پتنگ بازی، بٹیر بازی، ہوا بازی وغیرہ

ظفر اقبال مرحوم نے کہا تھا
مِرے دِل کو سمجھ رکھا ہے دِلّی یار لوگوں نے
کبھی آباد کرتے ہیں، کبھی برباد کرتے ہیں!
اِس شعر کی آفاقیت یہ ہے کہ یہ ریلوے کے محکمے اور پی آئی اے دونوں کی یکساں سطح پر ترجمانی کرتا دکھائی دیتا ہے!

ایک زمانہ تھا کہ جب ریلوے کی پٹری پر ٹرینیں دوڑا کرتی تھیں مگر اب ٹرینیں اُسی طرح خال خال دکھائی دیتی ہیں جس طور مُلک بھر میں اہل دانش خال خال پائے جاتے ہیں! تمام ٹرینیں تباہی کے پلیٹ فارم پر کھڑی کردی گئی ہیں، یعنی ٹرینیں اب طیاروں کی برابری کرتی دکھائی دے رہی ہیں.... دونوں کو کھڑا کردیا گیا ہے! جو پٹری پر دکھائی نہیں دیتیں اُن ٹرینوں کا محکمہ محو پرواز دکھائی دے رہا ہے! اور دوسری طرف پی آئی اے بھی ٹیک آف کے mood اور mode میں ہے!

پی آئی اے کے طیاروں نے ٹرینوں کی ٹُھنکنا شروع کردیا ہے جو کہیں بھی کھڑی ہو جاتی ہیں۔ کچھ کچھ یہی مزاج اب طیاروں کا بھی ہوتا جا رہا ہے۔ پرواز کے دوران انجن بند ہونے لگے ہیں۔ ویسے تو پائلٹس کی اصل مہارت ٹیک آف اور لینڈنگ میں آزمائی جاتی ہے، بالخصوص لینڈنگ میں۔ آج کل ہمارے ہاں طیارے لینڈنگ سے پہلے ہی لینڈنگ کی ضِد کرنے لگے ہیں! بے چارے پائلٹس کی مَشَقّت بڑھ گئی ہے۔ اب تجربہ کار پائلٹ وہ ہے جو طیارے کو اُڑانے اور اُتارنے سے زیادہ اُسے گرنے سے بچانے میں مہارت رکھتا ہو!

پی آئی اے نے چند طیاروں کو گراؤنڈ کردیا ہے۔ اِس حالت یا کیفیت کو ہم (’تارے زمین پر‘ کی کاسٹ سے معذرت کے ساتھ) ”طیارے زمین پر“ بھی قرار دے سکتے ہیں!

پاکستان کی ground realities میں اب grounded طیارے بھی ایک reality کی حیثیت سے شامل ہوگئے ہیں! بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ یاروں کی کرپشن نے طیاروں کو خاک چٹادی ہے۔

سُنا ہے ترقی یافتہ اقوام اِس اُصول پر زندہ ہیں کہ جو چیز جس کام کے لیے بنائی گئی ہو اُس سے وہی کام لینا چاہیے۔ اگر ہم بھی اِس اُصول پر عمل کریں تو جینا محال ہوجائے، جس آوے کو ہم نے خاصے انہماک اور جاں فشانی سے ٹیڑھا کیا ہے وہ سیدھا ہو جائے!

پی آئی اے کی انتظامیہ نے مشینوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے یہی کوئی آٹھ دس طیاروں کو گراؤنڈ کیا ہے تو ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہے! پاکستان میں اُڑانے کے لیے اور بہت سی چیزیں ہیں۔ مثلاً بے پَر کی اُڑانا زیادہ آسان ہے۔ کبوتر اور پتنگ اُڑانے سے آپ کو کِس نے روکا ہے؟ مذاق اُڑانے پر بھی کوئی دفعہ لگتی ہے نہ کچھ خرچ ہوتا ہے! اگر آپ اور کچھ نہیں کرسکتے تو گلچھرّے اُڑاتے رہیے۔ کیا لوگوں کو اندازہ نہیں تھا کہ پتنگ بازی اور بٹیر بازی کیا ہوتی ہے؟ اگر ہاں، تو پھر طیارہ اُڑانے کے عمل کو ہوا بازی کی اصطلاح کیوں دی گئی؟ غیر سنجیدہ اصطلاح دینے کا یہی نتیجہ نکلنا چاہیے تھا!

