سو موٹو یا وہ موٹو

چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار دو سال اور اٹھارہ دن تک اپنے عہدے پر فائز رہنے کے بعد ریٹائر ہو چکے اور ان کی جگہ انتہائی خوبصورت ادبی ذوق رکھنے والے جناب آصف سعید کھوسہ آج پاکستان کے چیف جسٹس ہیں۔نئے چیف جسٹس نے اپنے پہلے خطاب میں کہا ہے کہ وہ سو موٹو کا استعمال کم سے کم کریں گے اور یہ استعمال اس وقت ہو گا جب کوئی دوسرا حل نہ ہو۔ انصاف کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ میرا اور جسٹس ثاقب نثار کا ساتھ بیس برس کا ہے ۔ ہم جڑواں بچوں کی طرح ہیں جو الگ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس ثاقب نثارنے مشکل حالات میں عدالت چلائی۔ ان کی انسانی حقوق کے حوالے سے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ نئے چیف جسٹس کی سو موٹو کے حوالے سے کم استعمال کی کہنا اچھی بات ہے کیونکہ ہر چیز کا زیادہ استعمال اس کی قدر کھو دیتا ہے چاہے وہ چیف جسٹس کا سو موٹو ہے یا سیاسی جماعتوں کا وہ موٹو جو بغیر وجہ سے غیر ضروری اور بلا وجہ بولتا ہے اور اپنا وقار تو کھوتا ہے مگر اپنی پارٹی کو بھی اتنا نقصان پہنچاتا ہے کہ جس کا کوئی ازالہ نہیں۔کاش چیف جسٹس سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھا دیں کہ بہت سے معاملات میں چپ رہنا یا کم بولنا، غیر ضروری بولنے سے بہت بہتر ہوتا ہے۔

چند سال پہلے کی بات ہے ، جسٹس افتخار چوہدری ریٹائر ہو رہے تھے۔ میں اور برادرم جہانگیر بد ر مرحوم گھر میں بیٹھے ان کے حوالے سے سپریم کورٹ کی صورت حال کے بارے بات کر رہے تھے۔ میرا خیال تھاکہ جسٹس افتخار کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ میں کافی مثبت تبدیلی آئے گی اور لوگ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے بہتر محسوس کریں گے۔جہانگیر بدر مسکرائے اور کہا کہ کچھ نہیں ہو گا۔ یہ سب روایتی جج ہیں۔ تبدیلی کے لئے کچھ عرصہ انتظار کرو۔ جسٹس ثاقب نثار سے صرف تبدیلی نہیں تمہیں ایک نیا رحجان نظر آئے گا۔ پھر ایک لڑی ہے جو سب کے سب ایک نئی سوچ دیں گے۔ ثاقب نثار کا انداز ایسا ہو گاکہ اس کے بعد آنے والے روایتی ججوں سے ہٹ اس انداز کو اختیار کرنے پر مجبور ہو نگے۔افسوس آج برادرم جہانگیر بدر ہم میں نہیں مگر جسٹس ثاقب نثار نے وہ شاندار روایات چھوڑی ہیں جس پر ان کے کے دوست اور عزیز و اقارب ہی نہیں پوری قوم فخر کر رہی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ تمام تر مخالف پراپیگنڈہ کے باوجود قوم ہر لمحہ جسٹس ثاقب نثار کو یاد کرے گی۔بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جہانگیر بدر اور جسٹس ثاقب نثار انتہائی قریبی عزیز ہیں۔

