کیا ۲۰۱۴ء کے انتخاب کے لیے مسلمانوں نے اپنی حکمت عملی تیارکرلی ہے؟

باسمہ تعالیٰ

۲۰۱۴ء کے پارلیمانی الیکشن کاوقت جوں جوں قریب آتاجارہاہے،سیاسی مداری نئے نئے تام جھام کے ساتھ اپنی بازیگری دکھانے کے لیے میدان میں کودتے جارہے ہیں،لیکن اس بارکاالیکشن کچھ اپناالگ ہی رنگ دکھانے والامحسوس ہوتاہے۔گذشتہ۶۷؍سالوں سے ہرالیکشن کے موقع پہ وہی کھیل ہوتاہے،وہی کھلاڑی ہوتے ہیں،وہی تام جھام اورراگ وآلاپ ہوتے ہیں،ہاں طریقہ کارکچھ مختلف ضرورہوتاہے،تاکہ تماش بینوں کوکچھ نیاپن ضرورمحسوس ہو،لیکن ایسالگ رہاہے کہ اس بار کے کھیل کچھ زیادہ ہی نرالے اورانوکھے ہوں گے۔گذشتہ سالوں کے الیکشن میں کچھ حدتک کوئی نہ کوئی سیاسی پارٹی اپنی جیت کے لیے پراعتمادضرورہوتی تھی لیکن اس بارکاماحول یہ بتلارہاہے کہ سبھی سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی انجانے خوف میں مبتلاہے،جس کااظہاران کے لیڈران کی بے محل اوربے تکی باتوں سے ہورہاہے۔ہاں اس بارکے الیکشن میں ایک خاص بات اوریہ نظرآرہی ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت نے ایک ایسے شخص کواپنی پارٹی کی جانب سے ’’وزیراعظم‘‘کاامیدواراعلان کردیاہے جوکہ بین الاقوامی سطح پرمسلم دشمنی میں اپنی مثال آپ ہے،اسے اگر انسانیت کادشمن کہاجائے تووہ زیادہ مناسب ہوگا،اس اعلان میں پارٹی میں لیڈرشپ کے فقدان اورعوام کے دوران عدم اعتمادکوواضح طورپرظاہرکرتاہے،جس کاپارٹی کے سینئر لیڈران نے کھل کرمخالفت بھی کی تھی،لیکن یہ شخص جسے کچھ لوگ ہندوہردے سمراٹ کالقب دیتے ہیں اورکچھ لوگ جس کاموازنہ ہندستان کے پہلے وزیرداخلہ سردارپٹیل سے کرنے میں بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے، وہ شخص بھی جہاں ایک طرف اپنی وزیراعظم کی کرسی کے حصول کے خواب دیکھ رہاہے تودوسری جانب مسلم دشمن شبیہ کومٹانے کے لیے مختلف طرح کے ہتھکنڈے اورحربے استعمال کررہاہے تاکہ مسلمان ان سے دورنہ ہوں اوران کاووٹ بھی ان کی جھولی میں آگرے،یہ ایک ایساخوف ہے جوکہ دوسری بڑی پارٹیوں کوبھی ستارہاہے اور دن میں تارے نظرآرہے ہیں اوراس خوف سے نکلنے کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ کواپنی جھولی میں ڈالنے کے لیے وہ تمام حربے اورہتھکنڈے استعمال کرنے پراترآئی ہے ،ماضی میں جس کی نظیرکم ہی ملتی ہے۔ اس دوڑمیں بی جے پی ہویاکانگریس،سماج وادی ہویاپھرملک کی دیگرچھوٹی وبڑی سیاسی جماعت سبھی اس بار مسلمانوں کی طرف سے کسی نہ کسی انجانے خوف میں ضرورمبتلاہیں،بی جے پی تواس لیے بھی زیادہ خوف کاشکارہے کہ اب اس کے پاس رام مندرجیسامدعابھی نہیں جس کی بدولت اسے اکثریتی فرقہ کاتمام ووٹ ملنے کی خالص امیدہو،اوردوسری جانب ایک ایساشخص پی ایم کاامیدوارہے جس کے نام سے ہی بہت سارے لوگ اس پارٹی سے دورہونے لگے ہیں،اسی طرح کانگریس کے سرپرمسلمانوں کے خلاف جرائم کااتنابڑاٹوکراہے کہ جسے اگرصحیح سے کریددیاجائے تواس کی سیاسی موت یقینی ہے،اورحالیہ دنوں میں مظفرنگرکے فسادنے سماج وادی کوبھی کٹہرے میں کھڑاکردیاہے،ان حالات میں دیکھنایہ ہے کہ مسلمانوں نے ۲۰۱۴ء کے انتخاب سے متعلق کیاحکمت عملی اپنائی ہے؟ یاابھی تک انہوں نے کوئی فیصلہ ہی نہیں کیاہے،اورایک بارپھرہمیشہ کی طرح اپناقیمتی ووٹ کسی ایک سیاسی پارٹی کی جھولی میں ڈال کرپھرسے پانچ سال کے لیے بے دست وپاہوجائیں گے؟

