فروغ علم وقت کی اہم ضرورت: فکر اعلیٰ حضرت کی روشنی میں

[10شوال یومِ ولادتِ اعلیٰ حضرت پر خصوصی تحریر]

دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے جس سے بُعد و مسافت کے نشانات معدوم ہوتے محسوس ہورہے ہیں ۔ ہر شعبۂ علم وفن اور گوشہ ہاے حیات میں مقابلہ آرائی عود کرآئی ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے گویا ایک انقلاب برپا کردیا ہے ۔ جس کے سہارے اسلام مخالف قوتیں بالخصوص یہود و نصاریٰ و مشرکینِ ہند مسلمانوں کو پسماندہ و پسپا کرنے پر آمادہ ہیں اور بزور قوت و طاقت ظلم و دہشت کا وحشیانہ ناچ کا ئنات ارضی پر برپا کر دیاگیا ہے ۔ وہ علم و فن اور دانش و حکمت سے لیس ہو کر میدان عمل میں اتر آئے ہیں ۔ بایں ہمہ حد درجہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اپنے ورثے علم و تعلیم سے اپنے رشتے کو استوار کرلیں ۔

اسلام نے علم دین کا حصول فرض عین قرار دیا ۔ اس فرضیت سے بے اعتنائی کے سبب مسلمان قعر مذلت میں پڑ کر منصب امامت و قیادت سے محروم کردیا گیا ہے اور رسوائی و ہزیمت کے منجدھار میں جا پڑا ہے ۔ حالاں کہ دین فطرت نے اپنی تعلیمات میں فطرت کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کا اہتمام کر رکھا ہے ۔ ایک مسلمان علم و فن سے مرصع ہوجاتا ہے تو دنیا کے لیے وجہِ راحت و طمانیت بن کر انسانیت کے گلستاں کو باغ و بہار کر دیتا ہے ۔ متاعِ علم سے جو ر و ستم اورظلم و دہشت کا خاتمہ کرکے مہذب سوسائٹی کی تشکیل کرتا ہے ۔ خوفِ خدا اسے خلوت و جلوت میں بھی زیادتی و بے اعتدالی سے بچائے رکھتا ہے ۔ اورحشر میں جواب دہی کا تصور مثبت راہ پر ڈال دیتا ہے۔ تا ہم اسلامی معاشرے کا ہر فرد علم دین کے زیور سے آراستہ ہو جائے تو کائنات ارضی کی بادِسموم میں خوش گوار تبدیلی رونما ہوگی اور باطل عزائم اور ان کی ریشہ دوانیوں کی تہیں چاک ہوسکیں گی ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ( ولادت: ۱۲۷۲ھ/۱۸۵۶ء وصال : ۱۳۴۰ھ / ۱۹۲۱ء) امامِ علم و فن تھے اور ایک ماہر تعلیم بھی ۔ ۵۰؍ سے زیادہ علوم و فنون میں مہارت و کامل دسترس رکھتے تھے ۔ آپ نے باطل طاقتوں کے مذموم عزائم کو بھانپ لیا تھا اور مسلمانوں میں علم و فن کا جوہر پیدا کرنے کے لیے سرگرم عمل رہے تا کہ ماضی کا وقار بحال ہوجائے اور وہ اپنے منصوبوں میں ناکام و نامراد ہوجائیں جو علم کے راستے سے اسلام پر حملہ آور ہیں ۔ آپ نے برصغیر میں علومِ اسلامیہ کی نشأۃ ثانیہ میں اہم رول ادا کیا۔ہم ان سطور میں اعلیٰ حضرت کے بعض تعلیمی افکار و نظریات کا جائزہ اختصاراً لیں گے ۔

