میڈیکل کالجز ،لٹکتی تلواریں اور ایف سی پی ایس کشمیری ڈاکٹرز

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت اسلم ؒ کہتے ہیں کہ جب ہم حضرت عمرؓ کی خدمت میں عرض کیا کرتے کہ آپ ہمیں حضور ؐ کی طرف سے حدیث بیان فرما ویں تو وہ فرماتے مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ میں کہیں کوئی حرف گھٹایا بڑھا نہ دوں اور حضور ؐ نے فرمایا ہے جو جان بوجھ کر میرے بارے میں جھوٹ بولے گا وہ آگ میں جائے گا ۔

حضرت عبدالرحمن بن حاطب ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضور ؐ کے کسی صحابیؓ کو حضرت عثمان ؓ سے زیادہ مکمل اور زیادہ عمدہ طریقہ سے حدیث بیان کرنے والا نہیں دیکھا لیکن پھر بھی وہ حدیث بیان کرنے سے ڈرتے تھے ۔

حضرت عثمان ؓ فرماتے تھے کہ حضور ؐ کی طرف سے حدیث بیان نہ کرنے کی وجہ سے نہیں ہے کہ آپ کے صحابہ میں (آپ کی حدیثوں کا ) سب سے زیادہ حافظ نہیں ہوں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے حضور ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو میرے بارے میں ایسی بات کہے جو میں نے نہیں کہی ہے تو وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لے اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جو میرے بارے میں جھوٹی بات کہے تو وہ اپنا گھر آگ میں بنا لے ۔

قارئین آزادکشمیر میں سرکاری سطح پر ’’ مجاور او ر درویش حکومت ‘‘ کے تین کرشمے تین میڈیکل کالجز کی شکل میں میرپور ،مظفرآباد اور راولاکوٹ میں قائم ہیں ۔وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید اور ان کی کابینہ کے وزراء کی اکثریت گزشتہ چار سالوں سے ہر عوامی اجتماع اور جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ان تین میڈیکل کالجز کو ’’ شکار کیے ہوئے شیر ‘‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے خود ’’ بین الاقوامی شہرت یافتہ شکاری جم کاربٹ ‘‘ بن کر ہمیشہ نعرہ مستانہ بلند کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور اب اپنے اقتدار کے ممکنہ طور پر ’’ آخری سال ‘‘ اور ’’اگلی انتخابی مہم ‘‘ کے دوران امید واثق ہے کہ انہی تین میڈیکل کالجز اور بقول سابق وزیراعظم ،صدر آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس سردا ر عتیق احمد خان ’’ پولٹری فارمز اور ریسٹ ہاؤسز کی بلڈنگز‘‘ میں قائم شدہ نئی یونیورسٹیوں کو اپنے کریڈٹ پر لیتے ہوئے عوام سے ووٹ لینے کی کوشش کرے گی ۔آج ہم اپنے ناقص ترین علم کی روشنی میں اپنے خام ترین گاڑھے خلوص کے ساتھ کچھ چیزوں کا جائزہ لینے کی کوشش کرینگے او ر پڑھنے والوں سے بھی استدعا کرینگے کہ جہاں پر ہماری کوئی غلطی اور کوتاہی ہو اس کی تصیح بھی کر دیں اور لغزش کو خالصتاً انسانی خطا سمجھ کر معاف کر دیں ہم نے آج تک مختلف ایشوز پر جب بھی کوئی بات کی ہے اپنے تئیں سچ سمجھ کر اس پر کھل کر گفتگو بھی کی ہے اور اس حوالے سے طنز اور نفرت کے نشتر اور پتھر بھی برداشت کیے ہیں لیکن ہم اپنے ایمان کی روشنی میں یہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ بقول غالب
