ماسٹر کی - آخری حصہ

آئندہ چند روز میں زین اقبال کی ٹانگ میں میٹل راڈ ہمیشہ کے لئے ڈال دی گئی۔ اس کے والدین جو اس حادثہ کے اگلے ہی دن پہنچ گئے تھے اپنے بیٹے کو ساتھ ہی لے گئے۔زین اقبال شہر کیا ملک سے ہی باہر جاچکا ہے۔یہ احساس رمیز کو عنیزہ قدوائی کے حوالے سے بڑا سکون بخش لگا تھا۔ اسے امید ہوچلی تھی کہ شائد مقدر کا ستارہ اس پر مہربان ہوجائے ،مگر دنیا کے کچھ ذہین لوگوں میں اور تمام خوبیوں کے ساتھ یہ عیب بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی ملتی جلتی صلاحیتوں والے لوگوں سے روکھا پھیکا رویہ رکھتے ہیں صرف مرعوب ہوتی نگاہیں ہی ان کو تسکین دیتی ہیں ”لیکن“ کہنے والے اذہان سے وہ نہ صرف دور بھاگتے ہیں بلکہ تعصب بھی کرجاتے ہیں -

زین اقبال نے عنیزہ قدوائی سے ”لیکن “ اور ”اگر“ نہ کہنے کی پالیسی اپنا کر بہت سے فوائد سمیٹے تھے۔رمیز،زین اقبال نہ بن سکتا تھا۔ذہین تھا لیکن منافقت نہ کرسکتا تھا۔سو زندگی اسی ڈھب پر ہی رہی جس طرح زین کی موجودگی میں تھی۔کسی کو بھی زین اقبال نہ یاد رہا حتیٰ کہ عنیزہ قدوائی نے بھی اس کی غیر موجودگی کو حزر جان نہ بنایا تھا،جس پر رمیز کو سخت تعجب تھا۔بیچلرز کی ڈگری ملنے میں کچھ ہی ماہ باقی رہ گئے کہ شیراز کی اس کی کزن سے منگنی کی خبر نے سب کو ہڑ بڑا دیا۔ثنا خواجہ سے ڈھائی ۔تین برس کے تعلقات آنے والے دنوں کا کچھ اور ہی نقشہ دکھاتے تھے ۔خوش باش چہرے کے ساتھ منگنی کی مٹھائی کھلاتا شیراز کسی اور ہی کہانی کے تانے بانے بُنتا نظر آرہا تھا۔۔ثنا نے بھی بڑی خوش دلی سے پوری گلاب جامن منہ میں ڈالتے ہوئے شیراز کو مبارک باد دی تھی اور ڈبے کو رمیز کی طرف بڑھاتے ہوئے ایک گلاب جامن اپنے ہاتھ سے شیراز کے منہ میں ٹھونسنے کی کوشش بھی کی تھی”فرینڈ جی بھر کر اپنی منگنی کی مٹھائی کھاﺅ،نہ معلوم کسی نے تم کو کھلائی بھی ہے یا نہیں ؟“ رمیز نے خاموشی سے ڈبہ پکڑا اور ثنا کو دیکھا جہاں دکھ کی لکیریں ابھرتیں اور اس کی شوخ ہنسی تلے دب جاتیں۔وہ مستقل شیراز کو چھیڑرہی تھی ۔ابھرنے اور دبنے کا عمل کسی نے دیکھا ہو یا نہیں رمیز نے ضرور دیکھ لیا تھا-

سب ہی ان دنوں جاب ہنٹنگ کے موضوع پر بڑی دل جمعی سے بحث کرتے ۔رمیز بھی آن لائن دستیاب جابس کے بارے میں معلومات جمع کرتا رہتا تھا۔ہر کوشش کے آخر میں یہ نتیجہ نکلتا کہ ملک سے باہر نکل کر ہی کچھ مستقبل نظر آتا ہے-

”یار اپنی جاب تو پکی ہے،شروع بھی پورے پچاس ہزار سے ہوگی“۔ایک دن رمیز کے پاس ہاسٹل روم میں بیٹھا شیراز نہ جانے کس ترنگ میں کہہ بیٹھا۔

”کون سخی داتا تمہیں پچاس ہزار ابتدا میں ہی دے رہا ہے؟“رمیز نے کمپیوٹر اسکرین سے نظریں اٹھا کر اس دیکھا جو اپنے تازہ بالوں سے صاف کرائے گئے سر اور کلائی میں پہنی چین کے ساتھ زیر زمین تنظیم کا کوئی فرد لگنے لگا تھا-

”سخی داتا نہیں بلکہ میرا خالو سُسر “ شیراز نے سامنے رکھی کرسی پر ٹانگیں پھیلاتے ہوئے بولا۔

”جوتے کرسی پر مت رکھو عابد کو گندگی سے چڑ ہے“ رمیز نے اپنے روم میٹ کی کمرے میں موجود کرسی کے بارے میں شیراز کو متنبہ کیا جسے اس نے سنی ان سنی ۔“

”وہ کمرے میں رہتا ہی کب ہے،مہینہ میں اٹھائس دن تو شہر میں موجود تایا کے گھر میں رہتا ہے ،تمہارے تو عیش ہیں پورے کمرے میں اکیلے رہتے ہو“

”تمہارے خالو جس محکمہ میں ہیں وہ تو ریڈار سے تعلق رکھتا ہے،تمہاری ڈگری اور ان کے محکمے کا کیا تعلق بنتا ہے؟“ رمیز کو اس کی نوکری کی اطلاع بے معنی ہی لگی اور وہ دوبارہ کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے اپنے C.Vکو مختلف اداروں کو ای میل کے ذریعے بھیجنے لگا۔

رمیز کی بات سن کر شیراز نے حلق پھاڑ کر قہقہہ لگایا ”ابے گھونچو سُسر جی کی کمپنی کو پاک افغان سرحد پر ریڈار نصب کرنے کا ٹھیکہ ملا ہے،افغانستان کی سرحد امریکہ کے لئے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ پاکستان راہداری کا کام کررہا ہے،ریڈار کی تنصیب کے سلسلے میں لوگ بھی بھرتی کئے جارہے ہیں ۔تیکنیکی عملہ بھی چاہئے سو خالو سُسر کی بدولت ہماری بھی لاٹری نکل آئی۔اب چاہے ماہر نہیں ہوں لیکن سُسر زندہ بادسیکھ ہی لونگا، کچھ نہ کچھ تو میں جان ہی گیا ہوں ،کئی ماہ سے وہ مجھے ٹریننگ دے ہی رہے ہیں “-

”تو امریکن ریڈار نے تمہارے ریڈار سے ثنا خواجہ کو غائب کردیا “رمیز کے چھبتے ہوئے تبصرے نے شیراز کو مضطرب سا کیا۔کرسی کو پاﺅں سے پھینکتا ہوا وہ کھڑا ہوگیا۔

”ذاتیات میں دخل اندازی نہ کرو تو اچھا ہے رمیز! ورنہ تمہاری عنیزہ قدوائی کی طلب کو میں بھی ایشو بنا سکتا ہوں“ -

رمیز تو جیسے اس کی بات سن کر گنگ ہی ہوگیا۔تو گویا جس کو میں دل کا راز سمجھتا تھا وہ طشت از بام ہوچکا ہے۔خفت اور ندامات سے اس کے ماتھے پر نمی ابھر آئی ،شیراز نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا
”ثنا خواجہ کے لئے مستقبل کو داﺅ پر لگانا پاگل پن ہے، بے شک میں اس کے ساتھ فلرٹ نہیں کررہا تھا لیکن اپنی کزن سے منگنی کی ہی اس لئے ہے تاکہ میرے شاندار مستقبل کے لئے راہداری مل جائے،ہم دونوں کا ہی وقت اچھا گزرا تو ہم دونوں ہی فائدے میں رہے ہیں،میں بھی ثنا بھی “ شیراز نے شائد اپنے اندر سے اٹھنے والی آواز کو چپ کرا رہا تھا ورنہ رمیز کو تو شیراز کی بات نے متفکر سا کردیا تھا” تو یہ راز نہ تھا“ بس یہ جملہ رمیز کے دماغ میں گونج رہا تھا۔

