گیس کی لوڈشیڈنگ صرف پنجاب میں؟

فیصلہ کیا گیا ہے کہ صرف پنجاب میں سی این جی سٹیشنز کو دو دن کیلئے گیس سپلائی نہیں کی جائے گی۔ دو دن کیلئے صنعتوں کو بھی گیس سپلائی نہیں کی جائے گی۔ یہ زیادتی ہے اور مزید زیادتی یہ ہے کہ سندھ٬ بلوچستان٬ سرحد کے لئے گیس کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ تفریق کیوں ہے اس لئے کہ صدر زرداری کا تعلق سندھ سے ہے مگر وزیراعظم مخدوم گیلانی کا تعلق تو پنجاب سے ہے۔ مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم نہ بنایا گیا کہ اس کا تعلق سندھ سے ہے۔ پھر زرداری صاحب صدر کیسے بنتے۔ گیس کے معاملے میں پنجاب کے مخدوم گیلانی سے کیا توقع ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب یعنی خادم پنجاب نے بھی گیس کے لئے اس تفریق پر کوئی بات نہیں کی۔ پچھلے دور میں اس کی یہ آرزو ارادے میں ڈھلی تھی کہ پنجاب کو ایک اعلیٰ صوبہ بنایا جائے۔ اس میں وہ کامیاب بھی کچھ نہ کچھ ہوا مگر یہ اعلیٰ اب کے وہی اعلیٰ بن گیا ہے جو وزیراعلیٰ کا حصہ ہے۔ اب اعلیٰ کا لفظ خادم کے ساتھ بھی استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ انہیں اب اعلیٰ کی بجائے اعظم کے لفظ کے ساتھ محبت ہو گئی ہے۔ تیسری بار وزیراعظم نہ بن سکنے کی شرط شہباز شریف کیلئے کوئی پریشانی کا باعث نہیں کہ اسے تو پہلی بار وزیراعظم ہونا ہے جب ہونا ہے۔ نواز شریف قومی لیڈر ہیں ان سے گیس کی صوبائی تفریق کے لئے کسی بات کی توقع ہی نہیں مگر ابھی تو شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔ ان کی طرف سے شدید ردعمل کی امید تھی۔ وہ بھی ان دنوں گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ تقریر ان کی اہم تھی کہ ہم پنجاب میں گلگت والوں کیلئے کالجوں وغیرہ میں زیادہ کوٹہ کر دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم گلگت بلتستان کو پنجاب کی طرح ترقی یافتہ بنا دیں گے۔ پنجاب میں آجکل نہ بجلی ہے نہ آٹا نہ چینی۔ کونسی ترقی کی طرف شہباز شریف کا اشارہ ہے…؟

بجلی کی لوڈشیڈنگ مشکل سے کم ہوئی ہے اور شائد دسمبر میں پھر بھی ہو گی۔ چینی٬ آٹا اور ہر چیز کی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی ہے۔ اب گیس کی لوڈشیڈنگ بھی ہونے لگی ہے۔ لوگ بے چارے چینی٬ آٹا کے لئے قطاروں میں سارا سارا دن لگ کے ایک دو کلو چینی لیتے ہیں۔ وہ بھی اکثر نہیں ملتی۔ سارا سارا دن بجلی کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ بھی قطار میں لگنے والی بات ہے۔ انتظار کے لئے قطار لگانا پڑتی ہے۔ باہر لگائی جائے یا اندر لگائی جائے۔ اب گیس کے لئے بھی قطاریں لگیں گی۔ ذخیرہ اندوزی کی بڑی روایت ہمارے ہاں ہے مگر گاڑی میں کتنی گیس ذخیرہ کی جا سکتی ہے۔ اب گیس کے لئے بھی مافیا سرگرم ہوگا۔ اپنے عزیزوں اور کاروباری یاروں کو گیس ملتی رہے گی۔ سرکاری اور حکومتی لوگوں کو بھی ملے گی۔ صرف عام لوگ غریب لاوارث لوگ مارے جائیں گے۔ گیس نہ ہو گی تو پٹرول کے لئے بھی مار دھاڑ ہو گی۔ اب پٹرول بھی بلیک ہو گا۔ یہ بھی بلیک واٹر اور بلیک منی (کالی دولت) والوں کا کیا دھرا ہے۔ اس ملک کو دھیرے دھیرے تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ سب کچھ یہاں ہے مگر یہاں کیا کیا جا رہا ہے۔

