فرانس میں واقع نکوئی اننور انسٹی ٹیوٹ کی مسجد 15 سالہ
قانونی جنگ کے بعد بالآخر کھول دی گئی ہے- یہ مسجد فرانس کے شہر نائس میں
تعمیر ہے-
اس مسجد کی تعمیر کا آغاز سعودی عرب کے تعاون سے سال 2002 میں کیا گیا تھا
تاہم سال 2008 کے نائس شہر کے مئیر کرسٹین ایسٹروسی نے اس مسجد کی تعمیر کو
غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مقدمہ دائر کردیا تھا جس کے بعد
حکومت نے اس مسجد کے دروازے کھلنے ہی نہ دیے-
ایسٹروسی کی جانب سے اس مسجد کے منتظم اور سعودی عرب کے وزیر برائے اسلامی
امور شیخ صالح بن عبدالعزیز پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ شخصیات خطے
میں موجود تمام گرجا گھروں کو تباہ کرنا چاہتی ہیں-
|
|
اور یوں یہ مسجد تعمیر مکمل ہونے کے بعد بھی کبھی کھل ہی نہ سکی- لیکن اب
مجسٹریٹ فلپ پریڈل کی اجازت کے بعد اس مسجد کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول
دیے گئے ہیں اور اسے نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ قانون کی بھی ایک بڑی فتح
قرار دیا جارہا ہے-
اس موقع پر مسلمانوں کے وکیل اور مقامی مذہبی تنظیم کے سربراہ حسینی مبارک
کا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے فرانسیسی اقدار کے تحت آزادی کے ساتھ اپنے
عقیدے پر عمل کرنے کا حق حاصل کرلیا ہے-
اس مسجد میں بیک وقت 900 افراد نماز ادا کرسکتے ہیں جبکہ یہاں خواتین کے
لیے بھی ایک الگ کمرہ مختص ہے- اس مسجد کے حق میں پٹیشن دائر کی گئی تھی جس
پر 2000 سے زائد افراد نے دستخط کیے تھے-
|