پولیو وائرس اور ہماری زمہ داری

پولیو مائلائٹس (پولیو) ایک وبائی (تیزی سے پھیلنے والا) مرض ہے جو پولیو وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے، اور ٹانگوں اور جسم کے دوسرے اعضاء کے پٹھوں میں کمزوری کی وجہ بن سکتا ہے یا چند صورتوں میں محض چند گھنٹوں میں موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ یہ وائرس اتنا خطرناک ہے کہ انسان کو عمر بھر کے لیے اپاہیچ بنادیتا ے،پولیو وائرس کسی متاثرہ فرد کے پاخانے سے آلودہ ہوجانے والے پانی یا خوراک میں موجود ہوتا ہے اور منہ کے ذریعے صحت مندافراد کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ وائرس کی تعداد جسم میں جا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور متاثرہ فرد کے جسم سے ایسی جگہوں پرخارج ہوتا ہے جہاں سے بہ آسانی کسی دوسرے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے ۔بد قسمتی سے ہمارا ملک پاکستان دنیا کے ان دو ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں افغانستان کی طرح پولیو وائرس کی موجودگی پائی جا رہی ہے۔ اس موذی وائرس کے خاتمے کے لیے جاری جنگ کے آخری مرحلے میں ہے، بلاشبہ پاکستان نے اس وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے حوالے سے گراں قدر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اور یہ ہی وجہ ہیکہ مائیکرو سافٹ کمپنی کے بانی بل گیٹس نے آرمی چیف کو فون کرکے پاکستان میں انسداد پولیو مہم میں پاک فوج کے کردار کی تعریف کی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے ٹوئٹ کے مطابق معروف امریکی فرم مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کیا اور پاکستان سے پولیو کے خاتمے کے لیے جاری انسداد پولیو مہم میں پاک فوج کے تعاون کو سراہا ہے۔ بل گیٹس کے فلاحی ادارے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے تحت دنیا بھر سے پولیو کے مرض کو ختم کرنے کے لیے کام جاری ہے، پاکستان میں بھی انسداد پولیو مہم کے اخراجات بل گیٹس کی فاؤنڈیشن ہی برداشت کرتی ہے۔دو سال قبل پاکستان کے مختلف علاقوں میں پولیو وائرس بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ تا ہم 24 ماہ کے قلیل عرصے میں مربوط حکمت عملی اپناتے ہوئے اور ایک نئے عزم کے ساتھ نہ صرف پولیو وائرس کی بے قابو لہروں کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے بلکہ پولیو وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام اور اس کے تدارک کی راہ میں حائل عدمی رکاوٹوں کا بھی سد باب کیا جا رہا ہے۔پولیو کے موذی وائرس کی وجہ سے جسمانی معذوری کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد میں رواں سال گذشتہ تین سالوں کے مقابلے میں بتدریج اور مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سال 2014ء میں پولیو وائرس کا شکار بننے والے بچوں کی تعداد 306، سال 2015ء میں 54، سال 2016ء میں 20 جبکہ رواں سال 2017ء میں اس موذی وائرس کی وجہ سے صرف ایک ہے۔ پولیو کے تدارک کے لیے جاری کوششوں سے بچوں کی قوت مدافعت کو بہتر کیا جارہا ہے اور پروگرام رواں سال میں پاکستان سے پولیو وائرس کی مکمل روک تھام اور خاتمے کی طرف مثبت طور پر پیش رفت کر رہا ہے۔اس موذی وائرس کی باقیات پاکستان کے تین مختلف علاقوں میں ابھی بھی موجود ہیں جن میں کراچی اور کوئٹہ سمیت خیبر پختونخواہ کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ تاہم ان مذکورہ علاقوں کے علاوہ بھی پاکستان کے دیگر علاقوں میں اس موذی وائرس کے پھیلنے کے خدشات اپنی جگہ موجود ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ معیار کی پولیو کے تدارک کی مہم کے انعقاد کو یقینی بنانے پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے اور پولیو وائرس کے مزید پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے تمام بچوں کی پولیو ویکسینیشن کرانا اس لیے بھی انتہائی ضروری ہیکیونکہ ہر وہ بچہ جو پولیو کے قطرے پینے یا پولیو سے بچاؤ کا حفاظتی ٹیکہ لگوانے سے محروم رہ جائے گا وہ پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔

ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لئے شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اور خصوصی طور پر علماء کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں موجود مختلف غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے۔ یہ ویکسین تمام بچوں کے لئے محفوظ ہے، اور ہر خوراک پولیو کے خلاف بچے کی قوت مدافعت کو مضبوط کرتی ہے۔ عالمی کوششوں کے سبب پولیو کا تقریباً دنیا بھر سے خاتمہ ہو چکا ہے ۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ ہم پاکستان میں پولیو کے مکمل خاتمے میں صرف چند ماہ کے فاصلے پر ہیں۔ اس مرض کے مکمل خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ہر پانچ سال کے بچے کو پولیو ویکسی نیشن لازمی کروائی جائے، اس کے ساتھ ساتھ صحت و صفائی پر خصوصی توجہ دی جائے، بلاشبہ صفائی کے بہتر انتظام کے باعث بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Nasir Iqbal
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal: 13 Articles with 23829 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.