وفاداری بشرط ِ استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو گاڑو کعبے میں برہمن کو

ہم وزیراعظم چوہدری عبدالمجیدکے سر پر ہما کا پرندہ بیٹھنے سے لیکر آج تک چار سالوں کے دوران ہمیشہ ان کی غلطیوں پر ان کی اصلاح کے لیے تنقید کرتے رہے اور ان کے اچھے کاموں پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے رہے یہ الگ بات کہ ان کے انتہائی ذہین و فطین ’’ ایڈوائزرز‘‘ انہیں ہمیشہ یہ باور کرواتے رہے کہ ’’ انصار نامہ ‘‘ کا مصنف جنید انصاری جو کالمز تحریر کرنے کے علاوہ ریڈیو آزادکشمیر ایف ایم 93میرپور پر اسٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی رہنمائی میں ریڈیو پروگرامز بھی کرتا ہے اور آزادکشمیر کے سب سے پہلے لائیو ویب ٹی وی کشمیر نیو ز ڈاٹ ٹی وی کے علاوہ آزادکشمیر کے سب سے ٹی وی چینل جے کے نیوز ٹی وی کا ’’ نام نہاد سینئر اینکر ‘‘ بھی ہے اور جسے یار لوگ ’’ اندھوں میں کانا راجہ ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں وہ ان کی ’’ بادشاہی ،شہنشاہی اور وزارت عظمیٰ ‘‘ کا سب سے بڑا دشمن اور ناقد ہے ۔اس سب کے باوجود ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ پبلک رائٹس کے لیے ہم وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ،حکومت آزادکشمیر ،ریاستی مشینری اور بیوروکریسی سمیت دیدہ و’’نادیدہ ‘‘ قوتوں کو یہ باور کرواتے رہیں کہ زبان خلق کیا کہہ رہی ہے اور لوگوں کے دلوں میں پائے جانے والے جذبات کس طوفان کی شکل اختیار کر رہے ہیں اگر ہماری تنقید سننا ان مقتدر طاقتوں کے لیے ایک ’’ نا خوشگوار ‘‘ فعل ہے تو یقین جانیے کہ ایسے لوگوں کے بارے میں تحریر کرتے ہوئے ہمیں بھی کسی قسم کی کوئی مسرت نہیں ہوتی کہ جن کے افعال اور منصوبوں سے ایک عام آدمی اور ایک غریب انسان کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوتی جار ہی ہے ہم یہ تمام کا م مشنری بنیادوں پر کر رہے ہیں کہ اگر اﷲ نے ہمیں ٹوٹے پھوٹے الفاظ کہنے کی صلاحیت سے نوازا ہے تو ہم اس صلاحیت کو اﷲ کی دی ہوئی امانت سمجھ کر ایک غریب آدمی اور عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے استعمال کریں شاید رب کعبہ کو ہمارا یہ فعل پسند آجائے اور ہماری بخشش ہو جائے اﷲ ہمارے جذبوں کو مزید صادق کرے اور ہماری کوششوں کو درست سمت دے دے تا کہ ہم اپنی قوم کے لیے کچھ کر سکیں آمین ۔

قارئین بقول چچا غالب یہ کہتے چلیں
رونے سے اور عشق میں بیباک ہو گئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ ،بس پاک ہو گئے
صرف ِ بہائے مے ہوئے آلاتِ میکشی
تھے یہ ہی دو حساب ،سویوں پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے آوار گی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
کہتا ہے کون نالہء بلبل کو بے اثر؟
پردے میں گل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
اس رنگ سے کل اس نے اٹھائی اسد کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گئے

