پاکستان کا مطلب کیا

غلامی سے آزادی تک سفر طے کرتے کرتے قومیں بہت سے مشکل حالات کا سامنا کرتی ہیں اور یہی کچھ برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ بھی ہوا آزادی کی راہ میں بے تحاشا مصائب و آلام کا سا منا کیا اور قربانیوں کا ایک طویل سلسلہ چلتا رہا لیکن یہاں قائداعظم جیسے لیڈر اور اقبال جیسے شعلہ نوا رہنما موجود تھے۔ محمد علی جو ہر، شوکت علی، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، ہیرے موتی جیسے لیڈروں کی موجودگی میں یہ قافلہ چلتا رہا 23 مارچ1940 کو نصب العین کا تعین کرنے کے بعد کسی رہرو نے پلٹ کر نہ دیکھا اور منزل پر پہنچ کر دم لیا یہ کہانی اس قدر سادہ اور مختصر نہ تھی وقت بھی لگا اور خون بھی بہا تب جا کے کہیں یہ گھر ملا جس کا نام پاکستان ہے۔

پاکستان کا حصول زمین کے ایک ٹکڑے کا حصول نہیں تھا بلکہ بقول قائداعظم یہ تجربہ گاہ اس لئے قائم کرنا چاہتے تھے کہ جہاں مسلمان اسلامی اصولوں کو آزما سکیں اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ان اصولوں کو خلوص دل سے کاروبار زندگی اور کاروبار حکومت میں آزمایا جائے تو ایک بہترین معاشرہ اور بہترین حکومت تشکیل پا سکتی ہے لیکن افسوس کہ قائد کی عمر نے وفا نہ کی اور پاکستان صرف ایک سال کی عمر میں اپنے رہنما سے محروم ہوگیا اور آج جب کہ ملک کو قومی یکجہتی اور اسلامی اصولوں کی ضرورت ہے ہم موجود مسائل کے ساتھ ساتھ مزید کئی دوسرے مسائل کو بھی ابھار رہے ہیں یوں لگتا ہے جیسے پچھلے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں اور فارغ رہنا ہمیں پسند نہیں لہٰذا ہم نے یہ ذکر چھیڑ دیا ہے کہ آیا قائداعظم کا تصوّر سیکولر پاکستان کا تھا یا اسلامی مملکت کا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قائداعظم اور برصغیر کے مسلمانوں نے ایک سیکولر ملک کے لئے ہی اپنی جانوں کی قربانی دی تو پھر تو حکومت بر طانیہ سے آزادی ہی کافی تھی اُس کے لئے الگ ملک حاصل کر نے کی کیا ضرورت تھی اور پھر اُن تریسٹھ لا کھ مسلمانوں کو پاکستان آنے کی کیا ضرورت تھی جو ہجرت کر کے پاکستان آئے نہ صرف اپنا گھر چھوڑا بلکہ کئی بار تو ایسا ہوا کہ پورے پورے خاندان راستے ہی میں شہید کردیئے گئے۔ اور کبھی اس قربانی اور شہادتوں کی کہانی سنانے کو کو ئی ایک فرد اپنے خوابوں کی سرزمین تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ پاکستان کا حصول اسلام اور پاکستان کا مطلب لَا اِ لَہَ اِ لَا الَّلہ ہی قرار دیا گیا تھا اس میں کوئی دوسرا تیسرا نکتہ نظر تھا ہی نہیں اور یہی نکتہ نظر حصول پاکستان کے بعد بھی رہا اور اب بھی ایک عام پاکستانی کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہا ں کچھ نام نہاد روشن خیال لیکن حقیقتاََ بے مہار لوگ اور بزعم خود انسانی حقوق کے علمبردار اس تاثر کو عام کر نے کی کو شش میں مبتلا ہیں بلکہ محسوس کیا جائے تو یہ ایک سازش ہے ورنہ پوپ بینڈ یکٹ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے ناموس رسالت کے قانون پر رائے زنی کیوں کرتا جبکہ یہی پوپ تاریخ کی اٹل حقیقت کو یہ کہہ کر جھٹلا رہا ہے کہ حضرت عیسٰی(ع) کو بقول انکے مصلوب کرنے میں یہودیوں کا کوئی قصور نہیں اور یہ فرمان اخوت بین المذاہب کے لئے جاری کیا گیا اسکی جگہ اگر وہ یہودیوں کے لیے اپنے نبی(ع) کو مصلوب کر نے پر معافی کا اعلان فرماتے تو زیادہ مناسب تھا۔دوسری طرف یہ سب قوتیں اسلام کو بدنام کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں اور دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے دین سے بے خبر نماز روزہ سے آزاد برائے نام مسلمان روشن خیالی کے نام پر ان لوگوں کی خوشامد کرتے ہوئے بڑی آسانی سے ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ پاکستان کا مطالبہ سیکولر یا پھر اسلامی ریاست کے لئے تھا چاہیئے تو یہ کہ یہ خود کو پڑھے لکھے باشعور کہنے والے پاکستانی ان امپورٹڈ این جی اوز کو بھی چپ کرواتے اور انہیں اسلام کے زرین اصولوں سے آگاہ کرتے مگر یہ خود اُن سے زیادہ بلند بانگ اور لایعنی نعرہ بازی