بھارت میں بنیادی انسانی حقوق اور عالمی برادری کی خاموشی

بھارت اپنی منجملہ دوسری خصوصیات اور اعزازات کے علاوہ ایک یہ اعزاز بھی رکھتا ہے کہ اس ملک میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اس دھڑلے سے ہوتی ہے کہ اس سب کچھ کو مذہبی اور قانونی تحفظ حاصل ہے اور یوں یہ سب کچھ بغیر کسی رکاوٹ کے چلتا جارہا ہے۔ سلسلہ تو یہ سالوں بلکہ صدیوں کا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ عالمی رائے عامہ میں وہ شور و غوغا نہیں اٹھتا جو کسی مسلمان ملک میں کسی معمولی سے واقعہ کو اچھال کر اٹھتا ہے۔ اگرچہ یہ خلاف ورزیاں امریکہ اور برطانیہ میں بھی نسلی تعصب ہی کی صورت میں سہی ہوتی رہتی ہیں لیکن بھارت جیسے ملک میں یہ ان کے مذہب اور معاشرے کا حصہ ہے اور انہیں روکنے کی بے معنی سی عدالتی فیصلوں کے علاوہ کوئی کوشش نہیں ہوتی یعنی حکومتی یا عوامی سطح پر اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھتی اور نہ ہی طاقتور ہندو لابی ان معاملات کو بین الاقوامی طور پر آگے آنے دیتی ہے۔ تاہم پھر بھی حیرت انگیز طور پر ہی سہی ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ایگزیکٹیو ڈاریکٹر لیری کوکس نے 18نومبر2009 کو صدر اوبامہ کو ایک خط لکھا جسمیں اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ من موہن سنگھ سے ملاقات میں بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جائے۔ لیری کوکس نے اپنے خط میں جن اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے اس میں کچھ فوج کی طرف سے معاملات میں خرابی پیدا کرنے سے متعلق ہیں جبکہ کچھ مذہبی طور پر محفوظ جرائم ہیں جو بڑے تسلسل سے بھارت میں جاری و ساری ہیں اور خود کو بڑا سیکولر سمجھنے والا بھارت ان حالات کو بدلنے پر آمادہ بھی نہیں اگرچہ اس کی عدالتیں ان سب کچھ کے خلاف فیصلے بھی دے رہی ہیں لیکن دراصل وہ فیصلے بھی تبدیلی کی خواہش کے بغیر ہوتے ہیں لہٰذا ان کا ہندو معاشرے پر کچھ اثر نہیں ہوتا ورنہ ہندو اچھوت تاریخ کا حصہ بن چکے ہوتے لیکن وہ اب بھی موجود ہیں اور پس رہے ہیں دلت یعنی زمین میں دبے ہوئے پسے ہوئے ٹوٹے ہوئے کے نام سے ہریجن یعنی نعوذ باللہ خدا کے بچوں کا نام پانے کے بعد بھی وہ پسے ہوئے ہی لوگ ہیں آج بھی وہ مندروں میں جانے کے حقدار نہیں اونچے درجے کے ہندو آج بھی ان کے خدا بنے بیٹھے ہیں دو سو ملین ہونے کے باوجود بھی یہ لوگ ذلیل و خوار ہیں اور کسی عزت کے مستحق نہیں سمجھے جاتے۔ تنگ آکر اگر کوئی دلت اپنا مذہب تبدیل کر لے تو اس کا جینا مزید حرام کر دیا جاتا ہے۔ ادواسی بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہیں اور اب بھی یہ لوگ پہاڑوں میں رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ نیچے آنے پر بھی انہیں انسانیت کے درجے تک آنے نہیں دیا جاتا۔ تعلیم کے دروازے آج بھی ان کے لئے بند ہیں اور پچاس ملین ادواسیوں کے صرف گیارہ فی صد افراد خواندہ ہیں یاد رکھیے یہ خواندگی کی شرح ہے پڑھے لکھے افراد کی نہیں حالانکہ یہ بھارت کی آبادی کا سات عشاریہ پانچ فی صد ہیں۔ اگر ایک ملک میں اکثریتی مذہب والوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جاتا ہے تو اندازا کیا جا سکتا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ کونسا رویہ رکھا جاتا ہوگا۔ تحریک پاکستان کے بارے میں واقعات میں سے ایک واقعہ یہ بھی پڑھا کہ مسلمانوں کو پانی پلانے کے لئے ایسے ڈبے استعمال کئے جاتے تھے جسے ایک لمبے بانس سے باندھ دیا جاتا تھا تاکہ دور سے مسلمانوں کو پانی پلایا جائے بلکہ مسلم اور ہندو پانی کے گواہ آج بھی موجود ہیں۔ انداز شاید بدلے ہو حالات آج بھی وہی کے وہی ہیں۔ شبانہ اعظمی جیسی نام کی مسلمان فنکارہ کو بھی ممبئی میں گھر لینے کا حق نہیں دیا جاتا۔ وجہ صرف یہ کہ اسکا نام مسلمانوں کا ہے۔ گجرات، احمدآباد، بہار اور کئی دوسرے علاقے اکثر مسلمانوں کے خوں سے رنگے جاتے ہیں کیونکہ ہندو مذہب یا بھارتی ہندو، ہندو کے علاوہ ہر انسان کو ملیچھ قرار دیتا ہے لہٰذا اس غیر انسانی رویے کو مذہبی جواز دے کر اس کے خلاف بولنے والوں کے منہ بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اوبامہ کو لکھے گئے خط میں1984میں 3000 ہزار سکھوں کے قتل عام کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ جبکہ2002میں2000مسلمانوں کو گجرات میں شہید کیا گیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ مسلمانوں نے ایک ٹرین پر حملہ کر کے59ہندو مار دئیے تھے جبکہ یہ بات ثابت شدہ بھی نہ تھی کہ گجرات کے ہمیشہ سے زیرعتاب صوبے کے مسلمان ایسی کوئی کاروائی کر سکتے تھے۔ بھارت اپنے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود اپنے عوام کو بنیادی انسانی حقوق تک نہیں دیتا۔1984میں بھوپال میں یونین کار بائیڈ کے کیمیکل پلانٹ سے گیس کے اخراج کا جو خطرناک حادثہ ہوا تھا اسکے متاثرین آج تک اپنے اور اپنے بچوں کے معذور جسموں کے ساتھ اپنا حق لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ تو بھارت میں انسانی حقوق کی روزمرہ کی خلاف ورزیاں ہیں جنہیں روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ یوں تو بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ اسکی حکومتیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتیں ہیں لیکن ان منتخب شدہ حکومتوں کی حفاظت فوج ہی کے ذریعے کی جاتی ہے اور اسکے لئے فوج کو بھارت کے ظالمانہ قانونArmed Forces Special Power Act کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بھارت میں درجن بھر سے زیادہ چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو رکوانے کے لئے ہی یہ ظالمانہ قانون بنایا گیا ہے جس کے تحت فوج کو ایسے خصوصی اختیارات دئیے گئے ہیں کہ شاید کسی مارشلائی ملک کی فوج کو بھی حاصل نہ ہو۔ اس قانون کو بھارتی پارلیمنٹ سے11ستمبر1958کو منظور کیا آج یہ قانون شمال مشرقی ریاستوں ارونا چل پردیش، منی پور، آسام، مگھالیا، میزورام، تری پورہ اور ناگالینڈ میں رائج ہے۔ جولائی 1990سے جموں کشمیر بھی اس بے رحم قانون کی زد میں ہے جس کے تحت فوج کو جو اختیارات حاصل ہیں متاثرہ علاقے کے لوگوں کو ان مظالم کے خلاف اپیل کا حق بھی حا صل نہیں۔ اس قانون کی رو سے فوج کو جو ماورائے قانون اختیارات حاصل ہیں ان کی رو سے فوج پانچ یا پا نچ سے زیادہ افراد کے اجتماع پر گولی چلا سکتی ہے اور بغیر وارنٹ کسی کو بھی کہیں سے بھی گرفتار کر سکتی ہے۔

Armed Forces Special Power Act کے خلاف جہاں بھارت کے ان علاقوں کے لوگ غم و غصہ میں رہتے ہیں وہیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر Novnethem Rillay نے اس غیر انسانی قانون کو نو آبادی دور کا قانون کہا اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی اسے ختم کرنے کی سفارش کی۔

UCIRF-US Commission on International Religious Freedom کے مطابق بھی بھارت ان ممالک میں شامل ہے جو اپنی مذہبی اقلیتوں کی حقوق کی حفاظت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہیری کوکس کا خط یا مختلف اداروں کی طرف سے بھارت کو بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دئیے جانے کے باوجود عالمی میڈیا بلکہ ہمارا اپنا میڈیا بھی اس سب کچھ کو اجاگر کرنے میں ناکام کیوں رہتا ہے۔ دراصل اس میں مغرب کا تعصب اور ہماری اپنی کمزوری دونوں شامل ہیں۔ مسلمانوں کو بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دینے کی مہم میں جتے ہوئے مغرب کے سامنے بھارت کے حالات بھی ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس قوم کا ایک بڑا حصہ رات کھلے آسمان تلے سڑکوں پر سوتا ہے لیکن وہ صرف کمیشن اور خطوں پر اکتفا کیے رکھتا ہے۔ جبکہ بھارت قراردادوں، کمیشنوں اور یاداشتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھتا ہے وہ سب ہی جانتے ہیں۔ وہ جو کشمیر کے بارے میں قراردادوں کے ساتھ پچھلے باسٹھ سالوں سے کر رہا ہے وہی اس کے کردار کو عیاں کر دیتا ہے۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو اس کا پچھلا ریکارڈ سامنے رکھتے ہوئے کچھ عملی اقدامات بھی کرنا ہونگے تب ہی شاید بھارت میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی رک سکے اور حالات کچھ بہتر ہو سکیں ورنہ بھارت سرکار سے کسی بہتری کی امید نہیں۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 504739 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.