ایک الطاف حسین ہے جس نے گیس کے معاملے میں پنجاب کے ساتھ زیادتی پر احتجاج کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گیس کی لوڈشیڈنگ کی بجائے غیر ترقیاتی اخراجات کم کئے جائیں۔ ایم کیو ایم اب پنجاب میں بھی اپنی سیاست شروع کر چکی ہے۔ پنجاب سے سرمایہ دارانہ٬ جاگیردارانہ اور امیرانہ سیاسی رواج کا خاتمہ کر کے غریبوں کی سیاست کا زمانہ آنے والا ہے۔ اس کا خوف ہر طرف ہے اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ مجھے امید ہے اب کسی سلسلے میں اور گیس کے معاملے میں پنجاب سے زیادتی نہیں ہوگی۔ پنجاب کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کیلئے یہ بات ایک امتحان کا درجہ رکھتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے حکمرانوں سے بات کرو تو وہ کہتے ہیں کہ یہ پچھلے دور کی وجہ سے ہے۔ پچھلے دور میں یہ حال تو نہ تھا۔ ہماری حکومتوں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ ہر بات کی ذمہ داری پچھلی حکومت پر ڈال دیتی ہیں۔ شریف برادران اور ن لیگ یعنی پنجاب حکومت والوں سے بات کرو تو کہتے ہیں کہ مشرف کو پھانسی دو۔ چینی نہیں مل رہی مشرف کو پھانسی دو۔ گیس کی بھی لوڈشیڈنگ صرف پنجاب میں ہو رہی ہے مشرف کو پھانسی دو۔ پہلے کہتے تھے مشرف ایوان صدر سے نکلے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب صدر زرداری کے پاس اس سے بھی زیادہ اختیارات ہیں اور زیادہ برا حال ہو گیا ہے۔ مائنس ون مشرف کے لئے تھا اب زرداری کیلئے بھی ہے۔ مائنس ون مائنس آل کی طرف بڑھ رہا ہے۔

پاکستان کی پوری تاریخ میں پہلی بار لوڈشیڈنگ شروع ہو رہی ہے۔ اس کے بعد پانی کی لوڈشیڈنگ بھی ہو گی اور پھر ہوا کی لوڈشیڈنگ اور پھر…؟ ن لیگ کے ایم پی اے ایک رانا صاحب (رانا ثناء اللہ نہیں) سیاست میں رانے بہت آ گئے ہیں٬ رانیاں بھی ہیں اور رعایا بے چاری برباد ہو گئی ہے۔ رانا ثناء اللہ بہت شیر ہیں۔ چودھریوں کے خلاف اسمبلی میں باتیں کرتے ہیں مگر گیس کے لئے؟ مسلم لیگوں کے اتحاد کی بات اس فساد میں پھر گم ہو گئی ہے۔

پنجاب کو نشانہ بنانے پر مرکز کے چودھریوں کے خلاف ٹھیک باتیں کرتے ہیں۔ گیس کے لئے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ہی رگڑا دے دیں کہ پنجاب کے خلاف یہ کام بھی وہی کرا رہے ہیں۔ ایم پی اے رانا صاحب نے کہا ہے کہ اب چونکہ ممبران اسمبلی مڈل کلاس سے آ رہے ہیں بے چارے بڑے مفلوک الحال ہیں۔ ان کیلئے مراعات میں پچاس فیصد کٹوتی کا معاملہ ابھی موخر کر دیا جائے۔ چنانچہ یہ غیر ترقیاتی اخراجات کم نہیں کئے جا رہے جبکہ الطاف حسین نے یہ اخراجات ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پر ایم کیو ایم کواستقامت دکھانی چاہئے۔ وہ ذرا دباتے ہیں تو مرکزی حکومت بالکل بیٹھ جاتی ہے۔

صدر مشرف کے خلاف تو میں بھی ہوں٬ سیاسی فائدے اٹھانے والوں سے زیادہ خلاف ہوں مگر گیس کے معاملے میں اس نے کہا تھا کہ یہ ہماری لائف لائن ہے اور ایران کے ساتھ معاہدہ امریکہ کے دباؤ اور بھارت کی منافقت کے باوجود پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتا رہا۔ اس کے بعد حکومت اور قومی لیڈروں نے اس حوالے سے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ پنجاب حکومت اور مرکزی حکومت عوام کو مصیبت میں ڈالنے کے لئے ایک ہے۔ میں بے قرار ہوتا کہ ہفتے میں دو دنوں کی پابندی پر لوگ کیا کریں گے۔ وہ جو مزدور اور دیہاڑی دار ہیں وہ کیا کریں گے جن کی آمدنی چھ ہزار ہے۔ ان کے تقریباً ایک ہزار کم ہو جائیں گے۔ ماہرین معاشیات حکمران غریبوں کیلئے ایک مہینے کا بجٹ نہ بنائیں٬ اپنے صرف ایک دن کے لئے پانچ ہزار کا بجٹ بنا دیں۔ وہ تو ایک کھانے پر اپنی فیملی کیلئے پچیس ہزار سے زیادہ خرچ کر دیتے ہیں۔ وہ پانچ ہزار سے کم کا جوتا نہیں پہنتے۔

پنجاب میں 25 لاکھ سے زیادہ گاڑیاں ہیں‘ ذرا سوچیں کہ پنجاب میں ہو گا کیا…؟ افراتفری اور نفسا نفسی پیدا کرنے کی باقاعدہ سازش کی جا رہی ہے۔ اس سازش میں امریکہ کے ساتھ ہمارے سارے حکمران شامل ہیں۔
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 17951 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.