دسمبر2016 کوجب جنا ب ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا حلف لیا۔تو بہت سے لوگو ں کا خیال تھا کہ وہ ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے لئے بہت فائدہ مند ہوں گے بلکہ اس پارٹی کے لوگوں نے بھی عوام میں یہی تاثر دیا۔ اس وقت میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار انتہائی سنجیدہ ، مکمل پروفیشنل اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں۔ میں ان کے بہت سے قریبی عزیزوں اور دوستوں کو جانتا ہوں۔گو وہ ان سے بڑے مایوس ہیں کہ ملتے تو بہت اچھی طرح ہیں مگر کسی کام کا کہہ دیں تو مجبوریوں کا اظہار کرکے خوبصورت سا انکار کر دیتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ان کی امانت اور دیانت پر سبھی کو فخر ہے۔ ان کے بقول جسٹس صاحب کے دامن پر اقربا پروری یا کسی جاننے والے کی نا جائز تو کیا جا ئز حمایت کا بھی کوئی داغ نہیں۔جناب ثاقب نثار آئین اور قانون کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں اور اپنی دوخوبیوں کی بنا پر انہیں تمام ججوں میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ پہلی جسٹس صاحب سائل اور وکیل کی بات پورے غور سے سنتے اور انہیں اپنا موقف بیان کرنے کا پورا موقع دیتے ہیں اور دوسرا فیصلہ سنانیں میں کبھی دیر نہیں کرتے۔مجھے یقین ہے کہ نئے چیف جسٹس مخالفوں کے تمام پروپیگنڈے کے بر عکس ایک شاندار منتظم اور بہترین چیف جسٹس ثابت ہونگے۔کیونکہ سینئر وکلا کے بقول وہ ایک دیانتدار اور اصولی آدمی ہیں۔ ایک ایسے جج ہیں جو عام لوگوں کیلئے درد دل رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اﷲ کو جوابدہی کے جذبے سے پوری طرح سرشار ہیں۔ اس ملک کے عام شہری کی طرح میں بھی ان کی کامیابیوں کے لئے دعاگو ہوں۔

آج دو سال بعد جب جناب ثاقب نثار عدلیہ سے انتہائی باوقار انداز میں ریٹائر ہوئے ہیں تو انہوں نے ججوں کو ایک نیا جذبہ دیا ہے۔ انہیں ان کی پہچان کرائی ہے۔ وہ کسی حکومتی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے ۔انہوں نے عوام کے لئے انتھک کام کیا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کو حوصلہ اور واضع پیام دیا کہ اپنے حقوق کے لئے لڑو ، سپریم کورٹ آپ کے ساتھ ہو گا ۔ کسی بھی تنقید کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں عوام کی بہبود کے لئے آگے بڑھ کر کام کیا۔ اپنی ذاتی زندگی کو انہوں نے حد سے زیادہ محدود رکھا۔ چھٹی کے دن بھی عدالت لگائی اور جس حد تک ہو سکا لوگوں کی داد رسی کی۔اپنی ذات کو پوری طرح اپنے احباب سے دور رکھا اور کسی سفارش کی گنجائش بھی پیدا نہ ہونے دی۔اپنی ذات کو فقط انصاف کے لئے وقف رکھا اور لوگوں کو جرآت کی اکائی بخشی۔

کوئی شخص عقل کل نہیں ہوتا۔ کوئی بھی جب اپنی فہم اور فراست کو استعمال کرتے ہوئے استقامت سے کام کرتا ہے تو کچھ غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ مگر آخر میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اس کی غلطیاں زیادہ ہیں یا مثبت کام۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے مخالفین بھی یہ تسلیم کریں گے کہ جسٹس ثاقب نثار کی مثبت پیش رفت اس قدر ہے کہ معمولی غلطیوں کواہمیت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان بننے کے بعد پچھلے بہتر سالوں میں اس مملکت میں کچھ لوگ ریاست سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں۔ وہ کسی قانون کی پرواہ نہیں کرتے۔ عدالتیں ان کے ہاتھوں کھیلتی رہی ہیں۔ وہ خرید وفروخت کے بل بوتے ہر کام کر جاتے ہیں ۔ جسٹس ثاقب نثار کا سب سے بڑا کارنامہ ان لوگوں پر مضبوط ہاتھ ڈالنا ہے۔ کیونکہ ان سے پہلے یہ سوچنا بھی ممکن نہیں تھا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی جرات، ہمت،بے باکی اور قانون اور انصاف کے ساتھ حقیقی لگاؤ کے سبب تاریخ میں ایک عظیم جج کے طور پر زندہ رہیں گے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442481 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More