ایم کیو ایم کی واپسی اور چیف جسٹس کا خطاب

کراچی کی تباہی کے اصل ذمہ دار ایک نہیں دو سیاسی ڈان تھے یہ دونوں اس وقت بیمار اورملک سے باہر ہیں ان میں بڑا کون تھا اس کا فیصلہ قوم کرلے گی دونوں اپنے آپ کو ایک دوسرے سے زیادہ طاقتور اور چالاک سمجھتے تھے دونوں اﷲ کے نظام کو بھول کر جو چاہے وہ کرتے تھے ، دونوں اس قدر بے وقوف بھی ہیں کہ اب بھی انہیں ایک ایسے شخص پر بھروسہ ہے جسے سپریم کورٹ جھوٹا قرار دے چکی ہے۔ دونوں اس وقت مکافات کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان دونوں سیاسی ڈان اگر دنیا میں کسی اور پر بھروسہ کرتے تھے تو وہ ملک کا انوکھا '' چالاک بلڈر '' تھا۔سیاسی بحران کی ابتداء اس چالاک بلڈر کی پکڑ سے شروع ہوئی۔ آج یہ شخص لوگوں کو لوگوں سے حاصل کیے ہوئے نوٹ بھی نہیں بانٹ رہا۔ اس بلڈر سے جاکر منسلک ہوجانے والے اب اپنے داغوں کو دھونے کے واسطے کراچی پہنچ کرایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کرچکے ہیں۔

ایسے میں سب کچھ دیکھنے اور جال پھیلائے کھڑی قوت کے لبوں سے طنزاََ یہ الفاظ نکل رہے ہیں کہ '' داغ تو اچھے ہوتے ہیں ''۔ سارا تماشہ ختم ہونے کو ہے ۔ تماشا وقتی ہوتا ہے ، کراچی کے شہری جو گزشتہ 32سال سے کھیل تماشا دیکھ رہے تھے ، لگتا ہے کہ اس کے خاتمے کا وقت آگیا ہے ۔

متحدہ سے تعلق رکھنے والے سابق سٹی ناظم مصطفی کمال ، سابق ڈپٹی کنوینر انیس قائم خانی اور ڈاکٹر صغیر احمد الطاف حسین سے بغاوت کرکے علیحدہ پارٹی بنانے کا اعلان کرچکے ہیں ۔یہ سب کچھ اچانک نہیں بلکہ طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے ۔ اگرچہ مذکورہ تینوں باغی رہنما یہ دعویٰ کررہے ہیں انہوں نے یہ سب کچھ اچانک ہی کیا ہے ۔ مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ ان کے دل میں اﷲ نے اپنا خوف پیدا کردیا اور یہ باتیں ڈالی ۔ ۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق تقریباََ چھ ماہ قبل اس کی بنیاد گورنر سندھ عشرت العباد نے ہی رکھی تھی وہ اچانک دو روز کے لیے دبئی گئے تھے ۔ جہاں پہنچ کر انہوں نے انیس قائم خانی اور مصطفٰی کمال سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت مذکورہ دونوں رہنماؤں نے عشرت العباد کی بات ماننے سے انکار کردیا تھا ۔ عشرت العباد کی اس وقت کوشش تھی کہ یہ دونوں کسی بھی طرح پاکستان آجائیں اور دوبارہ شمولیت اختیار کریں ۔ لیکن ان دونوں نے واپسی کو ناممکن قراردیدیا تھا ۔ بعدازاں دوبارہ ان کا رابطہ ہوا اور اس میں کے بعد جو کچھ طے ہوا ہوا اس پر عمل درآمد اب شروع ہوچکا ہے۔اطلاعات کے مطابق جلد ہی آٹھ رکن سندھ اسمبلی اور دو ایم این اے اور متعدد سیکٹر اور یونٹ انچارجز ان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے ۔ امکان ہے کہ ان کے ساتھ شامل ہونے والے وہ لوگ ہونگے جو ماضی میں کراچی تنظیمی کمیٹی کے رہنماء حماد صدیقی کے قریب تھے ۔حماد صدیقی پلاٹوں کی چائنا کٹنگ ، قتل اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں ملوث بتائے جاتے ہیں ۔تاہم مصطفی کمال نے انیس قائم خانی اور حماد صدیقی کے سانحہ بلدیہ کے واقعہ سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ دونوں اس میں ملوث ہوئے تو میں خود اپنے آپ کو پھانسی پر لٹکا لوں گا۔

