بھینسے کا سر اور نااہل شہزادہ

ایک مرتبہ ایک مغل بادشاہ نے ایک ایرانی شہزادے کی دعوت کی. جب ایرانی شہزادہ آنے والا تھا تو انہوں نے بڑے خانساماں کو بلا کر کہا کہ ایک ملک کا شہزادہ آ رہا ہے، تم اس کے لیے ذرا اچھا سا کھانا بنا دینا. یہ میزبان کے لیے عزت و وقار کا مسئلہ ہوتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ میں مہمان کو ایسا کھانا پیش کروں جیسے اس کی عزت یا جیسے میرے دل میں اس کی محبت ہے.چنانچہ اس نے کہا: بہت اچھا.جب ایرانی شہزادہ اپنے دوستوں کے ہمراہ آ کر بیٹھا تو تھوڑی دیرتک گفتگو ہوتی رہی، ہوتی رہی، پھرکھانے کا وقت آیا تو خانساماں کو اشارہ کیا گیا کہ آپ ان کے کھانے کے لیے کچھ لائیے، چنانچہ وہ ایک بڑاسا برتن ڈھکا ہوا لایا. اسے اوپر سے خوب سجایا گیا تھا جیسے گفٹ پیک ہوتا ہے، اس نے لا کر اسے ایرانی شہزادے کے سامنے پیش کیا کہ جی اسے قبول کیجئے.

ایرانی شہزادے نے جب اس کو کھول کر دیکھا تو اس کے اندر ایک بھینسے کا کٹا ہوا سر پڑا تھا اور اس کی گردن میں سے خون بھی نکل رہا تھا. انسان جب اس قسم کا منظر دیکھتا ہے تو اس کو کراہت محسوس ہوتی ہے وہ تو شہزادہ تھا اور اس نے اس چیز کو بہت ہی معیوب سمجھا کہ مہمان کے سامنے بھینسے کا کٹا ہوا سر لایا گیا ہے. یہ بھی کوئی بات ہے بھلا؟ جب اس نے ناگواری کا اظہار کیا تو اس مغل بادشاہ نے خانساماں کو بلا کر کہا: آپ نے تو ہماری عزت بنانے کی بجائے الٹا بے عزتی کروا دی، آپ نے تو مہمان کو ناراض کر دیا، ہم نے تو آپ سے یہ نہیں کہا تھا کہ بھینسے کا کٹا ہوا سر سامنے لا کر رکھو، اور سر بھی ایسا کہ اس میں سے خون بھی بہہ رہا ہو. ہم نے تو آپ سے کہا تھا کہ مہمان کے لیے کوئی اچھا سا کھانا تیار کر کے لاؤ.

خانساماں نے جواب میں کہا: جناب! میں نے یہ کھانا ہی تو تیار کیا ہے، کاش اس شہزادے کے اندر اتنی اہلیت ہوتی کہ وہ اس کی پہچان کر سکتا! یہ کھانا ہی ہے.آپ ذرا اس کو کہیں کہ وہ اسے ذرا کھا کر دیکھے. جب شہزادے نے اس کو ذرا قریب کر کے دیکھا تو وہ دراصل مختلف کھانے بنے ہوئے تھے. آنکھیں اور ذائقے کی تھیں، سر اور ذائقے کا تھا، دانتوں میں اور قسم کا ذائقہ تھا اور جس کو وہ خون سمجھ رہا تھا وہ مشروب اور ذائقے کا تھا. اب جب ایرانی شہزادے نے اس کو کھانا شروع کر دیا تو وہ واقعی اس خانساماں کی فنی مہارت کا قائل ہو گیا کہ انسان ایسی حیرت انگیز چیز بھی بنا سکتا ہے.

YOU MAY ALSO LIKE: