بحرین میں پاکستانیوں کی حرکتیں!

70لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی روزگار اور تعلیم کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں، ان میں آدھے سے بھی زیادہ عرب ممالک میں رہتے ہیں، یہ لوگ وہاں سے درہم ودینار کماکر اپنے گھر والوں کو بھجواتے ہیں، اس سے پاکستان کی معیشت کو بھی بڑا سہارا ملتا ہے۔ ایک تو یہ وجہ ہے، دوسرا کئی علاقائی معاملات بھی ہیں، جس کی وجہ سے عرب ممالک ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے ان ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات رکھنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ ان میں سے ایک برادر ملک بحرین بھی ہے۔

چند لاکھ آبادی پر مشتمل بحرین خاصا خوش حال ملک ہے، یہ ایک بڑی لیبر مارکیٹ ہے، وہاں تنخواہیں بھی اچھی ملتی ہیں، اسی لیے دنیابھر سے لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد یہاں رہتی ہے، جو مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہے، پاکستانی حکومت سے اور حکومت پاکستانیوں سے خوش ہے۔ چھوٹے موٹے معاملات کے علاوہ دونوں میں کبھی کوئی ایسا تنازع پیدا نہیں ہوا جو باقاعدہ محاذآرائی تک پہنچ گیا ہو، سب لوگ خوشی خوشی اپنے بال بچوں کے لیے روزی کمارہے ہیں مگر کچھ عرصہ پہلے ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے بحرینی حکومت اور پاکستانی ملازمین باقاعدہ لڑپڑے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ پاکستانیوں کو اچھی بھلی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایک برادر ملک کے دل میں بھی کچھ ملال پیدا ہوا جو ایک فطری چیز ہے۔ اس واقعے کی آڑ لے کر پچھلے کچھ ہفتوں سے سوشل میڈیا پر بحرینی حکومت کے خلاف انتہائی نامناسب پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔

قارئین جاننا چاہتے ہوں گے کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا، جس کو بنیاد بناکر برادر ملک کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ بحرین اپنی پولیس اور فوج کے لیے کئی مماک سے بھرتیاں کرتا ہے، ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ کئی ہزار پاکستانی برسوں سے وہاں کے سیکورٹی اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پچیس، تیس سال کے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ سابق فوجیوں کو بھی بھرتی کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی 500 کے قریب سابق فوجیوں نے جنہیں پاکستان سے بھرتی کیا گیا تھا، وہاں جاکر ہنگامہ برپا کردیا، انہیں تنخواہ کے پیکیج پر اعتراض تھا، انہوں نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے باقاعدہ یونین بنالی تھی، بحرین کی حکومت کا موقف بالکل واضح تھا، اس کا کہنا تھا کہ تمام لوگوں کو بحرین آنے سے قبل تنخواہ اور دیگر سہولتوں کا پیکیج بتادیا گیا تھا، اتنا ہی نہیں سب نے اپنی خوشی سے معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس لیے اب شورشرابہ بلاجواز ہے۔ پاکستانیوں کا موقف تھا کہ انہیں باقی ملازمین جنتی سہولتیں دی جائیں، حالانکہ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک نئے ملازم کو بھی وہی مراعات حاصل ہوں جو وہاں برسوں سے کام کرنے والوں کو حاصل ہیں۔

پاکستانیوں نے بات صرف مطالبات تک نہیں رکھی، بلکہ وہ جلسے، جلوسوں اور ہڑتالوں پر اتر آئے۔ مذاکرات کے لیے آنے والوں کا گھیراؤ کیا گیا، حتیٰ کہ بعض اطلاعات کے مطابق انتہائی اعلیٰ فوجی افسر بات چیت کے لیے خود چل کر آیا تو پاکستانیوں نے اسے گالیاں تک دیں۔ ایسے کاموں کا جو انجام ہوتا ہے آخر وہی ہوا، بحرین کی حکومت نے سارے احتجاجیوں کو جہاز میں بھرا اور پاکستان لاکر پھینک دیا۔ یہ لوگ تو اپنے انجام کو پہنچ گئے مگر اس واقعے نے وہاں مقیم دیگر پاکستانیوں کے لیے کئی طرح کے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ بحرینی حکومت بھی ہوشیار ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے مستقبل میں پاکستانیوں کو ملازمت کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

بحرین میں مقیم پاکستانیوں کے اس واقعے پر جو تبصرے پڑھنے کو ملے ہیں، ان سے لگتا ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کی اس حرکت پر شرمندہ اور دل گرفتہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانیوں کے موقف کو کچھ دیر کے لیے درست مان بھی لیا جائے تب بھی انہوں نے مطالبات منوانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا اس کی کسی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی۔ احتجاجیوں کو بحرین کی روایات اور قوانین کے مطابق ہی کوئی راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ سہولتوں کے معاملے پر بھی ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہاں کی حکومت ملازمین میں کوئی تفریق نہیں کرتی، لیبر قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے، قانون کے مطابق جس کا جو حق بنتا ہے وہ اسے کسی بھاگ دوڑ کے بغیر خودبخود مل جاتا ہے۔ دراصل احتجاجی پاکستانیوں کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ جب وہ بحرین کے لیے بھرتی ہوئے تو تنخواہ کے بھاری پیکیج پر خوش تھے مگر جب انہوں نے بحرین پہنچ کر اور لوگوں کی تنخواہیں اپنے سے زیادہ دیکھیں تو نیت خراب ہوگئی، اس موقع پر لیڈر ٹائپ لوگ میدان میں کود پڑے، جنہوں نے سب کو زندہ باد اور مردہ باد کے پیچھے لگادیا، اس کا انجام جو ہوا اس پر اب وہ روپیٹ رہے ہیں۔

بحرین کا یہ قصہ دراصل ہماری ایک قومی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، ہم نے مغرب کی نقل میں یونین بازیاں تو شروع کردیں مگر مغربی ممالک کے ملازمین جیسا مزاج نہیں بناسکے۔ پاکستان کے تقریباً تمام سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں ملازمین کی یونینیں موجود ہیں۔ اس طرح کی یونینوں کا بنیادی مقصد ملازمین کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے لیکن سچ پوچھیے تو یہ یونین باقاعدہ مافیا بن چکی ہیں، اس چکر نے اداروں کو تباہ کردیا ہے، ملازمین حقوق کے نام پر فرائض سے باغی ہوگئے ہیں۔ کسی ایک ادارے کو کیس اسٹڈی کے طور پر لے لیں۔ مثلاً محکمۂ تعلیم کی بات کرلیتے ہیں، اس محکمے میں اساتذہ اور کلریکل اسٹاف کی الگ الگ یونینیں ہیں، سال میں چار پانچ مہینے تو ویسے ہی اسکول بند رہتے ہیں، کم ازکم 2 مہینے یونینوں کے انتخابات کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ کسی افسر کے لیے کسی اسکول پر چھاپہ مارنا ممکن نہیں رہا، وہ غیرحاضری یا کام چوری پر کسی ٹیچر کو معطل تک نہیں کرسکتا، اگر کوئی سرپھرا افسر کسی ٹیچر کے خلاف کارروائی کرہی دے تو یونین ہڑتال کردیتی ہے، بے چارے افسر کو معافی مانگ کر جان چھڑانا پڑتی ہے۔ کسی کلرک سے جواب طلبی نہیں کی جاسکتی ورنہ ’’قلم چھوڑ‘‘ہڑتال ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹروں کی یونینوں کو دیکھ لیں، ہسپتال میں مریض ایڑیاں رگڑرگڑکر مررہے ہوتے ہیں اور ’’مسیحاؤں‘‘ نے ہسپتال کے باہر مطالبات کی منظوری کے لیے دھرنا دیا ہوتا ہے۔ وکلاء کی تنظمیں تو لگتا ہے بائیکاٹ کے لیے ہی بنائی گئی ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا، وہاں کے ملازمین بھی ہڑتال کرتے ہیں، پلے کارڈ اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں مگر یہ سب کچھ ایک حد میں ہوتا ہے۔ یہ پاکستانیوں کی طرح بات بات پر کام چھوڑکر باہر کی طرف چھلانگیں نہیں لگاتے۔ اپنا حق مانگنے والے یہ ملازمین ڈیوٹی بھی پوری دیانت داری سے کرتے ہیں، ان کی یونینیں اداروں کو مضبوط اور ہماری یونینیں اداروں کو تباہ کردیتی ہیں۔ اگر آپ کو میری بات پر اعتراض ہے تو پی آئی اے، اسٹیل ملز اور ریلوے کی یونینوں پر نظر ڈال لیں۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 101611 views i am a working journalist ,.. View More