سٹی قصور کا ایک اور اندوہناک واقعہ ، شبیر احمد بھٹی شہید

شبیر احمد بھٹی شہید،علم کے درخشاں ستارے تھے جو قصور سٹی کی جہالت کی بھینٹ چڑھ گئے،ایک خوش شکل ،خوش گفتار،ملکوتی مسکراہٹ کے مالک ،امن پسند ،صلح جو انسان، خوبرو نوجوان، اور محلفوں کی جان ،پینتیس سالہ سکول ٹیچر شبیر احمد بھٹی شہیدجوکہ ایک سیلف میڈ انسان تھے ہمیشہ سرگرم و متحرک اور بڑے محنتی تھے،وقت برباد کرنا ان کی دانست میں ایک گناہ کبیرہ تھااعلی اوصاف اور بہترین کردار کے مالک تھے فصاحت و بلاغت کے بادشاہ اور پر وقار شخصیت کے مالک ہونے کی بناء پر ہر دل عزیز اور اپنے شاگردوں کے لیے رول ماڈل تھے۔

شبیر احمد بھٹی شہید ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد نزیر احمد مست انسان تھے جو گھر بار اور دنیا ومافیہا سے بے نیاز تھے ایسے کٹھن حالات میں بھی شبیر احمد بھٹی شہید اپنی فیملی کے لیے ایک روشن ستارہ ثابت ہوئے،جیسے جیسے شبیر احمد بھٹی شہیدپروان چڑھتے گئے، گھر میں آسانیاں پیدا ہونی شروع ہوگئیں۔ ابھی میٹرک کا امتحان پاس ہی کیا تھا کہ پاکستان ماڈل ہائی سکول قصور میں پڑھانا شروع کیا وہا ں شبیر حسین بھٹی شہید کی صلاحیتوں کو مزید جلا ملی اسی ادارے (پاکستان ماڈل ہائی سکول) نے بھی بھٹی صاحب کی صلاحیتوں کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ انھیں اپنی صلاحیتوں اور شخصیت کو مزید نکھارنے کے بہترین مواقع فراہم کئے اور اس ادارے نے بھٹی صاحب کو کامیابی کے تمام گر عطا کئے جس کی بدولت کامیابیاں بھٹی صاحب کے ہم رکاب چلنے لگیں جس ادارے میں بھی آپ نے اپلائی کیا آپ کو جوائین کرلیا گیا کچھ عرصہ پولیس کی ملازمت بھی کی لیکن آپ تو علمی شمع کو روشن کرنے کا عزم لئے ہوئے تھے اس لیے جلد ہی بحیثیت ٹیچر محکمہ ایجوکیشن جوائن کرلیا جس سے آپ کی تشنگی کو قرار ملا۔ بھٹی صاحب جس محکمہ میں بھی رہے جدھر بھی گئے اپنی جادوئی شخصیت کا طلسم بچھاتے چلے گئے ،جو بھی آپ سے ملتا وہ آپ کی شخصیت کا دیوانہ ہوجاتا او ر دوبارہ ملنے کی تمنا کرتا ۔

گھر میں بڑے تھے اور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھتے تھے اور کل چھے بہن بھائی تھے اور اپنے پانچ بہن ،بھائیوں کی کفالت کو احسن طریقے سے سر انجام سے رہے تھے جس کی بدولت عام معلم کی نسبت انھیں دن رات سکولز اور اکیڈمیز میں زیادہ ٹائم دینا پڑتاتھا ۔ والد صاحب کی رحلت کے باعث بھٹی صاحب بہت رنجیدہ رہتے لیکن کبھی اپنے چھوٹے بہن ، بھائیوں کو والد کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور انھیں بھی پھرپور تعلیم دلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور چھوٹی عمر میں ہی انھوں نے نہ صرف خود کو اسٹیبلش کرلیا بلکہ اپنے محکمہ سے ہی اپنا جیون ساتھی بھی منتخب کیا یہ شادی شبیر بھٹی شہید کی زندگی میں بہار کا تازہ جھونکا ثابت ہوئی اور پھر راوی نے چین ہی چین لکھنا شروع کردیا، زندگی اور بھی مصروف اور معروف ہوگئی یکے بعددیگرے اﷲ پاک نے آپ کو پھول جیسے تین بچے عطا کئے جن میں سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے،سب سے بڑے بیٹے کی عمر لگ بھگ چھے سال کے قریب ہے۔

حالیہ رمضان المبارک میں ،بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب شبیر احمد بھٹی صاحب اپنے ہم پیشہ رفیق، شفیق ڈوگر کے ساتھ پرانے لاری اڈہ (قصور) میں انصاری ٹی سٹال پر چائے پینے کے لیے گئے انصاری ٹی سٹال والے بظاہر شریف انسان لیکن حد درجہ کے چرسی اور نشئی لوگ ہیں جن کا حلقہ احباب بھی نشے میں ٹن رہتا ہے لیکن یہ دونوں روشنیوں کے معمار کب واقف تھے کہ وہ کیسی منحوس جگہ پہ چائے پی رہے ہیں ویسے بھی سوچا جائے تو ایک شارع عام پہ جائے کاہوٹل ہے جس کا بظاہر تو خطرناک ہونا ممکن نہیں تھا لیکن بات ہوتی ہے انسان کی انسانیت اور پرورش کی جو کہ انصاری ٹی سٹال والوں کو شائد نصیب نہ ہوئی تھی چائے کے بل کی ادائیگی کو لے کر بحث و مباحثہ شروع ہوگیا جبکہ روشنی کے پیامبر،ڈبل بل دینے کے لیے بھی راضی تھے لیکن جانے انصاری ٹی سٹال والے کتنے زیادہ نشے میں ٹن اور کتنا زیادہ ان کے بتوں میں خناس بھرا ہو ا تھاکہ انصاری ٹی سٹال والے سارے چرسی ،بھنگی اور اپنے دستی ہتھیاروں کے ساتھ ان معصوم تعلیم کے نگہبانوں پر ٹوٹ پڑے ،ظالمان نے ان دونوں پر لاتوں ،گھونسوں،ککوں،سٹکوں اور نوکدار بوٹوں کے متعدد وار کیے اور رات کے اس پہر ظالمان کی کاروائی کے دوران کسی عام انسان کی ہمت نہ ہوسکی کہ معاملہ رفع دفع کروادے کونکہ ظالمان کو نشے میں دھت دیکھ کر کسی میں ہمت نہ تھی کہ آگے بڑھ کے روشنی کے نگہبانوں کو تحفظ فراہم کرسکے۔ظالمان نے شبیر احمد بھٹی کے ساتھ تشدد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا موبائل اور پرس بھی نکال لیا جس میں ان کے کریڈٹ اور اے ٹی اہم کارڈز بھی شامل تھے ،ظالموں نے بھٹی صاحب کو مار مار کر ادھموا کردیا اور نیم بیہوشی کی حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئے بھٹی صاحب کی جب حالت سنبھلی تو ان کے ساتھی شفیق ڈوگر کے جسم کے مختلف حصوں سے خون رس رہا تھا اس کی حالت دیکھ کے شبیر احمد بھٹی اپنے اندرونی گھاؤ بھی بھول گئے اور اپنے ساتھی کے ہمراہ ڈسڑکٹ ہاسپٹل پہنچے ، اس کی مرہم پٹی کروائی لیکن شبیر احمد بھٹی صاحب اپنی طرف بڑھتی ہوئی موت سے بے خبر اپنے دوست کی دلجوئی میں لگے تھے (ایسے میں جب پورے جسم میں اندرونی اور بیرونی درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہوں اور پورا جسم پھوڑے کی طرح دکھ رہا ہو تو یہ جاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ زیادہ درد جسم کے کس حصے میں ہے اور کونسا درد زیادہ خطرناک ہے)اپنے ساتھی کی مرہم پٹی کروانے کے دوران بھٹی صاحب ہاسپٹل کے فرش پہ گرے اور جانبر نہ ہوسکے(پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق موت، جگر ڈیمج ہونے کے باعث جسم میں خون کی منتقلی نہ ہوسکنے کے باعث ہوئی)،قصور میں روشنی بکھیرنے والے ستاروں میں ایک ستارے کو جہالت کی تاریکیوں نے نگل لیا۔ شبیر احمد بھٹی شہید اپنی بیوہ ماں ، تین بھائیوں ،دو بہنوں ،تین بچوں اور اپنی بیگم کو ہمیشہ کے لیے سوگوار کر گئے۔رشتہ دار تو رشتہ دار ،سارے دوست احباب اور ساتھی معلمین بھی اس اندوہناک واقع پر اشک بار اور حیران تھے کسی کو بھی اس انہونی پہ یقین نہیں آرہا تھاکیونکہ بھٹی صاحب صلح جو انسان تھے لڑائی بھڑائی سے وہ کوسوں دور رہتے تھے شبیر احمد بھٹی شہید کے جنازے میں تل دھرنے کوجگہ نہ تھی جو لیٹ ہوئے ان کو جنازے مین جگہ نہ مل سکی ،سارا شہر تھا کہ جنازے میں امڈ آیا ہو آخر تعلیم کے درخشاں ستارے کا جنازہ تھا۔