غورکرنے کامقام یہ ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں نے اپنی کیاحکمت عملی تیارکی ہے؟کیاہمیشہ کی طرح اس باربھی مسلمان بھیڑچال کی روش کواپناتے ہوئے اورکبھی وفانہ ہونے والے وعدوں پریقین کرتے ہوئے اسی طرح ایک مخصوص سیاسی جماعت کواپنے ووٹوں کے بل پراقتدارکوتھال میں سجاکرپیش کردیں گے؟اورپھراس امیدپرجیتے رہیں گے کہ چلو اب تک نہیں لیکن اس بار سارے وعدے ضروروفاہوں گے؟اگراس باربھی ایساہی ہواتویہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑی شکست ہوگی،شکست ہی نہیں بلکہ بے غیرتی کی موت، اور وہ بھی ایسی موت کہ جس پرشایدتاریخ بھی آنسوبہاناپسندنہ کرے؟ ہندوستان کوانگریزوں کی غلامی سے آزادہوئے تقریبا۶۷؍برس ہوچکے ہیں،لیکن ہندوستانی مسلمان اب بھی ذہنی طورپرسیاسی جماعتوں کے غلام بنے ہوئے ہیں،آج تک انہوں نے اس ذہنی غلامی کی زنجیرکوتوڑنے کی فکرنہیں کی،جس کاخمیازہ ہندوستانی مسلمانوں کوبھگتناپڑرہاہے،اس کی سب سے بڑی وجہ اتحادکافقدان اورمسلم قیادت کی کمی ہے،آج بھی جب کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصدکے حصول کے لیے مسلمانوں کے ووٹ بینک پرشب خون مارنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اورحربے استعمال کررہی ہے،مسلمان ان باتوں سے بے خبراپنی ہی سرمستی میں مگن ہے،سیاسی جماعتیں مسلمانوں کوایک بارپھرسے اپنے آئینہ میں اتارنے کے لیے اپنے منصوبوں کوعملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے،لیکن مسلمان اب بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہاہے۔آخرکیوں؟جیسے جیسے ۲۰۱۴ء کے الیکشن کاوقت قریب آتاجارہاہے،سیاسی گلیاروں میں مسلمانوں کے ووٹ بینک پرشب خون مارنے کی حکمت عملی تیارکی جارہی ہے،ایسے میں جہاں ایک طرف پھرسے وہی پراناکھیل کھیلا جا رہا ہے اورایک بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے بلندآوازمیں مسلمانوں کوڈرانے اوربہلانے پھسلانے کاعمل شروع ہوچکاہے اورمسلمانوں کواس طرح کی آوازلگاکرڈرایاجارہاہے کہ مسلمانوں!ہم ہی تمہارے مسیحاہیں،اس ملک میں ہم نے ہی تمہیں حفظ وامان عطاکی ہے،تمہاری جان ومال کی حفاظت کی گارنٹی صرف ہماری پناہ میں ہے اس لیے تمہیں ہمارا ہی دامن تھامناہوگاورنہ تمہاراحشربقیہ ہندوستان میں بھی ویساہی ہوگاجیساکہ گجرات میں ہوا،جیساکہ ابھی حال ہی میں مظفرنگرمیں ہوا،وہیں دوسری جانب سے یہ آوازبھی سنائی دے رہی ہے کہ مسلمانوں!تم پھرسے دھوکہ نہ کھاؤ،یہ وہی سیاسی جماعت ہے جس نے آزادی کے بعدسے تقریبا۵۰؍سالوں تک تمہارااستحصال کیا،تمہاری جان ومال سے کھیلواڑ کیا،تمہیں کھلونے دے کربہلایااورجھوٹی تسلی دی کہ نہیں ہم نے تمہیں ترقیات کے بام عروج پرپہونچایا،مسلمانوں!