اسلامی معاشرے میں علماہی قائد ور ہنما ہوتے ہیں ۔ ان کی قیادت زندگی کے ہر شعبے میں ہونی چاہیے اور اس کی بحالی جبھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں علما کی عظمت و شوکت رچی بسی ہو ۔ اعلیٰ حضرت فضائل علما کے تحت تحریر فرماتے ہیں:’’ مصطفےٰ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنہوں نے علم وعلما کے فضائل عالیہ و جلائل غالیہ ارشاد فرمائے انہیں کی حدیث میں وارد ہے کہ علما وارث انبیا کے ہیں انبیا نے درہم و دینار ترکہ میں نہ چھوڑے ، علم اپنا ورثہ چھوڑا ہے جس نے علم پایا اس نے بڑا حصہ پایا،……ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، ابن حبان اور بیہقی نے حضرت ابودردا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے تخریج فرمائی کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کو یہ ارشاد فرماتے سنا، پھر انہوں نے فضیلت علم میں حدیث بیان فرمائی اور اس کے آخر میں فرمایا کہ بلاشبہ علما انبیا کے وارث ہیں اور انبیاء کرام درہم و دینار ورثہ میں نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے وراثت میں علم چھوڑا ہے پھر جس نے اس کو حاصل کیا تو اس نے وافر حصہ حاصل کیا۔ ‘‘(فتاویٰ رضویہ (جدید) ،ج۲۳ ، ص ۶۲۶۔۶۲۷، طبعپور بندر)

مقام افسوس کہ عمومی طورپر علماے کرام کے مقام و منصب کی پاس داری کا وہ تصور نہیں رہا جو ماضی کے عہد زرّیں میں ہمارا خاصہ تھا اور نہ ہی حصول علم دین کا مخلصانہ ذوق و شوق باقی رہا بایں سبب کامیابی و کامرانی کی منزل سے دوری صاف دکھائی پڑتی ہے ۔ علم و علما کے آداب و احترام کو معاشرے کا اٹوٹ عمل بنادیا جانا چاہیے ۔ والدین جہاں اپنے بچوں کو علم دین سے وابستہ ہونے کی ترغیب و تعلیم دیں وہیں علماو اساتذہ کے احترام بھی سکھلائیں تا کہ علم کی برکتیں حاصل ہوں ۔

دین کے ضروری معاملات کا علم حاصل کرنا بھی فرض عین سے ہے ۔ عقائد و ایمان کے لیے علم درکار ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فرماتے ہیں:
’’ اور فرض عین نہیں مگر ان علوم کا سیکھنا جن کی طرف انسان بالفعل اپنے دین میں محتاج ہو ، ان کا اعم و اشمل واعلیٰ و اکمل واہم واجل علم اصول عقائد ہے جن کے اعتقاد سے آدمی مسلمان سنی المذہب ہوتا ہے اور انکار و مخالفت سے کافر یابدعتی ، و العیاذ باﷲ تعالیٰ ، سب میں پہلا فرض آدمی پر اسی کا تعلّم ہے اور اس کی طرف احتیاج میں سب یکساں ۔ ‘‘(مرجع سابق ، ص۶۲۳۔۶۲۴)

عصر جدید میں جنگیں شمشیر و سناں سے نہیں بلکہ علم و قلم ، سائنس و ٹکنا لوجی اور اقتصادیات و معاشیات کی قوت اور ذرائع ابلاغ (میڈیا)کی طاقت سے لڑی جارہی ہیں ۔ داخلی و خارجی طور پر علم و فن کے ذریعہ ہونے والے حملوں کا رُخ در حقیقت اعتقاد و ایمان پر ہے ۔ باطل قوتیں اپنی کدو کاوش اس بات پر صرف کررہی ہیں کہ مسلمان کے ایمان کو کمزور کردیا جائے اور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے ان کے رشتہ و تعلق کو توڑ دیا جائے بایں حال عظمت و ناموس نبوی پر حملہ اور مستشرقین و معاندین نیز مغربی میڈیا کی ہرزہ سرائی و اہانت اور داخلی طور پر صیہونی قوتوں کی شہ پر پروان چڑھنے والے فتنے قادیانی ، بہائی، شکیلیت وغیرہم کی توھین و گستاخی اور عصمت انبیا پر جسارتِ بے جامتاع ایمانی چھیننے کے درپے ہے ۔ لہٰذا عقائد حقہ پر تصلب و ثابت قدمی کے لیے باطل فرقوں او ر بد مذہبوں کے ابطال و تردید کی خاطر علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے کہ ایما ن وا یقان کی کھیتی ہری بھری رہے ۔ یوں ہی ضروری دینی علم کے حصول کے بعد دیگر جائز و مفید علوم وفنون کا حصول بھی ناگزیر ہے کہ ان کے ذریعے ابھرنے والی سازشوں کا بروقت مسکت جواب دے کر حق اور سچائی کی حفاظت و صیانت کی جاسکتی ہے ۔

