کراچی کی ترقی کا پہیہ چل پڑا ؟

وزیر اعظم نواز شریف نے جمعہ 26فروری کو کراچی میں گرین لائن بس سروس کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔طویل عرصے بعد مواصلات خصوصاََروڈ ٹرانسپورٹ کے حوالے سے شہر میں اس کی ضروریات کے مطابق کسی پروجیکٹ کی بازگشت سنائی دی اور اس پر عملی کام بھی شروع ہوا۔

اس منصوبے کے آغاز سے شہریوں کو خوشی ہے کہ وفاق کو خصوصاََ مسلم لیگ نواز حکومت کو کراچی کا خیال تو آیا۔وزیر اعظم نواز شریف نے رواں دورِحکومت کے آغاز کے دوسرے سال یعنی 10جولائی 2014کو کراچی کے دورے کے دوران ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے گرین لائن بس ریپڈ ٹرانژٹ سسٹم ( Green Line Bus Rapid Transit System)کی منظوری دی تھی ۔ 16ارب روپے لاگت کے اس پروجیکٹ کی جب منظوری دی جارہی تھی اس وقت شہر میں امن و امان کی صورتحال ایسی نہیں تھی جو اب ہے ۔تاہم اس وقت شہر کو امن کی طرف لے جانے کے لیے کوششوں اور فیصلوں کا آغاز ہوچکا تھا۔لوگوں کو جنرل راحیل شریف کی جانب سے ضرب عضب اور کراچی آپریشن کے شروع ہونے سے قوی امید ہوچکی تھی کہ اب کراچی کے حالات بدل جائیں گے اور توقعات کے مطابق ہی نتائج سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں ۔

کراچی کی بہتری کا کریڈٹ صرف عسکری قیادت کو دینا مناسب نہیں ہے ۔یقینا اس میں مسلم لیگ کی وفاقی حکومت کا بڑا حصہ اور دلچسپی ہے جس کے نتیجے میں آج کراچی پھر سے روشنیوں کے شہر کی جانب گامزن ہوچکا ہے۔

گرین لائن بس سروس کے افتتاح کے موقع پر شہر کے ماضی حالات کا گورنر سندھ عشرت العباد نے ذکر اپنے اس شعر سے کیا
’’ کراچی میں بس کا عجب معاملہ تھا۔۔۔نہ بس چل رہی تھی نہ بس چل رہا تھا‘‘۔

شعر سے ایسا لگتا ہے کہ عشرت العباد صرف روڈ ٹرانسپورٹ کے نظام کے مسائل تک محدود رہے لیکن دراصل ’’ بس نہ چل رہا تھا‘‘ کا ذکر انہوں نے یقینا ان مجموعی حالات کے تناظر میں کیا تھاجو گزشتہ کم ازکم بیس سال سے شہرکو ’’بے بس ‘‘کیے ہوئے تھے اور ان ہی حالات میں سب جانتے تھے کہ بحیثیت گورنر وہ بھی ’’بے بس ‘‘تھے ۔ان کی یہ بے بسی تو اپنی جگہ لیکن جس جماعت کے مقرر کردہ وہ گورنر ہیں ، اس کی بے حسی بھی مثالی تھی ۔ ان کی پارٹی نہ انہیں کام کرنے دے رہی تھی اور نہ ہی شہر میں امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کررہی تھی ۔جس کا اظہار گورنر نے ’’ نہ بس چل رہی تھی نہ بس چل رہا تھا ــ ‘‘ کے مصرعے سے کیا۔

وزیر اعظم میاں نوازشریف نے گرین لائن بس سسٹم کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’نیا کراچی جلد نظر آئے گا،اب کراچی کی ترقی کی بات ہوگی ‘‘ انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ کراچی کو ہمیشہ کے لیے جرائم سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے رینجرز اور پولیس کو ہدایت کی کہ آپریشن مزید تیز کیا جائے ۔

یہ بات اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ کراچی میں حالات کی خرابی کے ذمہ دار کون سے عناصر تھے ؟۔وہ کون لوگ تھے جو ہر کچھ دن بعد گھنٹوں کے اندر شہر بند کرادیا کرتے تھے ؟۔خوف کا وہ عالم تھا کہ لوگ جان سے جانے کی فکر میں سب کچھ جانتے بوجھتے پھر بھی مزاحمت توکجا ملوث لوگوں کے خلاف زبانی اظہار بھی نہیں کیا کرتے تھے ۔تاہم الحمد ﷲ ، اﷲ پاک نے اس زمانے میں بھی مجھے یہ ہمت دی تھی اور میں نے اپنے کالموں میں ایک سے زائد مرتبہ اصل ذمہ داروں کی نشاندہی کی تھی ۔ میں نے اپنی ایک تحریر میں کراچی سے عسکری ونگ کے ختم کیے جانے کے وزیراعظم کے عزم پر لکھا تھا کہ ’’ آج کراچی جنوبی وزیرستان سے زیادہ خطرناک ہوچکا ہے اگر یہاں سے سیاسی عسکری قوت کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو ملک خطرے میں پڑ سکتا ہے ــ‘‘۔

آج میرے لیے سب سے خوشی بات یہی ہے کہ الحمدﷲ کراچی کے حالات تیزی سے بہتر ہوئے اور ہورہے ہیں ‘‘۔شہر سے ٹارگٹ کلرز بھتہ خور پکڑے جارہے ہیں ، ان جرائم پیشہ کے سپرست بھی قانون کی گرفت میں آچکے ہیں ۔ سب سے اہم بات کے بہت اہم کرپٹ اور کریمنل چہرے سب کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں۔باقی بچ جانے والے مزید چہرے بھی انشاء اﷲ سامنے آجائیں گے ۔

وزیر اعظم نواز شریف نے گرین لائن بس سروس کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کرکے وفاق اور سندھ خصوصاََ کراچی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کا تاثر زائل کردیا ۔لیکن بات تو سو فیصد تسلیم کی جائے گی جب کراچی سرکلر ریلویز ، سمیت دیگر اہم منصوبوں پر بھی جلد سے جلد کام شروع کیا جائے ۔

صوبائی حکومت اور بلدیات کی منتخب قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اب ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کرکے مثبت اقدامات کی شروعات کرے ۔ فلائی اوور ، انڈرپاس بہت بند چکے اب ان کی مزید ضرورت نہیں رہی ۔ شہر سے محبت اور خلوص کا تقاضہ ہے کہ روڈ ٹریفک کے نظام کو بہتر بنایا جائے اور اس پر پھر پور توجہ دی جائے ۔ ٹریفک کا نظام بہتر نہیں ہوا توروڈ ٹرانسپورٹ کا ہرنظام ناکام ہوجائے گا چاہے وہ گرین بس ہو یا کوئی اور ۔

گرین لائن بس پر کام شروع ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہوجائے گا ۔ اس نظام کی بہتری اس وقت ہوگی جب پورے شہر میں گرین بس ریپڈ سروس سسٹم کی طرز پر نظام وضح کیا جاسکے ۔ شہری محسوس کرتے ہیں کہ گلشن معمار تا ٹاور براستہ شاہراہ پاکستان تین ہٹی اور گرومندر۔ اسٹیل ٹاؤن تا ٹاور براستہ شاہراہ فیصل ، آئی آئی چندریگرروڈ ۔ صفورہ چورنگی تا ٹاور براستہ یونیورسٹی روڈ ، نیو ایم اے جناح روڈ ، صدر اور قائد آباد تا براستہ لانڈھی کورنگی ٹاور بھی ٹرانسپورٹ کے جامع منصوبوں کی ضرورت ہے ۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے شہر میں پبلک روڈ ٹرانسپورٹ کا نظام نوے فیصد درست ہوگا ۔ باقی دس فیصد جو اندرونی علاقوں کو مین سڑکوں سے ملانے کا سسٹم ہوگا انہیں شٹل بس سروس کے ذریعے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔شٹل سروس کے لیے موجودہ چنجنگ رکشوں کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔

گرین لائن کے ایک بڑے منصوبے سے شہر کی ترقی کا عمل شروع ہوچکا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس عمل کو جاری رکھا جائے اور اس میں آنے والی رکاوٹوں کے لیے وفاقی ، صوبائی اور بلدیاتی قیادت اپنا کردار ادا کرتی رہے ۔ کراچی کی خوش قسمتی ہے کہ کراچی سے منتخب ہونے والے ملک کے چاروں ایوانوں یعنی سینیٹ ، قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلی اور مقامی بلدیاتی ایوانوں میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ان کے ہوتے ہوئے کراچی کی ترقی کا پہیہ نہیں رکنا چاہیے ۔ اگر یہ رکا تو ذمہ دار یہی ہونگے جو ان ایوانوں میں منتخب ہوکر پہنچے ہیں۔ اس لیے منتخب نمائندوں کو چاہیے کہ بڑے شہر کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے اپنے دلوں اور سوچوں کو بھی بڑا کریں ، کسی شخصیت کو منزل سمجھنے کے بجائے اپنی اصل منزل کے لیے جدوجہد کریں تاکہ زندگی بھی بہتر ہو اور آخرت میں بھی بڑا انعام کے حق دار ہوسکیں۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152207 views I'm Journalist. .. View More