ہوشیارہوجاؤ،ایک بارپھرسے یہ تمہیں یرغمال بنانے کے لیے میدان میں کودپڑا،تم اس کے فریب میں مت آنا،بلکہ ہماری پناہ میں آجاؤ،دیکھوہم نے گجرات میں کس طرح مسلمانوں کاکلیان کیاہے،مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں ہم نے کس طرح مسلمانوں کو ترقی کے بام عروج پرپہونچایا،اتناہی نہیں جب تک ہم بہارمیں حکومت میں تھے ہم نے بہارکودہشت گردی سے پاک رکھالیکن ہمارے الگ ہوتے ہی بہارپردہشت گردی کامنحوس سایہ پڑگیا،لیکن ایسااعلان کرتے وقت وہ شایدیہ بھول جاتے ہیں کہ وہ منحوس سایہ توآپ ہی ہیں،یہ آپ ہی کی ذات کی کرشمہ سازیاں ہیں کہ جہاں جہاں آپ کے قدم نامبارک پڑے وہاں وہاں انسانیت تڑپ اٹھی اورحیوانیت کاایساننگاناچ کھیلاگیاکہ خودآپ کے جدامجدشیطان کوبھی اس انسانیت سوزحرکت پہ شرم آگئی۔آخرکب تک ہمارے ساتھ یہ کھیل کھیلاجاتارہے گا،ایک ڈرائے گادوسرادھمکائے گااوراس ڈراوردھمکی کے دوپاٹوں کے بیچ پس کرہم لہولہان ہوتے رہیں گے اوراپنے قیمتی ووٹ کوبربادکرتے رہیں گے،آخرکب تک؟ آخرکب تک ہم سیاسی ذہنی غلامی کے شکاربنتے رہیں گے؟کیااب بھی وہ وقت نہیں آیاکہ ہم ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکرایک ایسااتحادقائم کریں کہ ہم سے ووٹ مانگنے سے پہلے ہرسیاسی پارٹی ہزاربارنہیں لاکھ بارسوچے،اوروہی پارٹی ہماری ووٹوں کی حقداربنے جو ہمارے مطالبات کوپوراکرنے کاعہدوپیمان باندھے۔

اس وقت موجودہ صورت حال کودیکھتے ہوئے یہ بات واضح طورپرسمجھ میں آتی ہے کہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کے پاس جہاں ایک طرف لیڈرشپ کی کمی ہے وہیں دونوں نے اپنی سابقہ کارکردگیوں سے عوام کی نظروں میں اپنااعتمادکھودیاہے،دونوں کے پی ایم امیدوارپپواورنمواس لائق نہیں کہ ہندوستان کی قیادت کی باگ ڈوران دوناتجربہ کار اور غیر موزوں شحصیت کے ناتواں کندھوں پرڈالی جائے،ہمیں بہرحال اس حقیقت کومدنظررکھناہوگاکہ یہ دونوں ہی اس عظیم عہدہ کے لیے نااہل ہیں،مظفرنگرواقعہ کے تناظرمیں مسلم نوجوانوں کے سلسلہ میں راہل گاندھی کابیان یاتوانتہائی بچکانہ تھایاپھرکسی گہری سازش کا شاخسانہ، بھلاایساشخص جس کی نظروں میں اس کے ملک کاایک طبقہ پہلے سے ہی مشکوک ہوجائے وہ اس عظیم منصب پربیٹھ کرکیاگل کھلائے وہ تواﷲ ہی کومعلوم ہے۔انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی کچھ مسلم تنظیموں کی جانب سے آئے دن اخبارات میں اس طرح کے اعلانات شائع ہورہے ہیں جس میں مسلمانوں کوسیاسی غلامی سے آزادی دلانے کی بات کی جارہی ہے،ابھی کچھ دنوں قبل ایک مسلم تنظیم نے بیس نکات پرمشتمل ایک اشتہارشائع کیااورساتھ ہی سیاسی پارٹیوں سے یہ مطالبہ کیاکہ جوان مطالبات کوپوراکرنے کاعہدکرے گامسلمان اسی کے ساتھ جائے گا،بہرحال اسے ایک اچھی کوشش کہی جاسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیل اس وقت تک منڈھے نہیں چڑھے گی جب تک کہ تمام مسلم تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکرکم ازکم مشترکہ پروگرام کے تحت غیرضروری مطالبات سے گریزکرتے ہوئے صرف ایسے بنیادی مطالبات کواپنی فہرست میں جگہ دے جومسلمانوں کے لیے آنے والے وقت میں میل کاپتھرثابت ہو،اوریہ کام اسی وقت ہوسکتاہے جب کہ تاروں میں بکھرے ہوئے یہ ملی تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکرخورشیدمبیں بنیں تبھی سیاسی جماعتیں ہمارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پرمجبورہوں گی،ورنہ ہمیشہ کی طرح وہی ہوگاکہ ہرکوئی اپنے اپنے مفادات سے وابستہ ہوکرکسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے حق میں حمایت کااعلان کردے گااورنتیجہ ہمیشہ کی طرح وہی ڈھاک کے تین پات کی شکل میں نکلے گا۔اسی لیے خداکے واسطے ملت کے قائدین سے دست بستہ گذارش ہے کہ خدارااب توایک ہوجائیں،اپنے معمولی مفادات کوپس پشت ڈال کرملت اسلامیہ ہندیہ کے اجتماعی مفادات کوسامنے رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں سے سودے بازی کریں اورانہیں مجبورکردیں کہ ان کے سامنے ہمارے مطالبات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ کارنہ ہو،خواہ اس کے لیے دونوں بڑی جماعتوں سے ہٹ کرچھوٹی چھوٹی علاقائی سیکولرپارٹیوں کومتحدکرکے ایک تیسرامحاذہی بنانے کی نوبت کیوں نہ آئے،لیکن ان دوبڑی جماعتوں کاغرورتوڑناہی وقت کااصل تقاضاہے،ورنہ ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے کاڈردکھاکرایک بارپھرسے وہی ہوگاجوگذشتہ ۶۷؍سالوں سے ہوتاآرہاہے۔فی الوقت ہندستان میں مسلمانوں کے لیے سب سے بڑامسئلہ جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت کاہے،مسلم قائدین اورملی تنظیموں کوچاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں ٹھوس لائحہ عمل بناتے ہوئے سیاسی پارٹیوں پردباؤبنائیں کہ وہ سب سے پہلے پارلیمنٹ میں التواء میں پڑے انسدادفرقہ وارانہ فسادات بل کوپہلی فرصت میں پاس کرائے،اس بل کے پاس ہونے سے کم ازکم مسلمان اپنے آپ کوکچھ تومحفوظ محسوس کریں گے اوریہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ جب تک جان ومال اورعزت وآبرومحفوظ نہیں ہے ساری ترقیات بے معنی ہے،اسی طرح سچرکمیٹی کی سفارشات سے متعلق مطالبات ہونے چاہئیں،گرچہ حکومت کادعویٰ ہے کہ اس نے سچرکمیٹی کی بیشترسفارشات کومنظورکرلیاہے لیکن وہ زمین پرنظرنہیں آرہاہے،اس سلسلہ میں ملی تنظیموں کوایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکرذاتی مفادات سے بالاترہوکرملت اسلامیہ ہندیہ کے اجتماعی مفادات کوپیش نظررکھ کرکام کرناہوگاتبھی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں اورہماراووٹ کارآمدہوسکتاہے،ورنہ ایک بارپھرسے وہی ہوگاجوگذشتہ ۶۷؍سالوں سے ہوتاچلاآرہاہے،مسلم قائدین اورملی تنظیموں سے دستہ بستہ گذارش ہے کہ وہ خداکے لیے ملت اسلامیہ ہندیہ کے اجتماعی مفادات کوسامنے رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پرمتحدہوکرخورشیدمبیں کاثبوت پیش کریں ورنہ اگرتاروں کی طرح بکھرے رہیں تواس قوم کاکبھی بھلانہیں ہوسکتا۔ایک ہوجائیں توبن سکتے ہیں خورشیدمبیں۔ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیابات بنے۔٭٭٭

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 46225 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More