اپوزیشن اتحاد کے حکومت مخالف جلسے ۔۔ این آر او نہیں ملے گا کی بازگشت، جانئے ’’این آر او‘‘ آخر ہے کیا؟

image
 
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پی ڈی ایم کے جلسوں کے انعقاد پر بارہا ایک ہی بیان سامنے آرہا ہے ، جس میں بس اسی ایک ہی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ ’’این آر او‘‘ نہیں ملے گا ۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پہلے دن سے کہا تھا لوٹ مار کرنے والے اکٹھے ہو جائیں گے ، کچھ بھی ہو جائے اپوزیشن سے مفاہمت نہیں ہوگی ۔ یہ جلسے کریں یا دھرنے دیں ، ’’این آر او نہیں ملے گا ‘‘۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز پارلیمانی اجلاس میں شرکت کی اور کہا کہ بیروزگار اپوزیشن کو اہمیت دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کو نیب زدگان سے کوئی خطرہ نہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ لوگ ہر روز جلسے کریں ، یہ جلد تھک جائیں گے ، ان کا بیانیہ نہیں بکے گا۔ جوآج جلسے کررہے ہیں، ان لوگوں نے ملک کا بیڑہ غرق کیا ہے ۔
 
این آر او کیا ہے؟
قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او (National Reconciliation Ordinance) ایک صدارتی آرڈیننس ہے جسے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007 میں جاری کیا ۔ اس صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس وقت کے صدر مملکت نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے ان تمام مقدمات کو ختم کرنے کا اعلان کیا جو یکم جنوری 1986 سے لے کر 12 اکتوبر 1999 کے درمیان سیاسی بنیادوں پر درج کیے گئے تھے۔ اس آرڈیننس کے نتیجے میں آٹھ ہزار سے زائد افراد کے خلاف بدعنوانی اور دیگر سنگین جرائم کے مقدمے ختم کر دئیے گئے۔ لیکن دو برس بعد سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس آرڈیننس کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا، جس کے بعد یہ مقدمات دوبارہ کھل گئے تھے۔
 
image
 
این آر او سے کس کس نے فائدہ اٹھایا؟
بنیادی طور پر یہ قانون اس وقت پییلز پارٹی کی جلا وطن سربراہ بینظیر بھٹو کی پاکستان اور پاکستانی سیاست میں واپسی کو ممکن بنانے کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ بینظیر بھٹو اور ان کی جماعت کے دیگر سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں، جن میں ان کے شوہر آصف علی زرداری بھی شامل تھے، کے خلاف 1986 اور 1999 کے درمیان ڈھیروں مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان مقدمات کی موجودگی میں بینظیر بھٹو اور ان کے ساتھی وطن واپس نہیں آ سکتے تھے جبکہ جنرل پرویز مشرف انہیں ملکی سیاست میں واپس لانا چاہتے تھے تاکہ ملک اور اپنے آپ کو بڑے سیاسی بحران اور بین الاقوامی دباؤ سے محفوظ رکھ سکیں۔ اس آرڈیننس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور بعض دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین کے خلاف مقدمات خارج کر دئیے گئے۔ اس قانون کی وجہ سے اس وقت کی متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف بھی بڑی تعداد میں مقدمات ختم ہو گئے تھے۔ سپریم کورٹ سے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد یہ مقدمات دوبارہ کھل گئے تھے لیکن اس وقت بینظیر بھٹو اس دنیا میں نہیں تھیں، دیگر افراد اس وقت مقدمات کھلنے کی وجہ سے کچھ پریشان تو ہوئے لیکن اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کی وجہ سے کوئی بڑی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی۔
 
image
 
وزیر اعظم کا این آر او سے کیا مراد ہے ؟
چونکہ عدالت سے مسترد ہونے کے بعد این آر او کا قصہ تو نو سال پہلے ختم ہو چکا ہے لہٰذا اس کا استعمال اب صرف ایک سیاسی اصطلاح کے طور پر ہی ہوتا ہے۔ عدالت میں چونکہ اس طرح کے آرڈیننس کو امتیازی قرار دیا جا چکا ہے تو اس طرح کے قانون یا آرڈیننس کو دوبارہ جاری کرنا بھی بےمعنی ہو گا کیونکہ عدالت گزشتہ فیصلے کی روشنی میں این آر او یا اس طرح کے کسی بھی قانون کو فوراً مسترد کر دے گی ۔ ایسے میں اگر وزیر اعظم عمران خان بار بار یہ کہتے ہیں کہ این آر او نہیں ملے گا تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات یا تحقیقات کو ختم نہیں کریں گے ۔
YOU MAY ALSO LIKE: