پروازوں کی تاخیر میں مافیہ کا کردار

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد نے پچھلے دنوں پروازوں کی تاخیر کے مسئلے پر کیس کی سماعت کی اور متعلقہ حکام سے مسافروں کی سہولیات کے بارے پوچھا مگر کوئی معقول جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ چیف جسٹس اس پر ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا کہ بھاری تنخواہ لینا ہی حکام کا کام نہیں ۔ حکام کا کام مسافروں کی فلاح کے لئے کام کرنا ہے۔مگر یہاں کسی کو اپنے فرائض کی خبر ہی نہیں۔ائیر پورٹس پر مسافر زمیں پر پڑے ہوتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔اگر کوئی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو مسافروں کو ٹھہرانے کا کوئی انتظام نہیں۔ہوائی جہاز سے لوگوں کے جانے کا مقصد اپنا وقت بچانا ہوتا ہے۔اگر کوئی فلائٹ منسوخ ہو جائے تواس کی مسافر کو کیا ادائیگی کرتے ہیں۔سول ایویشن حکام نے بتایا کہ یہ کام ائیر لائن کا ہے وہ مسافروں کو کرایہ واپس کرتے ہیں۔جناب جسٹس نے اور بہت سے سوالات پوچھے جن کے جوابات حکام کے پاس نہیں تھے۔جناب چیف جسٹس!حکام کیا جواب دیں گے۔ وہ کمروں سے کبھی باہر نکلتے ہی نہیں اور ان کے عزیزوں اور دوستوں کو خاص توجہ دینے کے لئے ان کے ماتحت ہمہ تن تیار رہتے ہیں۔ان لوگوں کا ان کیڑے مکوڑوں جنہیں عام لفظوں میں عوام کہا جاتا ہے ، سے کیا سروکار۔

پچھلے ہفتے میرا بیٹا عمرے پر جا رہا تھا۔ رات دس بجے کی پی آئی اے کی پرواز تھی۔ سات بجے گھر سے نکلتے وقت فلائٹ انکوئری سے وقت کا پوچھا تو جواب ملا ، وہی ٹائم ہے ۔ ساڑھے سات ائیر پورٹ پہنچے ، بورڈ پر فلائٹ ٹائم موجود تھا جس سے اندازہ ہوا کہ فلائٹ وقت پر ہے۔ فلائٹ نے مدینہ منورہ جانا تھا اس لئے عمرہ کرنے والوں کا ایک بڑا ہجوم تھا۔ میرے خیال میں اس وقت ائیر پورٹ پر موجود عمرے پر جانے والے دو سو سے زیادہ لوگ تھے اور یہ مسافر لوگ اکیلے نہیں تھے ، ہر ایک کو چھوڑنے پورا پورا خاندان آیا ہوا تھا ۔جگہ جگہ ٹولیوں کی صورت عمرہ کرنے والوں کو الوداع کہنے والوں کا ہجوم تھا۔میں نے ایک ٹولی میں موجود نوجوان سے پوچھا، بیٹا کون جا رہا ہے، بڑا خوش ہو کر بتانے لگا کہ اس کے چچا اور چچی عمرے پر جا رہے ہیں اور پورا خاندان بس لے کر انہیں چھوڑنے آیا ہے۔میں سوچ رہا تھا کہ یہ ہماری کلچرل روایت ہے ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ایمان ہے کہ حج اور عمرے کے لئے پیسے کی نہیں، وہاں سے بلاوے کی ضرورت ہے اسی لئے کہتے ہیں، جسے چاہا در پہ بلا لیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے ، یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ نصیب والے جب عمرے پر جاتے ہیں تو ان کے تمام عزیزوں کی خواہش ہوتی ہے کہ دیار حبیب کو جانے والے ان کی التجائیں بھی اﷲ کے دربار اور حضور رسول کریم ﷺکی خدمت اقدس تک پہنچا دیں ۔ اس لئے لوگ دیر تک ان سے چمٹے رہتے ہیں۔

میں چھوٹا تھا مگر مجھے یاد ہے ۔وہ ساٹھ کی دہائی تھی ۔میرے ماں جی (میری دادی)کو حج کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ان دنوں حج کے لئے قرعہ اندازی ہوتی تھی۔ پانچ سال ان کا نام قرعہ اندازی میں نہ نکلا۔ چھٹی دفعہ قرعہ نکل آیا تو پورے خاندان کی خوشی دیدنی تھی۔ اس وقت کی روایات کے مطابق سارے خاندان کو اطلاع دی گئی کہ فلاں تاریخ کو اس وقت وہ لاہور سٹیشن سے حج کے لئے روانہ ہونگی۔روانگی کے دن تمام عزیزواقارب گھر میں موجود تھے۔ شادی جیسا سماں تھا۔ باقاعدہ دیگیں پک رہی تھیں ۔ کھانا کھانے کے بعد بسوں میں پورا خاندان گھر سے سٹیشن کو روانہ ہوا۔ ان دنوں حج پر جانے کے لئے چار ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ درکار ہوتا تھا۔ ان چار ماہ میں رابطے کی بہت کم صورت ہوتی۔ اگر کوئی لکھنا جانتا یا کہیں سے یہ سہولت مل جاتی تو پندرہ دن میں خیریت کی اطلاع کا خط آ جاتا۔ سادہ سا پتہ ہوتا حاجی کا نام، حاجی کا نمبر، معرفت معلم کا نام اور سعودی عرب لکھ کر خط بھیج دیا جاتا۔ مقدر کی بات اگر مل جائے۔ جانے والے نوے (90) فیصد سے زیادہ لوگ بوڑھے ار ان پڑھ ہوتے۔حج آج کی طرح آسان نہیں بلکہ خاصہ مشقت کا کام ہوتاتھا۔حج کے دوران بہت سے بزرگ فوت ہوجاتے تھے۔ لوگ اپنے عزیزوں کو یہی سوچ کر رخصت کرتے کہ شاید دوبارہ ملاقات ہو نہ ہو۔ چنانچہ سٹیشن پر عجیب سماں ہوتا۔ کچھ حاجیوں کے عزیز ٹولیوں کی صورت میں زاروقطار اونچی آوازوں میں رو رو کر انہیں رخصت کر رہے ہوتے، کچھ ٹولیاں مل کر درود وسلام پڑھ رہی ہوتیں۔ ٹرین چلتی تو رونے اور چیخنے کی آوازیں شدید تیز ہوجاتیں۔ حاجی رخصت ہوتے تو لوگ اداس اداس گھر کو لوٹ جاتے، یوں لگتا کہ حاجی صاحب شاید ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے ہیں۔ ایک دو قریبی عزیز حاجی صاحب یا صاحبہ کو چھوڑنے حاجی کیمپ کراچی تک جاتے اور پھر اگلے چار ماہ انتظار کرتے کہ حاجی سلامت واپس آ جائیں۔عمرے کا فیشن تھا ہی نہیں۔آج اس سفر سعادت پر جانے والوں کو ائیر پورٹ پر خاندان بھر کا چھوڑنے آنا اسی روایت کا تسلسل ہے اور بدلے حالات کے باوجود اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔

میں نے ائیر پورٹ پر گاڑی کھڑی کی۔ میرا بیٹا سامان نکالنے لگا اور میں عمرے پر جانے والوں کے خاندانوں کو دیکھ کو اپنے ماضی میں کھو گیا۔

کچھ دوسری فلائیٹ بھی آ اور جا رہی تھیں۔ دھند بھی نہیں تھی۔سردی البتہ بہت زیادہ تھی۔ مختلف خاندان اپنے جانے والے کو لئے ٹولیوں میں موجود تھے۔ میں نے ایک ٹولی میں موجود جس نوجوان سے بات کی وہ حافظ آباد کے قریب کسی گاؤں سے آئے تھے۔ اسی طرح کوئی منڈی بہاؤالدین، کوئی گجرات ، کوئی ساہیوال اور کوئی اسی طرح کے دور دراز علاقے سے تھا۔میرا بیٹا سامان اٹھا کر رخصت ہوا۔ اس کے ائیر پورٹ کی لاؤنج کی طرف جانے کے بعد میں گھر کی طرف لوٹا۔پہنچنے سے چند لمحے پہلے میں نے بیٹے کو فون کیا کہ بورڈنگ کارڈ لے لیا ہے۔ کہنے لگا اندر ابھی چیک ان شروع نہیں ہوا تھااور کوئی پرواز کے بارے میں بتانے کو تیار بھی نہیں تھا۔ میں شفٹ انچارج سے ملا، اس نے کہیں بات کی تو پتہ چلا فنی خرابی کی وجہ سے پرواز لیٹ ہے اب صبح چھ بجے کا وقت دیا ہے ، میں اوبر پر گھر واپس آرہا ہوں۔ رات دو بجے پتہ چلا کہ اب وقت صبح آٹھ بجے ہے۔ پھر اطلاع ملی وقت نو بجے ہے۔ صبح چھ بجے کہا گیا کہ اب فائنل وقت دس بجے ہے، یوں اس کھیل میں ساری رات جاگ کر گزری۔

صبح سات بجے میں ائیر پورٹ پر موجود تھا۔ میرا بیٹا سامان اٹھائے ائیر پورٹ کے اندر داخل ہوا تو میں جائزہ لینے لگا۔ رات دور دراز سے آئے ہوئے لوگ لاہور میں کوئی ٹھکانا نہ ہونے کی وجہ سے وہیں ائیر پورٹ کے مختلف کونوں میں سہمے اور سمٹے بیٹھے تھے۔ سخت سردی اور ٹھنڈی زمین، مگر کیا کریں۔ ایسے غیر یقینی حالات میں واپس جانا اور پھر آنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ فلائیٹ کیوں لیٹ ہوئی کسی کو کچھ پتا نہیں ۔لیکن عمرہ کی پروازوں میں یہ ایک روٹین ہے۔ حکام کہتے ہیں فنی خرابی تھی۔ مگر بہت سے واقف حال لوگوں کے خیال میں یہ ایک مافیہ کا کمال ہے۔ عمرہ زائرین سے اگر پندرہ دن کا کہا گیا ہے تو ہوٹل بھی پندرہ دن کے لئے بک کراناچاہیے۔رات دس بجے اگر جہاز چلتا ہے تو صبح سے پہلے مسافروں کو مدینہ منورہ میں کمرہ بھی فراہم کرنا پڑتا ہے۔ اس دن وہ کمرہ بک نہیں کراتے ،جہاز کو لیٹ کرا دیتے ہیں۔جہاز کو بارہ چودہ گھنٹے لیٹ کرنے سے وہ مافیا ایک دن کا کرایہ بچا لیتا ہے۔ ڈھائی سو مسافر اور ایک دن کا کرایہ معقول رقم بن جاتی ہے ۔ یہ کام منظم طریقے سے مل جل کر انجام پاتا ہے۔ جناب چیف جسٹس کچھ ایسا آرڈر کر جائیں کہ مسافر وقت مقررہ سے ائیر لائن کی ذمہ داری شمار ہو۔ جہاز لیٹ ہو تو مسافر کو اس سے کوئی سروکار نہ ہو۔اسے رخصت کرنے والے اسے چھوڑ کر واپس جائیں اور مسافر کے قیام اور طعام کی ذمہ داری ائیر لائن برداشت کرے۔فلائیٹ کے لیٹ ہونے سے بچنے کے لئے اور عوام کو مافیاز سے نجات دلانے کے لئے یہ راستہ اپنانا بہت ضروری ہے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 437990 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More