حکم ہو تو ! کفن باندھ کے تیار کھڑے ہیں

قوم شدید ذہنی اور نفسیاتی دباؤ میں ہے۔ اگرچہ آج اس دباؤ کا نکتئہ عروج ہے۔ تاہم یہ دباؤ یہ قوم سالہا سال سے برداشت کر رہی ہے اور وجہ امریکہ کی اس سے ’’دوستی ‘‘ہے۔ پچھلے چونسٹھ سال میں ہم نے امریکہ کو جب بھی آزمایا ، مایوسی کے علاوہ کچھ بھی نہ پایا۔ لیکن ہماری حکومتوں نے انتہائی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس دوستی میں رخنہ نہ ڈلنے دیا چاہے عوام چیختے رہے، چلاتے رہے۔

اسامہ کے بہانے امریکہ نے اسلامی دنیا کے امن کو روند ڈالا اور پھر 2مئی 2011کو ایبٹ آباد میں اسامہ کو ہلاک کر دیا گیا۔ کیسے؟ میرے خیال میں اس کہانی کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اب تو اس کی اتنی جزئیات و تفصیلات سامنے آچکی ہیں کہ بچہ بچہ آپ کو یہ کہانی فر فر سنا دے گا اور ہر کہانی کے آخر میں ایک بے یقینی ہوگی کہ اب معلوم نہیں اسامہ مارا بھی گیا ہے یا نہیں، یا وہ اسامہ ہی تھا یا کوئی اور؟ لیکن ہماری خود مختاری کو للکارا ضرور گیا۔

اب اسامہ کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ ذمہ دار کون تھا؟ آئی ایس آئی کے سربراہ نے ذمہ داری قبو ل کر لی ، پارلیمنٹ کے بند کمرے میں اجلاس ہوا جس کی خبریں باہر پہنچتی رہیں ۔اس اجلاس کے دوران بھی اور اس سے پہلے بھی ایئر چیف کا بیان آ چکا ہے کہ وہ ذمہ داری قبول کرتے ہیں، ڈرون گرانے کی صلاحیت کا اعلان بھی کر چکے ہیں تاہم وزیرِ دفاع اس سارے معاملے میں کہیں بھی نظر نہیں آئے۔ عسکری قیادت نے تو غلطی کا اعتراف بھی کیا ، خود کو احتساب کیلئے پیش بھی کیا، لیکن کیا وہ واحد ذمہ دار ہیں؟ اگر پارلیمنٹ میں قرار داد پاس ہوگئی ہے تو اس پر عمل بھی کیا جائے اگر ہم امریکہ سے کھلی جنگ چھیڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو یہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم اس سے تعاون ختم کر دیں۔ ہم نے کیوں اس کے مفادات کے تحفظ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں ہم اس کے اتحادی ہیں اور ایسی فرنٹ لائن پر ہیں جہاں ہمارے علاوہ خود امریکہ بھی نہیں ہے وہ دہشت گردوں کی پہنچ سے بہت دور اور محفوظ ہے جبکہ ہم ایسی توپ کے دہانے پر بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہمارے عام شہری کی زندگی محفوظ ہے نہ سیکیورٹی اداروں کی ۔ آج 13مئی کو مہمند ایجنسی شب قدر میں جس طرح 80اہلکار شہید کیے گئے اس کے بعد کسی کا دل امریکہ کی طرف سے کیسے صاف ہو سکتا ہے۔کیونکہ اس نے ہی تو یہ جنگ ہمارے سر تھوپی ہے یہ بچے تو ابھی اپنی ڈیوٹی پر بھی نہیں پہنچے تھے ابھی تو پاس آؤٹ ہوئے تھے۔ حکومت اگر یہ مہربانی کرے کہ صرف قراردادیں پاس نہ کرے بلکہ ان پر عمل بھی کرے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن اداروں کے ریکارڈ پر بے شمار کارنامے موجود ہیں یعنی آئی ایس آئی اور فوج کو تو فوراً ذمہ قرار دے دیا گیا لیکن سیاستدان دامن بچا کر نکلنے کی کوشش میں رہے بلکہ پہلے وزیرِ اعظم قوم کو کچھ بتائے بغیر فرانس اور پھر صدر غیر ملکی دوروں پر نکل گئے اور وزیرِ اعظم نے دورے سے واپسی پر اپنا بیان جاری کیا لیکن پھر بہت سارے اعترافات کئے۔

ہم اپنے آپ کو جمہوری ملک کہتے ہیں تو پھر ذمہ داری بھی جمہوری حکومت کو لینی چاہیئے افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی حکومت کے ماتحت ادارے ہیں انہیں احکامات حکومت سے موصول ہوتے ہیں اور وہ ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں تو پھر ساری ذمہ داری ہم افواجِ پاکستان پر کیسے ڈال رہے ہیں۔ اگرچہ ہمارے میڈیا نے اس معاملے میں ایک ذمہ دارانہ رول ادا کیا لیکن بار بار فوج کی نااہلی کی بات بھی کی جاتی رہی۔ بیرونی میڈیا نے تو ہماری فوج اور آئی ایس آئی کی تضحیک میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ یہ فوج اور یہ ادارہ ایک ایسے مسلمان ملک یعنی پاکستان کے تھے جس کے لوگ امریکہ سے نفرت کرتے ہیں کیو نکہ وہ اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار بھی اس کو سمجھتے ہیں۔ کچھ ہمارے اپنے صرف ’’خود کو بہترین مسلمان ‘‘ سمجھنے والے مضمون نگاروں اور مذہبی جماعتوں کے ذمہ داروں نے بھی اپنا حصہ بڑھ چڑھ کر ڈالا بغیر یہ سوچے کہ اگر ہماری فوج نا اہل ہے تو کیا اقوامِ متحدہ کی افواج کو پاکستان آکر ہماری حفاظت کا ذمہ لے لینا چاہیئے اور ایٹمی ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہونے کا جتنا ڈھول یہ پیٹ سکتے تھے پیٹ لیا تو ان کی حفاظت کا ٹھیکہ بھی کیا کسی اور ملک کو دے دینا چاہیئے ۔یہ کیوں نہیں سوچا جا رہا کہ اسامہ مفرور تھا اور مفرور کے ٹھکانے بدلتے بھی رہتے ہیں اور کوئی حکومت اور کوئی ایجنسی اس کی حفاظت کی ذمہ دار نہیں ہوتی۔ اسامہ کوئی عام شخص نہیں تھا القائدہ نے دس سال بلکہ زیادہ امریکہ جیسی سپر پاور کو تگنی کا ناچ نچا کر اس کو اس کی اوقات یاد دلائے رکھی اب بھی اس کو کن حالات میں اور کہاں مارا گیا کوئی نہیں جانتا اس کی موت پر بھی یقین نہیں کیا جا رہا لیکن القاعدہ کے اقرار سے ہی کچھ لوگ مجبوراً مان رہے ہیں۔ امریکی حملے سے عدم تحفظ کا احساس ضرور پیدا ہوا ہے لیکن یہ کہنا کہ بھارت بھی ایسا قدام کر سکتا ہے یا ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں دشمن کا پروپیگنڈا ہے اور مغربی اور بھارتی میڈیا کا دشمنانہ واویلا ہے ۔جو وہ اب سے نہیں سالہاسال سے کر رہا ہے۔ افواجِ پاکستان چاہے برّی ہوں یا فضائی کو ایک جھٹکا ضرور لگا ہے۔ قوم کو اس پر شکایت بھی ہے اور ناراض بھی ہے لیکن اس کا مطلب بے اعتمادی ہر گز نہیں ہے۔ قوم ایک بہت بڑے حادثے سے دوچار ہوئی ہے ۔ 9/11کا واقعہ بھی کچھ کم بڑا نہیں تھا کہ امریکہ میں ہی جہاز اڑے اور اپنے بے تحاشا وسائل اور جاسوسی آلات کے باوجود سی آئی اے کو خبر تب ہوئی جب ٹوئن ٹاورز اڑ چکے، ممبئی میں کھیل اگر ’’را‘‘ کا تیار کردہ نہیں تھا تو اسے کیوں خبر نہ ہوئی۔ اگرچہ دہشت گرد چھپا دشمن ہے لیکن امریکہ کی مثال بھی اسی چھپے دہشت گرد جیسی ہی ہے جو بظاہر دوست ہے اور بہ باطن ایک برا دشمن۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ ہم اب بھی امریکہ کو پہچاننے کی سعی و کوشش نہیں کر رہے اور یا پہچان کر بھی آنکھیں بند کر رہے ہیں۔ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ اب بھی دو ٹوک انداز نہیں اپنا رہی کہ اگر دوبارہ ایسا کوئی حملہ ہوا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔ کسی بھی انداز میں ۔بلکہ اب بھی پالیسی پر از سرِ نو غور کی بات کر رہی ہے اور قوم جانتی ہے کہ بے انتہا غور کے بعد بھی نتیجہ کیا آتا ہے یہی کہ ہم امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے لہٰذا ہمیں صبر کرنا چاہیئے اب حکومت تو صبر کر سکتی ہے لیکن وہ جن کے پیارے مرتے ہیں وہ کیسے صبر کریں۔ امداد کی فکر مت کیجیئے قوم اب بھی بہت اچھے حالات میں نہیں رہ رہی بے تحاشا مسائل سے دوچار ہے ملنے والی امداد اب بھی قوم تک نہیں پہنچ رہی۔ جنگ چاہے بڑے دشمن سے ہو یا چھوٹے سے طرفین کا نقصان ہوتا ہی ہے اس لیے جنگ کے حق میں شاید ہی کوئی ہو لیکن ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ خود کو امریکی اتحاد سے ا لگ کر دیں اور اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں ۔ مشکلات تو شاید آئیں گی لیکن ملک تو سلامت رہے گا تو کیا بہتر نہ ہو گا کہ اپنی بقا کیلئے ہم امریکہ کی مدد سے ہاتھ کھینچ کر بھی دیکھ لیں۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 507300 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.