قرآن سے محبت کرنے والا ہندو خاندان

انڈیا کے زیرانتظام جموں کے ابرول خاندان میں قرآن کے نسخوں کو سنبھالنے کا سلسلہ تقسیم ہند سے پہلے سے جاری ہے۔

اس خاندان کی تیسری نسل کے سریش اب ان نسخوں اور خطاطی کے نادر نمونوں کے وارث ہیں۔
 

image


اس خاندان کی تیسری نسل کے سریش اب ان نسخوں اور خطاطی کے نادر نمونوں کے وارث ہیں۔

ان کے کلیکشن میں تقریبا پانچ ہزار نسخے اور فن خطاطی کے ڈھائی سو نادر نمونے ہیں۔

سریش ابرول کے دادا اپنے والد کے ساتھ آخری ڈوگرا حکمراں مہاراج ہری سنگھ کے دربار میں حاضری دیا کرتے تھے۔

مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1952 ء تک جموں و کشمیر پر 27 سال تک حکومت کی۔
 

image


سریش ابرول کا خاندان زیورات اور زرو جواہرات کے کاروبار سے منسلک ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے دادا لالہ رکھی رام ابرول ہری سنگھ کے خزانے کے زیورات کے نگراں تھے۔

وہیں سے انھوں نے رفتہ رفتہ قلمی نسخے، فن کتابت یا فن خطاطی کے نادر نمونے اور تانبے اور سونے کے سکے اکٹھا کرنا شروع کیے۔
 

image


سریش ابرول کے پاس فی الحال پانچ ہزار قلمی نسخے ہیں جن میں عربی، سنسکرت، فارسی، شاردا زبان و ادب کے زخائر شامل ہیں۔ ان میں آیوروید (طب) کے متعلق نسخے بھی شامل ہیں۔

حال ہی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے درالحکومت سرینگر میں سریش ابرول کے کلکشن کی نمائش منعقد کی گئی۔ اس نمائش میں، قرآن کے دو قلمی نسخوں نے لوگوں کو بطور خاص اپنی جانب متوجہ کیا۔
 

image

ان میں سے ایک قرآن کریم کاغذ پر جبکہ کلام پاک کا دوسرا نسخہ کھدر کی ایک چادر پر لکھا ہوا نظر آیا۔

سریش ابرول کہتے ہیں: 'دونوں ہی قرآن اپنے آپ میں مکمل ہے یعنی پورے 30 پارے ہیں۔ کاغذ پر تحریر کلام پاک ایک فٹ چوڑا جبکہ پانچ فٹ لمبا ہے۔'

کپڑے پر لکھا قرآن ساڑھے چار فٹ لمبا اور ساڑھے پانچ فٹ چوڑا ہے۔ دونوں کو واضح طور پر دیکھنے اور پڑھنے کے لیے دس یا بیس محور کا لینس استعمال کرنا پڑتا ہے۔
 

image

ابرول خاندان نے تقریبا 90 سال سے یہ منفرد و نادر چیزیں سنبھال کر رکھی ہیں۔ بہرحال انھیں اس بات کا علم نہیں کہ قرآن کریم کے یہ قلمی نسخے کتنے پرانے ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔

سریش بتاتے ہیں گذشتہ 30-35 سال سے لوگوں نے انھیں اس کے بارے میں معلومات فراہم کرنی شروع کی ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے اپنے طور پر کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ یہ کتنے سال پرانے نسخے ہیں۔
 

image

قرآن کے دونوں نسخوں پر کاتب کا نام درج نہیں ہے۔

طلائی شجرۂ نسب

ابرول کہتے ہیں: 'پرانے لوگ ملنگ (اپنے آپ میں مگن رہنے والے) قسم کے ہوا کرتے تھے۔ انھیں اس بات میں دلچسپی نہیں رہتی تھی کہ ان کا نام درج ہوا کہ نہیں۔ وہ لوگ گمنامی میں زندگی گزارنا پسند کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے ان نسخوں پر کوئی بھی نام درج نہیں ہے۔'

نمائش کے لیے ابرول نے کتابت کے تقریبا 40 نمونے رکھے جن میں شجرۂ نسب بھی شامل ہے۔
 

image

شجرۂ نسب میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تک پیغمبروں کے نام درج ہیں۔ اسلام کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان اور پہلے نبی ہیں۔

ابرول نے بتایا کہ سرینگر میں نمائش کے لیے رکھا جانے والا شجرۂ نسب سونے کا تھا۔

جبکہ 40 کتابت کے نسخے ویلم یعنی جانوروں کی کھال پر تحریر ہیں۔

ابرول کہتے ہیں: جس طرح ہمارے اپنے مذہب کے قلمی نسخے مقدس ہیں، اسی طرح دوسرے مذاہب کے بھی قلمی نسخے ہمارے لیے مقدس ہیں۔ ہم اور بطور خاص ہماری اہلیہ عموماً پوجا (عبادت) کے بعد ہر ایک قلمی نسخے کے سامنے اگربتی جلاتی ہیں۔
 

image

اپنے گھر کے ایک حصے میں ابرول اور ان کے تین بھائیوں نے ایک میوزیم بنا رکھا ہے اور یہیں تمام قلمی نسخوں اور خطاطی کے نمونوں کو محفوظ رکھا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ سکھ مذہب کی گرباني کی ساكھياں بھی ان کے پاس ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے گرو نانک کہاں کہاں گئے، کس کس سے ملے اور کیا کیا مواعظ دیے۔

وہ کہتے ہیں کہ انھیں اگر وراثت میں کچھ ملا ہے تو یہ وہ چیزیں ہیں۔

لوگ سرینگر میں لگنے والی اس نمائش کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں آئے۔
 

image

ابرول نے بتایا: 'یہاں آنے والے ہر شخص نے میری بہت تعریف کی اور محبت کا اظہار کیا۔

اس نمائش کا انعقاد سری نگر کے ٹورسٹ ریسپشن سینٹر میں کیا گیا تھا جہاں جموں کشمیر حکومت کے آرکائیو اور میوزیم سے بھی قرآن کریم کے کئی نسخے اور چند نایاب مخطوطات رکھے گئے تھے۔

منتظمین نے بتایا کہ پہلی بار قرآن مجید کے ان منفرد نسخوں کو نمائش کے لیے گھر سے باہر لایا گیا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

At the exhibition in Srinagar, Abrol has displayed – for the first time – 40 Islamic calligraphic images, a 24 feet long family tree of Muslim prophets and a miniature Quran written on cloth. The exhibition also showcases the oldest Quranic manuscript in valley written some seven hundred ago.