ریسکیو.... 1122

کیا پاکستان میں ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ریسکیو 1122 ایک ایسی ایمرجنسی سروس ہے جسے عالمی سطح کی ہنگامی سروس کا ادارہ قرار دیا جا رہا ہے، اسے پاکستانی سطح کی سروس کیوں نہیں کہا جا سکتا۔ ہم اپنے اداروں، فلاحی تنظیموں اور سروسز کے شعبوں کو کسی معیار اور اعتبار تک کیوں نہیں پہنچاتے۔ ریسکیو 1122 حیرت انگیز سروس ہے یہ ایمبولینس سروس سے بہت آگے ہے، کوئی پکارے تو تو صرف سات منٹ کے اندر مطلوبہ جگہ پر پہنچتی ہے اور صرف یہ نہیں کہ مریض یا زخمی کو اٹھا کے ہسپتال پہنچائے، ایمبولینس کے اندر ابتدائی طبی امداد کے لئے سب کچھ موجود ہے۔ راستے میں ہی کسی کے مر جانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، وہ ہر ممکن سروس کے ساتھ بہ حفاظت اور باوقار انداز میں ہسپتال تک لے جاتے ہیں، مریض اس گاڑی میں ہسپتال سے زیادہ آسودگی اور عزت محسوس کرتے ہیں۔ اب تک تین لاکھ 90 ہزار 130 سے زائد ایمرجنسیوں میں تین لاکھ 94 ہزار 355 سے زائد متاثرین کو ریسکیو کیا گیا ہے۔ ریسکیو 1122 لوگوں میں بہت مقبول و محبوب بلکہ محترم ہو چکی ہے۔ بڑے احترام اور اہتمام سے لوگ اسے راستہ دیتے ہیں، لوگ ان کی کریڈیبلٹی کا اعتراف کرتے ہیں۔

چودھری سرور انگلستان میں ممبر پارلیمنٹ ہیں اپنے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک شاندار ہسپتال بھی انہوں نے بنوایا ہے۔ ایک تقریب میں انہوں نے کہا کہ انگلستان میں بھی ایسی سروس نہیں ہے، یہ ایک ایسے انسان کا اعتراف خدمت و عظمت ہے جو یورپ اور پاکستان میں معتبر اور معزز ہے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف تھے مگر چودھری سرور نے پہلے چودھری پرویز الٰہی کو خراج تحسین پیش کیا کہ ان کے زمانے میں ایک ایسی معرکہ آرائی کی گئی جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی پھر انہوں نے شہباز شریف کی بھی تعریف کی کہ انہوں نے اس شاندار سروس کو جاری رکھا ہے۔ ہماری حکومتیں پہلی حکومتوں کے سارے منصوبوں کو بند کر دیتی ہیں فلاحی اور تعمیری کام جاری رہنا چاہئے۔ چودھری پرویز الٰہی کے زمانے میں پہلے کے اچھے کاموں کو نہ صرف جاری رکھا گیا بلکہ آگے بڑھایا گیا اور نئے منصوبے بھی بنائے گئے۔ چودھری صاحب نے اپنے کئی کاموں کو آئینی تحفظ دے دیا۔ پنجاب اسمبلی نے اس منصوبے کی منظوری بھی دی اس کے باوجود کچھ افسران نے شہباز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ اس سروس کو بند کر دیں آغاز میں ہی رکاوٹیں بھی ڈالی گئیں، بیورو کریسی نے کبھی کسی فلاحی اور تعمیری منصوبے پر کام نہیں کیا تعمیر کی بجائے صرف تاخیر کا طرز عمل اپنایا گیا جو ردعمل سے بھی زیادہ منفی عوام دشمن اور ظالمانہ یعنی حاکمانہ بلکہ افسرانہ ہوتا ہے۔ خلق خدا کو دفتروں سے سوائے ذلت اور اذیت کے کچھ نہیں ملا۔ میں اسی لئے بیورو کریسی کو بُرا کریسی اور افسران بالا کو افسران تہہ و بالا کہتا ہوں۔ کچھ افسران اچھے ہیں مگر ذاتی طور پر ان کی اچھائی برائی کو نہیں روک سکی اچھے پولیس والوں سے بھی یہی شکایت ہے پولیس اور بیورو کریسی کو سیدھا نہیں کیا جا سکتا مگر ان سے کام لیا جا سکتا ہے۔ ریسکیو 1122 کا آئیڈیا ڈاکٹر رضوان نصیر نے پیش کیا تو بیورو کریسی نے بُری طرح مخالفت کی یہ ان کا وطیرہ ہے جو ہر ایسے معاملے میں اختیار کیا جاتا ہے وہ صرف افسری کرتے ہیں اور اسے حکومت سے زیادہ بنا لیتے ہیں حکمران چلے جاتے ہیں افسران مسلط رہتے ہیں ان کا احتساب کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ ان کے پاس نہ دل ہے نہ دماغ پھر بھی کام تو انہوں نے ہی کرنا ہے، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ان سے کام لینے کا طریقہ آنا چاہئے۔ چودھری پرویز الٰہی کی کوششوں اور ڈاکٹر رضوان نصیر کی محنتوں سے ریسکیو 1122 کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا۔ بیورو کریسی نے روڑے اٹکائے مگر بہت تحمل اور تدبر سے اس کی اہمیت اور افادیت کو ثابت کیا گیا اس کے بعد بیورو کریسی بھی تعاون کرنے پر مجبور ہو گئی افسران کہتے ہیں کہ کام کرو مگر لوگوں کی عزت نہ کرو، عزت کرنا بھی ایک ضروری کام ہے اور یہ کام ہمارے ہاں نہیں کیا جاتا۔ یہاں تو کوئی کام نہیں کیا جاتا کسی کو اپنا کام آتا بھی نہیں ہے ریسکیو 1122 والوں نے وہ کام کر دکھایا ہے جس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔

پاکستان میں ساری سروسز سب ادارے ریسکیو 1122 جیسے ہو جائیں تو انقلاب آ جائے، یہ لوگ اتنے پروفیشنل اتنے مخلص محنتی اور دل والے لوگ ہیں کہ ایسے لوگ کچھ زیادہ ہو جائیں تو بات بن جائے گی۔ ڈاکٹر رضوان نصیر نے بتایا کہ پہلے ہم نے کوشش کی کہ پہلے سے موجود کسی ادارے کو نئے ڈھانچے میں ڈھال لیتے ہیں اس کے لئے ہم نے سول ڈیفنس پر کام کیا اس کے علاوہ بھی کئی اداروں کو آزمایا مگر ناکامی اور مایوسی ہوئی۔ اب ریسکیو 1122 اور پہلے سے موجود محکموں کا موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ کہیں آگ لگ گئی، پوچھا گیا کہ کچھ بچا ہے بتایا گیا کہ فائر بریگیڈ والوں کی گاڑی بچ گئی ہے کہ وہ دیر سے پہنچی تھی۔ ہمارے اداروں میں لوگوں کے دل و دماغ اور ذہنیت کو تبدیل کرنا بڑا مشکل ہے۔ اب ریسکیو 1122 کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ذہن تبدیل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ کرپٹ بے کار نالائق اور سفارشی لوگوں سے جان چھڑانا ایک نازک مرحلہ ہے وہ سب ریسکیو 1122 کی کارکردگی کو دیکھیں اور اپنی اصلاح کریں۔