مصطفی کمال کی یہی بات سنکر کراچی کے شہری بہت کچھ سوچ رہے ہیں ۔ مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ حماد صدیقی دبئی میں ملازمت کررہا ہے جبکہ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ نومبر میں پاکستان پہنچ چکے تھے اور اب حساس اداروں کی تحویل میں ہیں ۔ آنے والے دن اس بات کی تصدیق ہوسکے گی کہ کونسی بات درست ہے ۔
کراچی کے سیاسی حالات میں اس تبدیلی پر بہت کچھ لکا جاچکا ہے ۔ تاہم ملک کے مجموعی حالات پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس انور ظہیرجمالی نے گزشتہ دنوں جو کچھ کہا وہ بھی بہت اہم ہے ۔اور اس حوالے سے لکھنا بھی میں ضروری ہے سمجھتا ہوں ۔

ہفتے کو کراچی میں مصالحتی کمیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی جس انداز سے جو بات کررہے تھے اس کا ایک ایک جملہ انتہائی فکر انگیز تھا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے نام پر چند مخصوص گروہوں نے قبضہ کررکھا ہے ۔جس کی وجہ سے عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوگیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 68سال گزرنے کے باوجود ملک کو فلاحی ریاست نہیں بناسکے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ معاشرے میں سچ ،جھوٹ ، حلال اور حرام کا فرق ختم ہوگیا ہے ۔ ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں خوف خدا کا فقدان ہے ۔

چیف جسٹس کی باتوں سے میں اپنے ملک کے جمہوری نظام کے بارے میں سوچنے لگا اور کالم کے آغاز کرگیا ۔ جو کچھ میں نے ابتداء میں لکھا اس میں چار افراد کا ذکر کیا ۔ بغیر نام لکھے ان کے تذکرے کے باوجود تمام لوگ جان گئے ہونگے کہ میں نے کس کے بارے میں نشاندہی کی ہے۔میرا خیال ہے کہ چیف جسٹس نے جمہوریت کے نام پر جس گروہوں کے قبضے کی بات کی ہے وہ بھی اشارہ ایسے ہی لوگوں کی جانب سے جن کا میں ذکر کرچکا ہوں۔

ہمارے معاشرے کی عکاسی چیف جسٹس صاحب نے اپنے الفاظ میں بہت اچھی طرح کردی ۔لیکن عام لوگ ہر ایک ادارے کو معاشرے کی خرابی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔وہ اس لیے بھی ایسا سمجھنے پر مجبور ہیں کہ سوسائٹی میں کرپشن نے نہیں بلکہ کرپشن میں سوسائٹی لپٹ چکی ہے۔

پینے کے پانی سے لیکر مکان کی خریداری اور پیدل چلنے سے لیکر جہاز کے سفر تک لوگوں کا کرپٹ عناصر سے رابطہ پڑتا ہے ۔

محکمہ پولیس سے شہریوں کو ہی نہیں اب رینجرز اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو بھی شکایات ہونے لگی ہیں ۔ عدلیہ کی نظر میں بعض پولیس افسران وردی پہننے کے لائق بھی نہیں رہے ۔یہ صرف اس لیے ہوا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو مزید اور بے جا اختیارات ملنے کے بعد پولیس اپنے آپ کو زیادہ بااختیار سمجھنے لگی ہے ۔ وہ کیوں نہ سمجھیں جب پولیس کے افسران اور اہلکاروں کو یہ یقین ہوکہ ہم کو اس’’ سسٹم‘‘ میں لانے والے ہمارے حکمران ہیں تو وہ ہی ہماری حفاظت بھی کریں گے ۔