شروع کر دیتے ہیں آج کل قائداعظم کو سیکولر اور مطالبہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک کا مطالبہ ثابت کرنے پر اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں زور دیا جا رہا ہے اور یہ سب ایک سازش کے تحت پاکستان کی اسلامی حیثیت ختم کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے جبکہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو مذہبی رواداری کا سب سے زیادہ حامی ہے بلکہ دوسرے کے دین کو نہ چھیڑنے کی تلقین کرتا ہے قرآن پاک میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے رسول ö کو تسلی دی کہ تمہارا کام صرف پیغام پہنچانا ہے انکے اعمال کی ذمہ داری سے آپکو آزاد قرار د یا اور یہ بھی کہ تمہارے لئے تمہارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دین اگر تبلیغ پر بھی کوئی اسلام قبول نہ کرے تو اسلام نے اس کو مارنے کا اختیار نبی ö کو بھی نہیں دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ دنیا کا ہر شخص ایک مذہب پر نہیں ہو سکتا چاہے وہ سچا ترین مذہب اسلام ہو۔ اسلام، اسلامی ملک میں رہنے والے غیر مسلم عوام کی حفاظت کی ذمہ داری بھی مکمل طور پر اسلامی حکومت پر ڈالتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر(رض) جیسے ثقہ راویُ سے مروی ہے کہ ’’ جس نے کسی اسلامی حکومت کے غیر مسلم شہری کی جان لی وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے آنے لگتی ہے‘‘ اب جو مذہب غیر مسلم کی جان لینے کے بدلے میں اتنی سخت و عید سناتا ہے کیا وہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری نہ لے گا آج کل پاکستان میں جو حالات پیدا کئے گئے ہیں اس میں نہ تو کسی مسلمان کی جان محفوظ ہے نہ کسی غیر مسلم کی ۔یہ کہنا کہ صرف غیر مسلموں کو خطرہ ہے انتہائی زیادتی ہے اور یہ بھی کہ یہ سب کچھ مسلمان کر رہے ہیں ایک اور بڑی زیادتی ہے اگر کوئی غیر مسلم خاندانی دشمنی کا بھی شکار ہو جائے تو انکے حقوق کا واویلا کر کے شور مچا دیا جا تا ہے تاکہ پاکستان کی اسلامی حیثیت کو چیلنج کیا جا سکے جبکہ یہاں ہر روز مسلمان کبھی مسجد میں کبھی نماز جنازہ میں اور کبھی بازاروں میں مارا جا رہا ہے اور کم از کم نوے فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ یہ سب فارن فنڈڈ ہے اور اب تو یہ ثابت بھی ہو رہا ہے اس لئے پاکستان کے وجود کو سیکولر اور اسلامی کے درمیان پسینے سے بہتر ہے کہ بیرونی دشمن طاقتیں اپنے ہاتھ روک لیں اور ہمارے روشن خیال پڑھے لکھے اور صرف زبانی کلامی مسلمان دنیا کی نظروں میں اچھا بننے سے پہلے اپنے ملک کی بہتری کا سوچیں اور وہ پروپیگنڈا چھوڑ دیں جو وہ کر رہے ہیں بلکہ وہ یورپ کے اسلام مخالف اقدامات کا نوٹس لینا شروع کر دیں کہ خود کو فرد کی آزادی کا علمبردار کہنے والے یورپ میں مسلمان عورتوں کے سکارف، مساجد کے مینار امریکہ میں گراؤنڈ زیرو پر مسجد کی اجازت نہ دینے والے امریکہ کے اعمال کو قابل توجہ اور قابل اعتراض سمجھنا شروع کر دیں۔

قائداعظم یقیناً کو ئی مذہبی شخصت نہ تھے لیکن ان کی کئی تقاریر اس بات کی گواہ ہیں کہ پاکستان کے لئے ان کی جدوجہد صرف ملک نہیں بلکہ اسلامی ملک کے حصول کے لئے تھی اور اسلامی ملک لینے کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا کہ یہاں سے دوسرے مذاہب کے ماننے والے نکال دیئے جائیں یہ سب تو sons of the soil ہیں اس زمین پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ایک مسلمان کا اور اس ملک کے لئے تکلیف اٹھا نا اُتنا ہی ان کا بھی فرض ہے جتنا ایک مسلمان کا۔ یہ بحث ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چھیڑی گئی ہے اور اس کو ختم کرنے کے لئے ہم سب کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے آج کے پاکستان اور اُس پاکستان کے درمیان فرق ختم کرنا ہوگا جس کا مطالبہ برصغیر کے مسلمانوں نے 23 مارچ1940 کو کیا اور اسے 14 اگست1947 کو حاصل کر لیا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 504764 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.