خیالات کیا ہیں

خیالات کا تسلسل ایک ریل گاڑی کی طرح ہے۔ ایک یاد کے ساتھ دوسری یاد، ایک جذبے کے ساتھ دوسرا جذبہ، بغیر کسی کوشش کے ذہن میں آجاتا ہے۔ لہذا ہم ہر لمحہ اور ہر لمحہ بیکار اور کارآمد ، مفید اور مضر ، اچھے یا برے خیالات کے دھارے میں بہتے رہتے ہیں۔ اور یہی خیالات کا قانون ہے۔

انسان اگر دن بھرکے خیالات کا ریکارڈ رکھے تو اسے پتہ چلے گا ، کہ اس نے دن بھر اپنے متعلق بہت کم سوچا اور دوسرون کے متعلق زیادہ سوچا۔ خیلات کہیں باہر سے نہن آتے، بلکہ اندونی طور پر پیدا ہوتے ہین اور ہر ایک خیال کی بنیاد میں کوئی جذبہ ہوتا ہے۔ اور چونکہ ہر جذبے میں طاقت ہوتی ہے، (انرجی)۔ ہر وہ جذبہ جو ہمارے ذہن میں رونما ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں مخصوص قسم کی کیمیاوی تبدیلیان پیدا کرتا ہے۔ جس سے دماغ اور اعصاب ، پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔

مثلا یکسوئی سے مطالعہ میں کسی نے اچانک چونکا دیا یا ڈرا دیا تو دھڑکن ، ہاتھ پاؤن میں سنسناہٹ، اچھل پڑنا، رونگٹے کھڑے ہوجانا، خوف اور دہشت کے علامات اور ردِعمل پیدا ہونا۔ (غدہ فوق الکلیہ۔ ایڈرنیل) کے نوری اور برقی تاثر کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ یہ کیفیت ایڈرنیل گلینڈ کی رطوبت کے فوری طور پر خون میں شامل ہونے سے ہوتا ہے۔

جس طرح ہر جذبے میں قوت(انرجی) ہوتی ہے، اسیطرح خیالات میں بھی انرجی ہوتی ہے، اور اس طاقت کی وسعت مختلف ہوتی ہے، جذبہ اور خیال کی قوت کا انحصار ، اس جذبہ یا خیال کی وسعت اور گہرائی ، شخصیت اور تربیت پر ہوتی ہے۔ اور یہ مختلف انسانوں میں مختلف درجہ کی ہوتی ہے۔ یہ اپنی ذات کو متاثر کرنے کے علاوہ دوسرون کو بھی متاثر کرتی ہے۔

انرجی کا قانون ہے، کہ وہ فضاء میں دائروں کی صورت میں پھیلتی ہے۔ اور ان دائروں کا سفر ایک مناسب حد تک یا وقت تک ہوتا ہے۔ اور پھر یکسان پھیل جاتا ہے۔ جسطرح کوئلون سے حرارت کا اخراج لہرون اور دائرون کی صورت میں ہوتا اور پھیلتا ہے۔ انسانی ٰخیالات بھی اسی نوعیت خارج ہوتے ہیں۔ اور جو شخص اس دائرے میں قدم رکھتا ہے ضرور متاثر ہوتا ہے۔ خیا لات کی یہ برقی لہرین ہر انسان کے اردگرد ایک مقناطیسی دائرہ بناتی ہیں۔ اور جو اس حلقہ ء تاثر میں آئیگا متاثر ہوگا۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے، کہ ہر شخصیت کا مخصوص مقناطیسی لہرون کا دائرہ ہوتا ہے ، جو اسکے اردگرد پایا جاتا ہے۔

اگر کوئی شخص مثبت قسم کی مقناطیسی لہرین، (نیکی، ہمدردی، خلوص،پاکیزگی، ایثار، سخاوت، محبت،)کا اخراج کریگا تومثبت تاؑثر پیدا ہوگا۔ اور اگر منفی قسم کی مقناطیسی لہرون ، مثلا ( نفرت، غصہ، جھنجھلایٹ، بےزاری، غم،انتقام ،حسد)کا اخراج کریگا۔ مثبت جذبات کشش اور قربت کا باعث بنتے ہیں ، اور منفی جذبات دوری اور تنہائی اور بے گانگی کا باعث ہوتے ہیں۔