قارئین آئیے اب براہ راست موضوع کی طرف چلتے ہیں ہم نے پہلے بھی آزادکشمیرکے تین میڈیکل کالجز کے حوالے سے متعدد کالمز آپ کی خدمت میں پیش کیے ہیں آزادکشمیر کا ہیلتھ سٹرکچر اس وقت تک اپ گریڈ نہیں ہو سکتا جب تک آزادکشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز آزادکشمیر کے تینوں ڈویژن میں درست معنوں میں ٹیچنگ فیکلٹی کو تربیتی ہسپتالوں کے اندر ’’ ان کارپوریٹ ‘‘ کرتے ہوئے یہاں کی عوام کو طبی سہولتیں فراہم نہیں کرتے باوجود اس کے کہ چار سال گزر چکے ہیں اور تین میڈیکل کالجز اپنی بھاری برکم ٹیچنگ فیکلٹی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ان میں کام کرنے والے پروفیشنلز کوتنخواہیں دینے کے لیے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور حکومت آزادکشمیر ترقیاتی سکیموں کے پیٹ کاٹ کاٹ کر ان کالجز کو کسی نہ کسی طریقے سے چلا رہی ہے ابھی تک ٹیچنگ ہسپتالوں کے اندر نہ تو درست انداز میں پروفیسرز سے لیکر دیگر پروفیشنلز کی خدما ت سے استفادہ کیا جا سکا ہے اور نہ ہی ٹیچنگ فیکلٹی میں کام کرنے والے لوگوں کو وہ مناسب ماحول فراہم کیا جا سکا ہے جس کی اشد ضرورت ہے زیادہ دور مت جائیے دو گھنٹے کے فاصلے پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے بڑے بڑے ہسپتالوں پمز ،ہولی فیملی ہسپتال ،راولپنڈی جنرل ہسپتال المعرو ف محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال ،ڈی ایچ کیو ہسپتا ل راجہ بازار سے لے کر آرمی کے زیر انتظام چلنے والے ملٹری ہسپتال ،کمبائنڈ ملٹری ہسپتال ،اے ایف آئی سی سے لے کر مختلف اداروں کو دیکھ لیجئے جہاں ٹرشری لیول کی سہولیات عوام کو میسر ہیں اور پورے پاکستان سے بڑی تعداد میں پیچیدہ کیسز ریفر ہو کر یہاں آتے ہیں بڑے بڑے پروفیسرز اور بین الاقوامی سطح کی علمی شخصیا ت ان ہسپتالوں میں دکھی انسانیت کے درد کا درما ں کر تی دکھائی دیتی ہیں یہ سب ایک دن میں نہیں ہو گیا اس کے پیچھے بڑی محنت اور مشقت موجود ہے اور اس کا سہرا ان میڈیکل کالجز کے سر ہے کہ جن میں کام کرنے والے یہ ڈاکٹرز تربیتی سطح کی سہولیات ان ٹیچنگ ہسپتالوں میں فراہم کرتے ہیں آزادکشمیر میں تین میڈیکل کالجز قائم کرنے کے بعد عوام کی سب سے بڑی امید اس امر سے وابستہ تھی کہ ان میڈیکل کالجز میں کام کرنے والے بڑے بڑے پروفیسر ز اپنے کتابی اور عملی علم سے نا صرف میڈیکل سٹوڈنٹس کو فیض یاب کرینگے بلکہ غریب مریضوں کو علاج معالجہ کی ٹرشری لیول کی سہولیات آزادکشمیر میں ہی میسر آئیں گی بد قسمتی سے ابھی تک ہم یہ منزل حاصل نہیں کر سکے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید سرد گرم چشیدہ پروفیشنل ہیں اور اس میڈیکل کالج کے ساتھ آزادکشمیر کا پہلا ڈویژنل ہیڈ کوارٹرہسپتال جو میرپور شہر میں واقع ہے بحیثیت تربیتی ہسپتال منسلک ہے جبکہ نیو میرپور سٹی ہسپتال کو بھی پائپ لائن میں رکھا گیا ہے اسی طرح راولاکوٹ کے مقا م پر بننے والا غازی ملت پونچھ میڈیکل کالج جس کے پرنسپل پروفیسر ضیاء الرحمن ہیں کے ساتھ راولاکوٹ کا شیخ زید ہسپتال تربیتی ہسپتال کے طور پر کام کر رہا ہے جب کہ آزادکشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں قائم میر واعظ مولوی محمد فاروق میڈیکل کالج جس کے پرنسپل پروفیسر ظہیر عباسی ہیں کے ساتھ مظفرآباد کے بڑے ہسپتالوں کو تربیتی اداروں