مغربی کلچر جو عیش و طرب کی نمود ونمائش کے ساتھ معاشرے میں رائج و نافذ کیا جارہا ہے اس کے پس پردہ اسلامی فکر و نظر کے خاتمہ کے مذموم رجحانات کا ر فرماہیں ۔ یونیورسٹیز اور دانش گاہوں کے نصاب تعلیم میں بھی ایسے مواد کی شمولیت کروائی گئی ہے جن سے نظر یاتی تخریب کا سامان مہیا ہوسکے ۔ ایسے علوم کے بارے میں اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں : ’’ ہیہات ہیہات ( افسوس افسوس) اسے علم سے کیا مناسبت ، علم وہ ہے جو مصطفےٰ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ترکہ ہے ، نہ وہ جو کفاریونان کا پس خوردہ ۔ اسی طرح وہ ہیئت جس میں انکار و جو د آسمان و تکذیب گردش سیارات وغیرہ کفریات و امور مخالف شرع تعلیم کئے جائیں وہ بھی مثل نجوم حرام و ملوم اور ضرورت سے زائد حساب یا جغرافیہ وغیر ھما داخل فضولیات ہیں ۔‘‘ (مرجع سابق، ص۶۲۸۔۶۲۹)

جس طرح علوم فاسدہ اور نظریات باطلہ سے بچنے کے لیے اور ان کے سدباب کے لیے عصری علوم سے واقفیت ضروری ہے اسی طرح دیگر زبانوں کا سیکھنا بھی افادیت و اہمیت رکھتا ہے اس لیے کہ ان زبانوں کے توسط سے رونما ہونے والے فتنوں کا منہ توڑ اور ٹھوس جواب دیا جاسکے ۔ اعلیٰ حضرت سے پوچھا گیا کہ انگریزی پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ ارشاد فرمایا: ’’ ذی علم مسلمان اگر بہ نیت رد نصاریٰ انگریزی پڑھے اجر پائے گا اور دنیا کے لیے صرف زبان سیکھنے یا حساب اقلیدس جغرافیہ جائز علم پڑھنے میں حرج نہیں بشر طیکہ ہمہ تن اس میں مصروف ہو کر اپنے دین و علم سے غافل نہ ہوجائے ورنہ جو چیز اپنا دین و علم بقدر فرض سیکھنے میں مانع آئے حرام ہے ، اسی طرح وہ کتابیں جن میں نصاریٰ کے عقائد باطلہ مثل انکار و جود آسمان وغیرہ درج ہیں ان کا پڑھنا بھی روا نہیں۔‘‘ ( یادگار رضا ۲۰۰۵ء ، رضا اکیڈمی ممبئی ، ص ۲۶)

موجودہ دو ر میں انگریزوں کی دریدہ دہنی اور اسلام کے خلاف مغربی میڈیا کی ہرزہ سرائی اور قرطاس و قلم کے ذریعے وجود میں آنے والے طوفان سے نبرد آزمائی کے لیے انگریزی زبان کا سیکھنا بھی ضروری ہے اور دیگر علوم و فنون کا اسلامی بنیادوں پر حصول بھی قومی ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔
٭٭٭
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 254542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.