بققول مرزا غالب:۔ ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم انجمن سمجھتے ہیں تنہاء ہی کیون نہ ہون۔
شخصیت کے مقناطیسی دائرہ تاؑثر کی طرح ۔ ہر جگہ و مقام کا بھی ایک دائرہ تاؑثر ہوتا ہے(جسے ماحول) کہتے ہیں۔ جیسے بعض جگہ یا ماحول کا خاص اثر ہوتا ہے۔ مثلا مسرت، خوشی، سوگواری، حسرت، کا احساس جو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔مثلا شاہی قلعہ لاہور، جہان دور رفتہ کے بادشاہون کا جاہ و جلال، رعب و ہیبت، اور ماحول انکی عظمت کا اک احساس دلاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یا پھر خانہ کعبہ کا ماحول اللہ پاک کی عظمت، کبریائی، جاہ ؤحشم ، انسان کی روح اور جسم پر اپنا ایک تاؑثر قائم کر تا ہے۔ اسی طرح جنگ عظیم اول و دوئم کے باقیات کا جس میں ہیروشیما، ناگاساکی کی تباہی کے اثرات انسان کے احساس پربرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ۔

بقول حضرت میر انیس؛۔ یہ بے سبب نہیں خالی گھرون کے سناٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکاں یاد کیا کرتے ہیں، مکینون کو۔
ہر انسان یا مکان یا مقام کے گرد خیالات کا ہالہ یا مقناطیسی دائرے ، اپنے وجود سے نکلنے والی مقناطیسی دائرون کے ذریعہ مھسوس کئے جاسکتے ہیں۔ " مطلب" ماحول ایک مادی چیز ہے۔
اسی طرح ' مختلف رنگ" بھی انرجی یا مقناطیسی" لہریں خارج کرتے ہیں۔ جنکے انسانی شخصیت پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ "مثلا"
سرخ رنگ۔۔۔۔۔ غصہ، غضب، جنسی جذبات، کا آئینہ دار ہے۔ ۔
سنہری رنگ ۔۔۔۔۔۔ لطیف ، محبت کا احساس دلاتا ہے۔
پیلا رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔بیماری، کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
نیلا رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روحانیت کا تاؑثر دیتا ہے۔
کالا رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوف اور دہشت، ویرانی کو ظاہر کرتا ہے۔ ۔
سبز رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شفقت کی علامت ہے۔
گہرا ذرد رنگ۔۔۔۔۔۔۔ حسد، بغض ، عناد کا احساس دلاتا ہے۔

اسی طرح " آوازیں " اپنا ایک مقناطیسی اثر رکھتی ہیں، اور انکا اتار چڑھاؤ جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ اور مختلف لہجون سے جذبات کا اظہار ہوتے ہیں جو انسان کے احساس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلا۔۔۔ اظہار محبت، جذبات، نفرت،اجنبیت،بےرخی،غصہ،عداوت،خوشامد،اخلاص کے مخصوص لہجے ہوتے ہیں۔

ہر رنگ، آواز کی اپنی مخصوس فریکونسی (لہر) مختلف ہوتی ہے۔ جسطرح سورج کی شعاعون کے رنگون کا دائرہ " اسپکٹورم" مختلف ہوتا ہے۔ اور اسی طول موج "فری کوئنسی" سے ان کی تخصیص ہوتی ہے، جسطرح ریڈیو پر مختلف اسٹیشن انکی مخصوص " فریکوئنسی" پر سنے جاسکتے ہیں۔

جو شخص اپنے جذبات اور خیالات کی مسلسل رؤ اور انکی رفتار کو کنٹرول کرسکے ، اور جب جی چاہے، ایک مخصوص نقطہ پر اپنی توجہ مرتکز کرسکے، یعنی خیالات کی مختلف النوع اور بکھری ہوئی قوتون کو ایک نقطہ پر مجتمع کرسکے۔ (جیسے آتشی آئینہ روشنی مرتکز کرتا ہے) تو ایسا آدمی یقینی طور پر ایک عظیم انسان ہے۔ اب جو آدمی اس قوت اعلیٰ کو جسقدر بھی اعلیٰ مقاصد کیلئے استعمال کرے ، وہ اسی قدر عظیم ہے۔اس قوت کا استعمال دولت، اقتدار، شہرت، علم، عمل،وغیرہ ۔ ہرمقصد کے لئے کرسکتا ہے۔ اور کامیاب ہوسکتا ہے۔ ۔

توجہ کی مشق کے ذریعے خیال کی قوت پر قبضہ پایا جاسکتا ہے، اور پھر آہستہ آہستہ دماغ میں وہ فریکوئینسی پیدا ہوجائے گی کہ دنیا کے خیالات پڑھنے مشکل نہ ہونگے۔ بلکہ مجسم شکل میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ ہر دماغ کے اردگرد خیالات کا ایک ہالہ ہوتا ہے۔ رنگ، آواز، روشنی سے مرکب ہے۔ اس کیلئے "متبادل تنفس" "شمع بینی" کی مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔

متبادل تنفس کی مشق؛
یہ سانس لینے کا مخصوص طریقہ ہے۔ اس میں شمال کی طرف رخ کرکے ، دوزانون بیٹھ کر آنکھین بند کرکے، داہنے ہاتھ کے انگوٹھے سے داہنا نتھنا بند کر کے سانس نہایت آہسستہ آہستہ اندر لیا جاتا ہے۔ پانچ سیکنڈ تک، پندرہ سیکنڈ تک سانس روکیں، چوتھی اور پانچوین انگلی سے بایان نتھنہ بھی بند کرلیں۔ پندرہ تک گنتی گننے کے بعد چوتھی اور پانچوین انگلی ہٹا لیں، اور آہستہ آہستہ سانس باہر چھوڑین، اب یہی عمل بائین طرف کے نتھنے کےساتھ دورائیں، (پہلے دائیں اور پھر بائیں) اسطرح پانچ مرتبہ یہ عمل دن میں دو دفعہ کرین۔ یعنہ صبح فجر کے وقت اور رات سونے سے قبل۔ تقریبا تین ماہ تک یہ مشق جاری رکھنے سے، پرانی شخصیت کے اند سے ایک نئی شخصیت جنم لینے لگتی ہے۔ اور اس تبدیلی کا احساس انسان کو قوت کے ساتھ ساتھ ہونے لگتا ہے۔

شعور اور لاشعور کی کار فرمائیاں:۔
ایک شخص جسکی عمر تیس سال تھی، گال میں درد کی شکایت کرتا تھا۔ جیسے کسی نے تھپڑ مارا ہو، درد شدید اور عصبی قسم کا تھا۔ علاج سے کوئی آفاقہ نہیں ہوا، تحلیل نفسی سے معلوم ہوا کہ تین سال کی عمر میں اس گال پر کسی نے تھپڑ مارا تھا، جس کا جواب وہ خوف کے مارے نہیں دے سکا تھا ، اور نہ ہی کوئی ردِ عمل کا اظہار کرسکا تھا۔ اور بد لہ لینے کی خواہش اسکے ذہن میں دب کررہ گئی ، اور درد کی صورت اختیار کر گئی۔ تحلیل نفیس سے مریض نے اس غم اور غصہ کا اظہار کیا اور اسکی دیرینہ تکلیف دور ہوگئی۔
تھپڑ کی تکلیف اور اپنی بے بسی ، جوب یا بدلہ نہ لے سکنا۔ لاشعور میں جاگزین ہوکر ایک عصبی تکلیف کا روپ دھار گئی۔ شعور اور لاشعور کی مثال بحری جہاز کی طرح ہے، جسکے دو حصے ہوتے ہیں، ایک اوپر والا حصہ جو پانی سے باہر ہوتا ہے۔ اسے ہم عرشہ (ڈیک ) کہتے ہیں اور وہ حصہ جو پانی کے اند ر ڈوبا ہوا ہوتا ہے، اسے ہم اندرونی حصہ یا (بیس) کہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح شعورکو ہم نفسِ ناطقہ کہتے ہیں ، اور اندرونی حصہ کو ہم لاشعور کو نفسِ امارہ کہتے ہیں،

شعور (نفسِ ناطقہ) کی تعریف ہم یوں بھی کر سکتے ہیں،۔ جب کسی چیز کا خیال اسکے دیکھے بغیر ذہن میں موجود ہو، اور ہمیں اسکے متعلق سب معلومات ہون، پورا ادراک اور تعلق ہو، اس کیفیت کو ہم شعور کہتے ہیں۔

لاشعور (نفس امارہ) جذبات کا ایک گودام ہے، اور شعور کے ان خیالات کا ذخیرہ، جو بیرونی روک ٹوک یعنی سماجی، اخلاقی، اور ذاتی مجبوریان کے باعث شعور کی سطح پر نہیں آسکتیں، لیکن ذہن کے اس ذخیرہ میں یعنی لاشعور میں چھپی رہتی ہیں، اور اپنے کام میں سرگرم رہتی ہیں، (جنہیں ہم یادیں بھی کہہ سکتے ہیں) ان ہی تکلیف دہ اور ناخوشگوار یادون کے باعث انسان ایک ذہنی دباؤ اور کشمکش کا شکار رہتا ہے، اور مختلف قسم کی عصبی اور ذہنی بیماریون میں مبتلا ہوجاتا ہے، یہ اسوقت ہوتا ہے، جب انسان کسی ناخوشگوار حادثہ کے موقعہ پر انسان ٹائیم بم کی طرح پھٹ پڑتا ہے۔ انہی وجوہات کی بناء پر بلڈ پریشر، ذہنی و اعصابی اور نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ اور کبھی کبھی ایک بات کو دہراتے رہنا، عجیب و غریب حرکات کرنا، مایوسی کا شکار ہونا، نیند میں چلنا، خامخواہ ہنستے رہنا، دوسرون کو تکلیف میں دیکھ کر خوشی محسوس کرنا، اپنے آپ کو یا دوسرون کو اذیت دیکر خوش ہونا، ذرا ذرا سی با ت پر غصہ کرنا۔ دوسرون کو شک کی نگاہ سے دیکھنا، شامل ہے۔ اگر ایسے مریضون کا تحلیل نفسی، کے ذریعے کسی ماہر نفسیات سے علاج کرایا جائے، اور لاشعورکے ذخیرہ شدہ خیالات کو ٹٹولا جائے اور انہیں مخصوص تریکون سے شعور میں منتقل کیا جائے تو مریض مکمل صحت یاب ہوسکتا ہے۔ اور ایک نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔

انسان صدیوں سے، مختلف تحقیقات اور تجربات کرتا آیا ہے۔ جیسے اوپر کی سطرون میں بیان کیا ، کہ مرکزیت اور خیالات کے ان سکڑتے پھیلتے دائرون کو ایک نقطہ پر جمع کرنے کو مرکزیت کہتے ہیں۔ جس پر مختلف ادوار میں انسان نے مختلف مشقون سے تجربات کئے اور کامیابیاں حاصل کی ۔ اور اپنے ذہنی انرجی کو ایک نقطہ پر جمع کر کے، حیرت انگیز نتائج حاصل کئے۔ جسمین ٹیلی پیتھی، روحانی منتقلی اور ہپناٹزم جیسے علو م شامل ہیں۔

ہم صرف توجہ ( کنسنٹریشن) کی تربیت سے اپنے ذہن کے سرکش اور منہ زور گھوڑے کو لگام دیکر قابو کر سکتے ہیں۔ کیونکہ خیال ایک نقطے سے دوسرے نقطے کی طرف بے تحاشہ جست لگاتا ہے۔ اور کہین سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔ اسپر قابو پانے کے لئے مظبوط قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہ ان بکھرے ہوئے خیالات کو پوری قوت کے ساتھ ایک مرکز پر مرکوز کی جائے، جس کے لئے لگاتا مسلسل محنت اور مظبوط قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ شوق اور لگن انسان کو یکتائے روزگار بنادیتی ہے۔

اپنے خیالات اور ذہنی انرجی کے ان پھیلتے اور سمٹتے دائرون کو ایک مرکز پر لانے کے لئے ارتکاز توجہ ضروری ہے۔ جسکے لئے مراقبہ، بلور بینی، شمع بینی ، شیشے کا پانی سے بھر ا ہوا گلاس، سفید کاغذ پر سیاہ نقطہ، پر پرسکون اور تنہائی میں اپنی نظرون کے سامنے رکھ کر مسلسل نظرین جمائے رکھنا، ایک مقررہ وقت تک۔ اس کے لگاتار اور مسلسل مشق ایک دن آپکو اپنے اندر ہونے والی حیرت انگیز تبدیلی کا احساس دلائے گی۔ اور آپ اپنے ذہن کے بے لگام گھوڑے کو قابو میں رکھ کر اپنی ذہنی قوت کو بڑھا سکتے ہیں۔ اوراپنی ذہنی صلاحیتون کو بڑھا سکتے ہیں۔

یاد رہے، کہ انسان کو اللہ پاک نے مٹی کے خمیر سے خلق کیا ہے۔ اور روح سے جاویدان کیا ہے۔ ہعنی انسان (فناء اور بقاء ) ماحاصل ہے۔ انسانی جسم مادی ہے، فناء ہونے والا اور مٹی میں مل جانے والا۔ اور اصل چیز روح ہے، جسے بقاۓ ء ہے، ہمیشہ رہنے والی۔ یہی وہ انرجی ہے ، جو انسان کو حواسِ خمسہ عطاء کرتی ہے۔ اور انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے۔ اور اس روح کو مٹی کے اختیار میں دیکر یعنی( بقاء کو فناء ) کے تابع کردیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے، جو ہمیشہ رہنے والی ہے، وہ مٹ جانے والے عنصر کی قید میں ہے۔ اور اسکا ہر حکم بجا لانے پر مجبور ہے ۔ چاہے وہ اچھا کا م ہو یا برا، صحیح ہو یا غلط، پھر روح کی غذا کو تزقیہء نفس بنا دیا ، اور جسم (مٹی) کے لئے نعمتون کے ڈھیر لگا دئے۔ انواع اقسام کے کھانے، مشروبات، حس و شباب، خوشبودار اور ذئیقہ دار میوہ جات۔ گوشت، پھل فروٹ۔ یہ سب فناء کے لیئے ہے ۔ اور بقاء کیلئے تزکیہ۔ مشقت، صبر، پرہیز، روزہ، نماز، یعنی ہر اس چیز کی نفی جو فناء کے لئے ضروری بنادی۔ تو کیا اللہ پاک نے انسان پر ظلم کیا۔؟

نعوزباللہ۔ میرے منہ میں خاک۔ اسکے ساتھ ہی اللہ پاک نے میزان بھی تو قائم کیا۔ اور انسان کی (فناء اور بقاء ) دونون کی ترقی اور سالامتی کے لئے ۔ اور ہدایات بھیجین، قوانین بناکر کبھی زبور،کبھی تورات، کبھی انجیل، اور بلا آخر قرآن پاک بھیجا۔ آئین ، ضاابطہ اخلاق و حیات بناکر۔ اور آخری نبیﷺ بھیجے، کہ اس مٹی کے جسم (فناء) اور روح(بقاء) کی حفاظت کیسے کرنی ہے، کیونکہ اس مٹی کو بھی ایک دن اللہ پاک کے حضور پیش ہونا ہے۔ اور اپنی کارکردگی کا حساب دینا ہے۔ اور اپنی بقاء کی سلامتی کی فکر کرنی ہے۔ کہ اسنے کبھی فناء سے شکوہ نہین کیا۔ کہ تو نے اپنے آرام کیلئے تو سارے اسباب کئے، اور میرے لئے کیا کیا۔ میں تو حکم ربی بجا لائی اور تیرے حکم بجا لاتی رہی، کیا میرا تجھ پر حق نہ تھا۔ کہ تو میری آسائش کی فکر کرتی۔ دنیا تیرے لئے تھی، اور جنت میرے لئے بنی تھی،

کاش ہم اپنی دنیاوی صلاحیتون کو اللہ پاک کے احکامات، اور نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقون کے مطابق ڈھال کر اپنی بقاء کی فکر کرین، جس کے لئے مرکزیت ضروری ہے۔ اور اسکے لئے مشق کی ضرورت ہے۔ یکسوئی کی ضرورت ہے۔ اپنے خیالات اور ذہنی انرجی کے دائرون کو ایک مرکز پر ایک نقطہ پر لانا ہوگا۔ اور بحیثیت مسلمان ہمارا نقطہ ہے۔ عمل توحید۔ ( لا الٰہ اللہ) اور اس مرکز پر پہچنے کا طریقہ ہے ۔ ( محمدرسول اللہ) ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر حیاتِ جاویدان کو پا لینا ۔ تاکہ ہماری فناء اور بقاء دونون اللہ پاک کی نوازشات، اور انعامات کی حقدار بن سکیں۔۔۔۔۔۔

اللہ پاک ہمیں اپنی دنیا اور آخرت بنانے اور سنوارنے کا موقعہ عطاء فرمائے۔ اور دونون جہانون میں سرخرو کردے ۔ ( آمین، ثمہ آمین یا رب العالمین)
فاروق سعید قریشی
About the Author: فاروق سعید قریشی Read More Articles by فاروق سعید قریشی: 20 Articles with 19499 views میں 1951 میں پیدا ہوا، میرے والد ڈاکٹر تھے، 1965 میں میٹرک کیا، اور جنگ کے دوران سول ڈیفنش وارڈن کی ٹریننگ کی، 1970/71 میں سندھ یونیورسٹی سے کامرس می.. View More