کے طور پر اٹیچ کیا گیا ہے کالم کے عنوان میں ہم نے میڈیکل کالجز کے ساتھ لٹکتی ہوئی تلواروں کا ذکر کیا ہے آئیے اب ان لٹکتی ہوئی تلواروں کے متعلق آپ کو آگاہ کرتے چلیں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل وہ ریگولیٹری ادارہ ہے جو پاکستان اور آزادکشمیر کے تمام میڈیکل کالجز کا جائزہ لیتا رہتا ہے اور جہاں پر بھی کوئی کمی کوتاہی ہو اسے دور کرنے کے لیے ’’ سفارشا ت یا تنبیہ ‘‘ جاری کرتا رہتا ہے ۔بقول ’’ پیلو مخبر ‘‘ ہم تک یہ اطلاع پہنچی ہے کہ آزادکشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز میں ابھی تک ٹیچنگ فیکلٹی بھی مکمل نہیں ہے اور پی ایم ڈی سی کی سفارشات کی روشنی میں ابھی تک ان تینوں میڈیکل کالجز کے ساتھ منسلک ٹیچنگ ہسپتالوں میں میڈیکل سٹوڈنٹس کو پی ایم ڈی سی کے معیار کے مطابق تربیتی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں یہاں پر معاملہ تھوڑا اور پیچیدہ اور گنجلک ہو جاتا ہے کہ ایک طرف تو بعض حلقوں کی طرف سے میڈیکل کالجز کی ٹیچنگ فیکلٹی پر الزامات عائد کیے جار ہے ہیں کہ وہ بڑی بڑی تنخواہیں لینے کے باوجود تربیتی ہسپتالوں میں خدمات فراہم کرنے سے کترا رہے ہیں اور محنت سے جی چرا رہے ہیں اور بعض حلقوں کے مطابق در اصل ان بڑے پروفیسرز اور ڈاکٹرز کو حکومت آزادکشمیر اور محکمہ صحت عامہ کے ارباب بست و کشاد نہ تو وہ طبی ماحول اور مشینری فراہم کر رہے ہیں جو پی ایم ڈی سی کے قواعد و ضوابط کے مطابق لازمی ہیں اور نہ ہی مقامی سطح کے لوگ ’’ پردیسی پرندوں ‘‘ کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ہم یہاں انتہائی دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ معاملہ دونوں جانب سے درست کرنے کی ضرورت ہے ’’ پردیسی پرندے ‘‘ ہمارے وہ معزز پروفیسر ز اور دیگر میڈیکل پروفیشنلز ہیں جو آزادکشمیر کی دھرتی سے تعلق تو نہیں رکھتے لیکن وہ آزادکشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز میں آ کر خدمات انجام دے رہے ہیں ایک طرف تو ان پردیسی پرندوں کی عزت نفس کا خیال رکھنا ضروری ہے اور دوسری جانب وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ آزادکشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز کو مضبوط ترین بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے آزادکشمیر کی دھرتی سے تعلق رکھنے والے ایسے ڈاکٹرز کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے جو مختلف شعبوں میں ایف سی پی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آزادکشمیر میں ان تینوں میڈیکل کالجز میں رضاکارانہ طور پر کام کرنا چاہتے ہیں حال ہی میں تین نوجوان ڈاکٹرز نے مختلف شعبہ جات میں ایف سی پی ایس کا امتحان پاس کیا ہے ڈاکٹر شکیل آصف نے شعبہ نفسیات سائکاٹری میں ایف سی پی ایس کا امتحان پاس کیا ہے جبکہ ڈاکٹر شعیب انجم نے آرتھو پیڈک اور ڈاکٹر عبدالغفور نے نیو رو سائنسز میں ایف سی پی ایس کا سنگ میل عبو ر کر لیا ہے ’’ پیلو مخبر ‘‘ کی مخبری ہے کہ مختلف حیلوں بہانوں سے ان تینوں نوجوان ڈاکٹرز کو آزادکشمیر کے میڈیکل کالجز میں ’ ’اسسٹنٹ پروفیسر‘‘ تعینات کرنے کی بجائے سینئر رجسٹرار کا ’’ ٹھنڈا میٹھا اور کھٹا لالی پاپ ‘‘ دے کر ان کے ساتھ زیادتی کرنے کی بھرپور کوشش کی جار ہی ہے ان تین سپیشلسٹ ڈاکٹر ز کے علاوہ ہمارے علم میں محکمہ صحت عامہ میں کام کرنے والے ایسے درجنوں ڈاکٹرز کے کیسز بھی موجود ہیں کہ جنہیں ’ ’ ٹیکنیکل گراؤنڈ ‘‘ پر ناک آؤٹ کرنے کا سلسلہ گزشتہ چار سالوں سے جاری ہے ۔