کراچی میں وفاقی حکومت کی دلچسپی اور عسکری قیادت کی غیر جانبدارانہ اور ایماندار کارروائی سے امن ہوگیا مگر شائد پولیس کو امن و امان کی یہ فضاء اچھی نہیں لگ رہی ۔ پولیس نے اپنی نااہلی سے پورے آپریشن کے نتائج کو ہی متنازعہ نہیں تو آلودہ کرکے رکھ دیا ہے۔سپریم کورٹ نے سوموٹو کارروائیوں کے دوران 2014-13میں کراچی میں امن و امان کی خرابی کا اصلی ذمہ دار اس وقت حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں بھی قرار دیا تھا ۔ مگر سیاستدانوں کی آشیرباد سے چلنے والے کرپٹ پولیس سسٹم کی کوشش ہے کہ امن و امان کی خرابی کا ذمہ دار کسی بھی طرح صرف کالعدم جماعتوں کو بنادیا جائے ۔ کراچی سے روزانہ نہیں تو ہر ہفتے پولیس کے ہاتھوں ایسے مبینہ دہشت گردوں کی مقابلے دوران ہلاکت کی خبریں آتی ہیں جو اپنے ہاتھوں میں جدید اسلحہ رکھنے کے باوجود بغیر کسی مد مقابل کو زخمی کیے بغیر ہلاک ہوجاتے ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ مرنے والوں کی ہلاکت کے بعد ان کے لواحقین یہ دعویٰ کرتے ہوئے سامنے آجاتے ہیں کہ ان کے پیارے کونامعلوم افراد یا پولیس والے چار چار ماہ پہلے لیکر گئے تھے۔

آج کرپشن ،کریمنل اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی خلاف کارروائی کے ساتھ ضروری ہے کہ کراچی آپریشن کے تحت پولیس کا بھی سخت احتساب کرنا ضروری ہے ۔اس مقصد کے تحت تین تین سال سے ایک ہی پوسٹ پر تعینات افسران کا تبادلہ کرکے ان کی سالانہ کارکردگی کا دیگر ایجنسی کے ذریعے جائزہ لیا چاہیے ۔دنیا بھر میں میں پولیس کی ترقی اور تعریف کے لیے جو نظام موجود ہے اس کے مطابق ہمارے نظام کو بھی بنانا چاہیے ۔ خصوصاَ کسی ملزم کی گرفتاری پر انعام دیے جانے کی روایت کو ختم کرکے ملزم کی سزا سے جوڑدینا چاہیے ۔ یعنی جب تک ملزم کو سزا نہ ہو اس وقت تک متعلقہ پولیس افسر کو انعام سے نوازنا نہیں چاہیے ۔اسی طرح ملزمان کے بری ہونے کی صورت میں نہ صرف انویسٹی گیشن افسر بلکہاسے گرفتار کرنے والے پولیس افسر کا بھی سخت احتساب کیا جانا چاہیے۔

سپریم کورٹ میں رینجرز کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ناقص تحقیقات کے باعث گیارہ سو سنگین نوعیت کے ملزمان کو رہا ہوئے ۔

جبکہ عدالت نے بھی امن و امان کے حوالے سے پولیس کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ امن و امان پولیس کی وجہ سے نہیں رینجرز کی وجہ سے ہوا ہے۔پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 70 میں سے 54کیس نمٹا دیے گئے ۔ اکثر مقدمات میں ملزمان بری ہوگئے ہیں اور 18جیل بھیج دیا گیا ہے ۔

دنیا بھر میں ملزمان کے بری ہونے پر متعلقہ پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے کیونکہ مہذب ممالک میں ملزماں کے بری ہونے کا مقصد وہ بے قصور تھے اور انہیں پولیس نے غلط پکڑا یا پولیس کی تحقیقات میں کوئی کمی رہ گئی تھی ، دونوں صورتوں میں پولیس کے خلاف کارروائی لازمی ہوجاتی ہے ۔ کیا ہمارے ملک میں بھی ایسا نظام بن سکتا ہے ؟

Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 151537 views I'm Journalist. .. View More