نقل مافیا

پرچہ کیسا رہا؟ ٹیوشن کے استاد نے اسد سے پوچھا ۔
نقل کی ۔ اسد نے نظریں جھکاتے ہوئے جواب دیا۔
لیکن آپ کو تو سب کچھ یاد کرایا تھا۔ ٹیچر نے حیرانی سے بات آگے بڑھائی۔
سب کررہے تھے تو میں نے بھی کرلی۔ ہونہار شاگرد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
اوہو۔ استاد نے مایوسی کااظہار کیا۔
اسد نے تفصیلات بتائیں کہ اسکول والوں نے بھاری رقم لے کر تمام بچوں کو نقل کرایا۔
۔اب دوسری کہانی سنیں۔
کچھ ماہ قبل ایک سرکاری اسکول میں ایک خاتون عظمیٰ آئی۔بچی کے داخلے کی خواہش ظاہر کی۔
سرکاری اسکولوں میں تو اگست میں داخلے ہوتے ہیں، ہیڈماسٹرنے آگاہی فراہم کی ۔
سر، یہ سرکاری ٹیچرکیسے بھرتی ہوتے ہیں؟ دوران گفتگو عظمیٰ نے پوچھا ۔
ایک ٹیسٹ پاس کرنا پڑتاہے،ہیڈماسٹر نے مختصر جواب دیا۔
عظمیٰ نے ان سے موبائل نمبر لیا ۔کچھ عرصے بعدعظمیٰ نے ٹیچر کو اپنا سی وی واٹس ایپ کیا اورلکھا ’’سر! سنا ہے ،ٹیچر بھرتی ہورہے ہیں۔ ہیڈماسٹر نے تو خاتون کی سی وی نہیں دیکھی تاہم انھیں بتایا کہ وہ ٹیچرز بھرتی سے متعلق ویب سائٹ کاوزٹ کریں ۔
کچھ ہی دیر بعدمحترمہ کافون آیا۔
سر،وہ تو گریجویشن مانگتے ہیں،خاتون بولی۔
توآپ نے گریجویشن نہیں کی؟ ہیڈٹیچر نے استفسار کیا۔
نہیں سر، میں انٹرپاس ہوں۔عظمیٰ نے بتایا ۔
ہیڈ ماسٹر نے انھیں گریجویشن کرنے کامشورہ دیااوررابطہ منقطع ہوگیا۔
استاد صاحب نے عظمیٰ کاسی وی دیکھا۔
سی وی کے مطابق
عظمیٰ نے ایک پرائیویٹ اسکول میں پرائمری کلاسوں کو تین سال پڑھایا اور پھر اسی اسکول میں بطور وائس پرنسپل بھرتی ہوئی ۔
یہ توان کی جاب سے متعلق معلومات تھیں۔
ان کی عمر سی وی کے مطابق 22 سال تھی۔ 16 سال کی عمر میں انھوں نے میٹرک کیا تھا ۔ یعنی میٹرک کے بعد ٹیچنگ شروع کی۔انھیں اسکول سے بمشکل چند ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔اس دوران وہ کراچی میں رہائش پذیر رہی لیکن اندرون سندھ سے انھوں نے انٹربھی پاس کرلیا۔
ایک اور رخ ملاحظہ فرمائیں
نسرین نے ماسٹر کیا ہے ۔ ایم ایڈ بھی کرچکی ہے۔پڑھانے کے تمام طریقے اس کو ازبر ہے۔ وہ شہر کے نامی گرامی اورمہنگے ترین اسکول میں پڑھاتی ہے۔وقت پر اسکول جاتی ہے۔ بچوں کو اچھی طرح پڑھاتی ہے۔اسکول والے اس کو سال بھر میں آدھی کتاب یا ووتہائی کتاب پڑھانے کاہدف دیتے ہیں ۔وہ ہدف پورا کرلیتی ہے۔
آپ کو ایک اور کہانی سناتاہوں۔
صفدر ایک سرکاری اسکول میں ٹیچرہے۔اسکول کب کھلتاہے اورکب بند ہوتاہے،یہ اس کو پتانہیں ۔بچوں کو کیا پڑھانا ہے۔یہ بھی اس کادرد سر نہیں۔بچوں کامستقبل کس طرح سنوارنا ہے ۔یہ سوال تو ان کی نظر میں فضول ہے۔ حاضری رجسٹرڈ میں دستخط کرناہی اس کی نظر میں عین عبادت اور رزق حلال کرنے کاذریعہ ہے۔
تمام کہانیوںکو ذہن میں رکھ کر بتائیں کہ
سرکاری اسکول میں استاد وقت پر آتانہیں۔ آجائے تو پڑھائے نہ۔بچوں کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہ ہوں تو بچے کیسے پڑھیں گے اور آگے بڑھیں گے۔
شہر کے مضافات میں قائم نجی تعلیم اداروں میں کم تعلیم یافتہ اور غیرتربیت یافتہ ٹیچر حضرات بھرتی ہوں گے تو بچے کیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ بنیں گے۔
شہر کے مہنگے تعلیمی اداروں میں طلبا سے اگرچہ فیس پوری بلکہ اضافی وصول کی جاتی ہے لیکن پورا نصاب نہیں پڑھایاجاتاہے۔ کون سا آلہ دین کاجن ہے جو ان کو بتاتا ہے کہ امتحان میں یہ سبق آئے گااوریہ نہیں۔
ان تینوں اقسام کے تعلیمی اداروں میں اگرچہ معیار تعلیم کافرق ہے تاہم شہر قائد میں یہ تمام ایک چیز پر متفق ہے۔وہ ہے۔ نقل۔
ادارہ کوئی سا بھی ہو۔ وہاں زیرتعلیم بچوں کو پتہ ہوتاہے کہ امتحان کے دوران انھیں نقل کی سہولت انتہائی بے شرمی سے فراہم کردی جائے گی ۔
یہ کینسر ہمارے تعلیمی اداروں میں ہرطرف پھیلا ہوا۔ یہ تو اب کوئی راز نہیں رہاکہ متعلقہ حکام کورقم دے کر مختلف سکولوں کو امتحانی مراکز بنایا جا تا ہے اور پھر وہاں بچوں سے مختلف شرح سے رقم لے کر انھیں نقل فراہم کی جاتی ہے۔
وہ دورگیا جب نقل مافیا رشوت دے کر بورڈ آفس سے قبل ازوقت پرچے نکالتا ،حل کرتا، فوٹو سٹیٹ کرتا اور پھر نونہال میں تقسیم کرتا۔
اب جدید دور ہے۔مافیا سینٹر خریدتا ہے۔ پرچہ آتاہے۔ اس کو حل کرکے تمام بچوں کو واٹس کردیا جاتا ہے۔
نقل مافیا کو کسی کاڈر ہے نہ خوف۔
اس مافیا کی خوش قسمتی یہ ہے کہ متاثرہ فریق یعنی بچے بھی خوش ہوتے ہیں اور ان کے والدین بھی۔اور یہ دونوں اس امر کافخریہ اظہار بھی کرتے ہیں۔یوںہمارے نونہال کو علم نہیں،اسناد اورڈگریاں ملتی ہیں۔ پھر سب پوچھتے ہیں کہ بچے کو نوکری کیوںنہیں مل رہی؟
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

 

Abdullah Mishwani
About the Author: Abdullah Mishwani Read More Articles by Abdullah Mishwani: 6 Articles with 4058 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.