آج کے کالم کی وساطت سے ہم وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید ،چیف سیکرٹری عابد علی ،اے سی ایس محمد تاشفین ،سیکرٹری صحت عامہ بریگیڈیئر طارق ،ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر سردار محمود اور دیگر تمام ’’ دیدہ و نادیدہ ‘‘ طاقتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ آزادکشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز کے سروں پر لٹکتی ہوئی پی ایم ڈی سی کی پابندی کی تلواروں سے مستقل بنیادوں پر بچنے کے لیے آزادکشمیر کی دھرتی سے تعلق رکھنے والے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کے سر پر دست شفقت رکھا جائے اور انہیں آزادکشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز میں میرٹ پر ہمدردی کی بنیادوں پر بہتر انداز میں ایڈجسٹ کیا جائے تا کہ آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے یہ پروفیشنلز وطن کے اندر رہ کر اہل وطن کی خدمت کر سکیں ۔یہاں ہم کسی بھی شخصیت پر نہ تو کوئی تنقید کررہے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا الزام عائد کر رہے ہیں میڈیکل کالجز میں کام کرنے والے پردیسی پرندے بھی بھرپور عزت اور تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے لاہور ،اسلام آباد ،پشاور ،کراچی ،فیصل آباد اور پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کو چھوڑ کر آزادکشمیر کے دیہاتی اور قصباتی ماحول میں قائم میڈیکل کالجز میں کام کیا اور اسی طرح ہم آزادکشمیر کے محکمہ صحت عامہ اور آزادکشمیر حکومت کے ’’ مجاورانہ دور ‘‘ کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ جنہوں نے ’’ جاپانی خود کشی ہاراکاری ‘‘ کی طرز پر بغیر کسی معاشی بنیا د کے ایک کی بجائے تین میڈیکل کالجز بنا دیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ فیصلے چاہے درست تھے یا غلط ان فیصلوں کی روشنی میں قائم ہونے والے اداروں کو مستحکم کیا جائے امید ہے کہ ہماری اس درخواست پر ’ ’ جلال ‘‘ میں آئے بغیر ہمدردی سے غور کیا جائے گا ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک آدمی نے سنیما منیجر کو فون کر کے پوچھا
’’ آج کون سی فلم چل رہی ہے ‘‘
سنیما منیجر نے جواب دیا
’’ میں نشے میں ہوں ‘‘
آدمی نے غصے سے کہا
’’ اگر آپ نشے میں ہیں تو فون کسی اورکو دے دیں ‘‘

قارئین اکثر اوقات عوامی حقو ق کی کوئی بھی بات کرتے ہوئے ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یا تو یہ دنیا مختلف ہے یا پھر ہم نشے میں ہیں اﷲ کرے زور جنوں اور زیادہ ۔آمین ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336124 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More