شیراز بات کرکے جیسے مطمئن سا ہوگیا تھا ،اندر کا شور اس نے تھما دیا تھا۔کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ باہر نکل گیا۔ہاسٹل فلور کی طویل راہدری میں تیز تیز قدم اٹھاتے شیراز کو رمیز نے غائب دماغی سے دیکھا اور دوبارہ ایک گہری سانس لیتے ہوئے اپنی توجہ کمپیوٹر اسکرین کی طرف کرنی چاہی۔ماﺅس کی کلک ہوئی اور تازہ خبریں پڑھنے کے لئے ویب پیج کھل گیا۔”وزیرستان پر بمباری،افغانستان میں ناٹو فوج کو بے رحم اور سنگ دل بنانے کی کوشش،جنرل مائیک مولن کے بیانات،افغانستان ٹھکانہ،پاکستان نشانہ ،پاکستانی چوکیوں پر ناٹو کی بمباری،چوبیس جوان شہید،معذرت نہیں کریں گے: صدر اوبامہ ،“ بھاری دل سے کمپیوٹر آف کرتے ہوئے وہ اپنے مستقبل کے لئے کسی راہداری کے پائے جانے کے امکانات کو سوچنے لگا۔اِرد گِرد عنیزہ قدوائی کے وجود سے اٹنے والی خوشبو پھیلنے لگی۔نہ جانے کونسی خوشبو لگاتی تھی،منفرد سی،انوکھی سی، اس کا دل چاہا کاش اسے بھی شیراز جیسا موقع ملا ہوتا تو ہوسکتا ہے وہ بھی اپنی اہمیت منوا لیتا۔

دل کے جذبے اس قدر منہ زور ہونے لگے تھے کہ صحیح اور غلط کی تفریق کرنے والی حس کمزور پڑنے لگی ۔کمرے کا دروازہ اسی طرح کھلا تھا جس طرح شیراز اسے چھوڑ کر گیا تھا ۔باہر سے آتا شور کمرے میں پھیل رہا تھا۔رمیز نے دروازہ بند کرتے ہوئے میز پر رکھے ہوئے پوسٹر کلر اٹھائے اور رول ہوئے چارٹ پیپر کو کھول کر بستر پر پھیلادیا۔رنگوں کو ہتھیلی پر پھیلاتے ہوئے وہ کاغذ پر نقش بنانے لگا ،پیپر پر جابجا رمیز کے ہاتھوں کے نقش بنتے جارہے تھے۔ہر نقش وہ اپنی تشنہ آرزﺅں کے نام کرتا جارہا تھا ”خوشبوپانے کی آرزو“
”حال سے بہتر مستقبل کی طلب“
”مقبول ہونے کی خواہش“
”طاقتور اور با اختیار بننے کا جذبہ “ مختلف رنگوں کے نشان لگتے جارہے تھے پھر ایک نشان پر جیسے رمیز کی نگاہیں جم گئیں جس کا عنوان تھا ”بے خوف زندگی“ اسے لگا پہلے سے لگے سارے نقش جیسے اس آخر میں لگائے ٹھپے کے آگے ہاتھ باندھے موجود تھے۔ہر تمنا جیسے اس سے پناہ طلب کررہی تھی۔ہر حسرت اس کے ساتھ نتھی تھی۔ہر مراد نے جیسے اس کا دامن تھام رکھا تھا۔

بے خوف زندگی کے دھارے کہاں سے پھوٹتے ہیں؟ رمیز کو سر چشمہ کو پانے کی طلب ہوچلی ۔ہر رکاوٹ جھٹک کر ،ہر کشش کو چھوڑ کر اس جوہر کو پالینے سے باقی سب خود ہی قطار در قطار آتے چلے جائیں گے۔ عصر کی اذان قریبی مسجد سے بلند ہوچکی تھی ۔رمیز کو حئی علی الفلاح کی پکار میں اپنی تلاش کا سراغ ملنے کی قومی امید ہوچلی تھی
ختم شد
Nusrat Yousuf
About the Author: Nusrat Yousuf Read More Articles by Nusrat Yousuf: 16 Articles with 12916 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.