پتہ نہیں کیوں لوگ طیاروں کے پیچھے پڑگئے ہیں کہ اُنہیں اُڑنا ہی چاہیے۔ کیا لوگوں کو اندازہ نہیں کہ اُن کے دِلوں میں طیاروں کو اُڑتے ہوئے دیکھنے کی جو تَمنّا ہے اُس کی تکمیل کے حوالے سے پی آئی اے اور دیگر ایئر لائنز پر کِس قدر دباؤ ہے! ہم اگر اپنے قومی اداروں پر یونہی دباؤ بڑھاتے رہے تو اُن کی کارکردگی کیا خاک بہتر ہوگی!

اب آپ ہی بتائیے کہ کیا خوب محنت کرنے کے بعد آپ آرام نہیں کرتے؟ بستر پر دراز نہیں ہوتے؟ کیا پائلٹس کو طویل فلائٹس کے درمیان وقفہ نہیں ملتا؟ اگر ہاں، تو پھر چند طیاروں کے گراؤنڈ کردیئے جانے پر اِس قدر ہنگامہ کیوں؟ جب اِنسان کو آرام کا حق ہے تو کیا بے زبان مشینوں کو آرام کا موقع نہیں ملنا چاہیے؟ طیارہ دھات اور مشینوں کا بنا ہوتا ہے۔ اُس بے چارے کی زبان تو ہوتی نہیں کہ کچھ کہے۔ ہمی کو اُس کے آرام اور سُکون کے بارے میں سوچنا چاہیے نا! اور بے زبان طیارے تو زمین پر پڑے پڑے یا کھڑے کھڑے بھی آرام کرلیتے ہیں، کوئی بستر، گدّا، تکیہ وغیرہ طلب نہیں کرتے!

دو ڈھائی گھنٹے کے سفر میں بھی لوگ ایئر لائنز کے عملے کو مُشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ طیارہ جیسے ہی زمین کو الوداع کہتا ہے، مسافر پانی اور جُوس مانگنا شروع کردیتے ہیں۔ ذرا سی ہوا بازی میں بھی پینے پلانے کے چونچلے بازی! پانی، چائے یا ”ٹھندی والی کولڈ ڈرنک“ گھر سے پی کر آنا چاہیے۔ اور پھر پندرہ منٹ میں بھوک بھی لگ جاتی ہے! بعض مُسافروں کو بس بہانہ چاہیے ایئر ہوسٹس کو طلب کرنے کا! اگر طیارے کے کسی کونے میں جُوس کا اسٹال اور کھانے پینے کی اشیاءکا کیبن لگادیا جائے اور ہر چیز کے پیسے وصول کئے جائیں تو ہم بھی دیکھتے ہیں کہ کِس کِس کو پیاس اور بھوک لگتی ہے!

طیارہ وقت پر نہ اُڑے تو مصیبت، اُڑ جائے تو مصیبت! کبھی کبھار قومی ایئر لائن کا کوئی طیارہ اگر مُقرر وقت پر اُڑ جائے تو بہت سے مسافر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں! وہ گھر سے یہی سوچ کر نکلے ہوتے ہیں کہ طیارے کی روانگی میں تاخیر تو ہونی ہی ہے، پھر بر وقت ایئر پورٹ پہنچنے کی جلدی کیوں؟ اب آپ ہی بتائیے کہ یہ سوچ کوئی پی آئی اے نے تو اپنے کرم فرماؤں کے ذہنوں میں نہیں ٹھونسی! جب سب کچھ لوگ اپنے طور پر طے کرلیں گے تو پھر ایسا ہی ہوگا۔

کچھ دن پہلے کی بات ہے پی آئی اے کے ایک طیارے میں کہیں سے چوہا گھس گیا۔ اِس پر میڈیا نے ایسا شور مچایا کہ کان پڑی آواز بھی سُنائی دینے سے گریزاں دکھائی دی۔ نالے میں گائے گر جائے یا طیارے میں چوہا گھس جائے، میڈیا کو تو بس بہانہ چاہیے بات کا بتنگڑ بنانے کا! اگلے وقتوں میں محلے کی کُٹنیاں لگائی بُجھائی کیا کرتی تھیں۔ اب یہ منصب الیکٹرانک میڈیا نے سنبھال لیا ہے! طیاروں میں دُنیا بھر سے، طرح طرح کے جانور سفر کرتے ہیں۔ کیا اُن کا سفر جائز ہے؟ اگر ہاں، تو پھر ایک چوہے کی پرواز پر اِس قدر شور شرابہ کیوں؟ ہمارے میڈیا کو تو یہ بات فخریہ بیان کرنا چاہیے کہ پاکستان کے چوہے بھی اب عالمگیریت کے مزے لوٹ رہے ہیں، ملکوں ملکوں گھوم رہے ہیں! اور جب اُنہیں طیارے کے خفیہ خانوں میں ڈھونڈنے نکلیے تو صاف کہتے ہیں ....
.... مِلنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم!

ایک چھوٹے سے چوہے نے چند ملکوں کا سفر کیا کرلیا، یاروں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اُٹھالیا۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ یہ سیخ پا ہونے کا نہیں، داد و تحسین کا محل ہے۔ دو تین بار ہماری جیب کٹی ہے۔ جیب کتروں پر خار تو بہت آیا مگر صاحب! ایمانداری کی بات ہے کہ اُن کی ہاتھوں کی بے مِثل کاری گری پر بے اختیار داد دینے کو بھی جی چاہا! پی آئی اے کے طیارے میں گھس بیٹھنے والے چوہے کی صلاحیت کا بھی اعتراف کیا جانا چاہیے۔

ابھی کل کی بات ہے۔ ایک ضعیف خاتون کو پشاور سے ڈیرہ اسمٰعیل خان جانا تھا۔ انہوں نے پی آئی اے کو زحمت دی۔ قومی ایئر لائن نے اُنہیں ژوب، کوئٹہ اور کراچی کی سیر کرانے کے بعد پشاور واپس پہنچایا اور مشورہ دیا کہ سڑک کے راستے ڈیرہ اسمٰعیل خان چلی جائیں۔ یہ سب کچھ نا اہلی کے زُمرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ کسی نے ضعیف خاتون کو بلا معاوضہ پاکستان بھر کی سیر کرانے پر قومی ایئر لائن کو سراہنے کی زحمت گوارا نہیں کی!

دُنیا والوں کو اب تک معلوم نہیں کہ طیارے اُڑان بھرنے کے بعد یعنی فضاؤں میں رہ کر اُتنا نہیں کماتے جتنا کسی پلے لینڈ میں بچوں کی تفریح کے لیے رکھے جانے کے بعد کماکر دیتے ہیں! کراچی میں بھی ایک طیارہ کئی عشروں سے زمین پر کھڑا لوگوں کی تفریح طبع کا سامان کر رہا ہے۔ ٹیک آف اور لینڈنگ کے جھنجھٹ سے آزاد ہوکر بھی یہ ”زخمی پرندہ“ آمدنی کے معاملے میں خوب اُڑان بھر رہا ہے! اگر گراؤنڈیڈ طیاروں میں فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھول دیئے جائیں تو پی آئی اے کو زیادہ آمدنی ہوسکتی ہے! ڈراموں کی شوٹنگز میں استعمال ہوکر بھی یہ طیارے اپنے وجود کی مقصدیت عمدگی سے ثابت کرسکتے ہیں!

گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے ملیر میں جناح اسکوائر کے پلے گراؤنڈ میں پرائیویٹ ایئر لائن کے چھوٹے، مَشّاق طیارے کی کامیاب لینڈنگ ہوئی۔ اِس پر بھی لوگوں نے بہت باتیں بنائیں۔ چینلز والے خاص طور پر طعنہ زن دکھائی دیئے۔ کوئی اِس بات پر غور نہیں کرتا کہ ہمارے پائلٹس کسی بھی طیارے کو کہیں بھی اُتارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں! اِسی پرائیویٹ ایئر لائن کے ایک پائلٹ نے ڈیڑھ ماہ قبل سُپر ہائی وے سے متصل خالی زمین پر چھوٹا طیارہ بحفاظت اُتار لیا تھا۔ اور کل کو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شہری ہوا بازی کے ماہرین پاکستان آئیں اور پائلٹس کو ساتھ لے جائیں۔ جب طیارے سڑک کے کنارے اور پلے گراؤنڈ میں اُتارے جاسکتے ہیں تو پھر جدید ترین سہولیات سے مُزَیّن ایئر پورٹس تعمیر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے پائلٹس کو ہوا بازی کی تاریخ پسند نہیں۔ وہ ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 480720 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More