اس اندوہناک قتل کی ایف آئی آر تھانہ اے ڈویژن قصور میں درج ہوچکی ہے جس کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر جوئیہ صاحب ہیں ڈسٹرکٹ قصور کے معلمین کی مختلف یونینز اور تنظیموں نے انصاف حاصل کرنے کے لیے سوگواران کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس معصوم انسان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ پولیس اپنا کردار غیر جانبداری سے ادا کرے ورنہ ٹیچرز کی یونینز انصاف کے حصول کے لیے پورا سٹی بھی بلاک کرسکتی ہیں جس سے شہر کی فضاء مکدر ہو جانے کا اندیشہ ہے اس سے پہلے زینب کیس میں قصور کا امن احتجاجوں کے باعث تاراج ہو چکا ہے اس لیے راقم ارباب اقتدار اور قانون کے پاسبانون سے استدعا کرتا ہے کہ اس اندوہناک قتل کو جلد از جلد اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے تاکہ شہر کا امن بحال رہے اور انصاف کا بول بالا ہو۔چونکہ سٹی قصور اس سے پہلے بھی اندوہناک واقعات کا شکار رہتا ہے تو اس پہلو کے پیش نظر اس کیس میں متعلقہ ادارے ایک دوسرے سے تعاون یقینی بنائیں اورسوگواران کو فوری انصاف فراہم کریں مبادہ کے مرحومین اور ٹیجرز انصاف کے حصول کے لیے سارا سٹی بلاک کردیں اور بے سکونی اور عدم اعتماد کی فضاء پنپے۔ ایسے واقعات ہمارے معاشرے کے لیے عبرتناک اور لمحہ فکریہ ہیں کہ جو لوگ علم بانٹ رہے ہیں انھیں بہت زیادہ تحفظا ت کا سامنا ہے جبکہ پوری دنیا میں معلمین کو ہر معاملے میں نہ صرف برتری دی جاتی ہے بلکہ فوری ان کی داد رسی کی جاتی ہے راقم ارباب اختیار سے استدعا کرتا ہے کہ خدارا معلمین کے تحفظ کا یقینی بنایا جائے بلکہ درسگاہوں اور مدرسوں کے قریب وجوار کی جگہ اور ہوٹلز وغیرہ کو چرسی اور نشئی حضرات سے پاک کیا جائے۔اﷲ پاک مرحومین کو صبر اور فوری انصاف عنائیت فرمائے ۔۔آمین

Ghulam Mustafa
About the Author: Ghulam Mustafa Read More Articles by Ghulam Mustafa: 12 Articles with 8207 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.