں گے۔

حقیقت میں میں تو جب بنی اور آج بھی لوگوں کو ملانے کے لئے بنی ناکہ دماغ دل نیند آنکھیں اور پیٹ کی موٹائی خراب کرنے کے لئے بنی۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے مجھے استعمال کرنا ہے۔ آپ اپنا ہاتھ روکیں مجھ غریب کو ماں باپ اساتذہ سے گالیاں دلوانے میں ہی ہلکان کیوں رہتے ہیں۔ بتائیں جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاد رکھیے مجھے برتنے کے بھی قرینے ہیں جو میں آپکو بعد میں بتاؤں گی۔۔۔۔۔

YOU MAY ALSO LIKE:

The origins of Facebook have been in dispute since the very week a 19-year-old Mark Zuckerberg launched the site as a Harvard sophomore on February 4, 2004. Then called "thefacebook.com," the site was an instant hit. Now, six years later, the site has become one of the biggest web sites in the world, visited by 400 million people a month.