پنجاب ایمرجنسی سروس کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں بات ہوئی دیکھنے میں یہ ایک ایمبولینس سروس ہے مگر یہ اس سے بہت آگے ہے۔ اس ایمبولینس میں ایک چھوٹا سا ہسپتال بھی ہوتا ہے جتنی نگہداشت آسودگی اور ابتدائی طبی امداد کے ساتھ ہمدردانہ جذبہ ریسکیو 1122 کے کارکنوں میں ہے حیرت ہوتی ہے اور مسرت ہوتی ہے کہیں سے کوئی اطلاع آئے تو منتظر آمادہ اور بیدار لوگ بے قرار ہو جاتے ہیں اس فرض اور خدمت کو ایمان کادرجہ دیتے ہیں عام اور غریب لوگ مطمئین ہیں کہ انہیں بھی پورے وقار اور پروٹوکول کے ساتھ اٹھا کے لے جایا جاتا ہے۔ میں ایک دفعہ بہاولپور میں 1122 کے افتتاح کے موقع پر چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ تھا پنجاب میں تقریباً ہر کہیں یہ سروس فراہم کی جا رہی ہے میں نے چودھری صاحب کے ساتھ اس گاڑی کے اندر جا کے دیکھا کسی وی، وی آئی پی کے لئے جو سہولیات اور ماحول ان گاڑیوں میں موجود ہے۔ اب وہ اطمینان اعتماد اور افتخار کی علامت کی طرح ہیں، میری بہن کنیز کے گھر میں سامان اٹھاتے ہوئے ملازم کی ٹانگ ٹوٹ گئی اس وقت گھر میں کوئی مرد نہ تھا ریسکیو 1122 کو اطلاع دی گئی وہ لوگ آئے۔ انہوں نے خود ایک غریب آدمی کو گاڑی میں منتقل کیا۔ مرہم پٹی کی اور ہسپتال پہنچایا۔ ون فائیو پر دہشت گردی کے بعد رات دو بجے میں اور برادرم ظفر اقبال سدھو وہاں پہنچے تو کوئی بھی نہ تھا مگر ریسکیو 1122 والے موجود تھے۔ جنہیں پہلے پہل لوگ پاگل سمجھتے تھے کہ ایسی سروس پاکستان میں کیسے کامیاب ہو گی اب انہیں مسیحا سمجھا جاتا ہے۔ غلط کال کرنے کا رواج بھی ہمارے ہاں ہے، مگر ریسکیو 1122 کو کوئی غلط کال نہیں کی گئی لوگوں کو یقین ہے کہ یہ لوگ ہمارے ہمدرد اور مخلص ہیں .... وہ کبھی مذاق میں بھی ریسکیو 1122 کے عملے کو تنگ نہیں کرتے۔ اپنے کام میں سنجیدہ اور ماہر لوگوں کی عزت کرنا بھی ہمارے لوگوں کو آتا ہے۔ لوگوں کو اتنا اعتماد ہے کہ ان کے گھر شہد کی مکھیاں بھی گھس آئیں تو بھی وہ ریسکیو 1122 کو فون کر دیتے ہیں۔ ایک دفعہ باغ جناح میں بچوں اور لوگوں پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا تو ریسکیو 1122 نے ان کی مدد کی اور سب کو محفوظ بنایا۔ جب ہائی کورٹ بم دھماکہ ہوا تو زخمی پولیس والوں کو ریسکیو 1122 کے ذریعے میو ہسپتال پہنچایا گیا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ایم ایس ڈاکٹر فیاض رانجھا نے خود اپنی آنکھوں سے خدمت گزار لوگوں کو کام کرتے ہوئے دیکھا۔ جی ایچ کیو پر حملے کے دوران فوجی بھائیوں کا ہاتھ بٹانے کے لئے ریسکیو 1122 موجود تھی۔ پاک فوج ہر قربانی کے لئے تیار ڈسپلن اور کمٹمنٹ والا ادارہ ہے۔ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لئے فوج کو بلایا جاتا ہے۔ فوج نے اپنی مدد کے لئے ریکسیو 1122 کو بلایا تھا وہ زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر ایمرجنسی میں منتقل کر رہے تھے ان کے کپڑے خون سے بھر گئے مگر وہ سرخرو دکھائی دے رہے تھے۔
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 18033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.