علم یہ ہے کہ:

علم کبھی انسان کو رسوا نہیں کرتا ماسوا یہ کہ انسان اس کا مقصد و معنیٰ نہ سمجھے ۔ پہلے تحقیق اس بات کی ہونی چاہیۓ کہ علم حاصل کیوں کیا جاتا ہے؟
لوگ ہنس کے کہیں گے ۔ یہ بھی کوئ پوچھنے کی بات ہے! جہل کو مٹانے کو ۔۔
بس، یہ بات سمجھ آجاۓ تو کل بے وجہ کے مباحث و ضد ختم ہوجاۓ ۔
ہر انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے مگر قابل بھی بہت کچھ نہیں جانتا ۔ معروف ترین فلسفی سے دواؤں کا پوچھئے یا بزنس مین سے طبعیات کا مشہورترین نظریہ ۔۔ اگر وہ عام سی تشریح بھی بتادے تواحباب سر دھننے لگتے ہیں ۔ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے سو کئ تڑخ کے کہنے پہ مجبور ۔۔ ہوتے ہیں ۔
یہاں ان بے تکے نظریات سے کیا واسطہ !
بھلا اب سادہ لوح جو غصے سے سنائیں تو غلط ہوا ۔
آئن اسٹائن و ایڈیسن جو بجلی و ایٹم نہ بنا جاتے تو دیکھتے کیا واسطہ ۔۔!
بے شک، آئن اسٹائن کی ایٹم کی ساخت پہ مدلل و سمجھ میں آجانے والی تقاریر کے سبب بطور مزید سمجھ اس کا دماغ آج بھی محفوظ ہے مگر سچ ہے کہ ایڈیسن نے بجلی سے چلنے والی بہتیری چیزیں بنائیں مگر بجلی نہیں ۔۔ یہ بنی بنائ چیز تھی (آئن اسٹائن کے دماغ کی طرح) جو دریافت کی گئ ۔ ہاں، آئزک آئن اسٹائن نے ٹائم این اسپیس کا اصل کھیل دریافت کیا اور یوں شہرۂ آفاق ہوا یہ نظریہ کہ آج تک ہر دوسری سائنس فکشن مووی ۔۔ اس پہ ہوتی ہے مگر آئزک آئن اسٹائن کا نام لوگ بھول جاتے ہیں ۔ اب جو ٹائم این اسپیس تھیوری کو آئزک آئن اسٹائن کا نام دے دیا جاتا تو کوئ بھول پاتا! ہاں پھر سکینہ و جمیلہ کی طرح یہ نام کہلاتے ۔۔ ! سائنس کی تاریخ پڑھ کے ہم ہمیشہ سوچتے رہے ۔
آخر بلب ایڈیسن کیوں نہیں ہوا؟
بس پھر یہ سوچ کے صبر آجاتا ہے کہ بھائ ایڈیسن نے چیزیں اتنی اور یکے بعد دیگرے ایجاد کی تھیں کہ کس کس کا نام ان پہ رکھتے ( اس لیۓ سب سے بڑا سائنس دان ان کو ہونا چاہیۓ تھا بسب ہمارے بڑے بھائ ہونے کی نسبت الگ ۔۔ مگر بھائ آئن اسٹائن کا نظریہ آج بھی اکثر لوگوں کو سمجھ نہیں آتا سو سمجھ کے بحث کیجیۓ
بس یہ بات سنتے ہی کئ سائنس کے استادوں کا دم نکلا جاتا ہے ۔۔ دم دار ستارے و سیارے کہ طیارے کا فرق تو بزبان استاد بچے سمجھتے نہیں ۔ یہ جمہوریت کہیں کا نہ چھوڑے گی ۔۔ چلو ۔۔ ووٹنگ بھائ آئن اسٹائن کے حق میں (ظاہر سائنس دانوں کی ۔۔) ہوجاتی ہے ۔ ۔۔۔۔۔ )
دنیا آزمائش کیسے ۔۔! کہیں ایک عمل رحمت تو کہیں زحمت ہی زحمت ۔۔ جان ہار جائیں، پر جان بھی نہ مانے سچ ۔۔ کچلہ سے بنی اسٹرکنین سانپ کاٹے کا توڑ ہے اور ہند و پاکستان میں اس زہریلی دوا پہ حکماء کی طرح اعتراض عام ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ڈاکٹرز چونکہ حکماء کی طرح ادویات آپ نہیں بناتے تو اکثر نہیں جان پاتے کہ وہ جن ادویات و عادات پہ معترض ہیں وہ ایلوپیتھک طب کا بھی بدرجۂ اتم کہ یکساں حصہ ہیں ۔ یعنی لوگ بے جانے اعتراض و عزت یوں کرتے ہیں کہ تھوک نگلتے کہ اگلتے لوگ بھاگ نکلیں جیسے ہم نے سائنس چھوڑ دی ۔
غالب نے کہا تھا ۔
ہوۓ جو مرکے رسوا، ہوۓ کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اب مرنے کے بعد قدرت کی دی ذہانت پہ جسم نوآموزوں کہ احمقوں کے ہاتھوں مشقِ ستم ۔۔ یہ اتنے ذہین کیوں تھے ؟ جان کے ہم بھی ہوجائیں ۔۔
یا خبیث ترین کیڑا و بیماری کا نام، ہماری دریافت و علاج پہ بطور شکرگزاری ہم پہ رکھ دیا جاۓ ۔۔
یا خدا، کہیں ہم ایڈز کہ ڈینگی ہوگۓ تو ۔ ۔!
تب ہی جب سمجھ داروں نے داستان گوئ میں بات کہنی شروع کی کہ جب تصویری تحریر سے مسجع و مقفیٰ زبان آسان بنانے کی بات شروع کی گئ ۔ دانا کہتے رہے ۔
علم یہ ہے کہ انسان عالم، کامل کبھی نہیں بن سکتا ۔۔
ان معنوں میں کہ بہترین چیز کب کثرتِ استعمال سے جواب دے جاۓ کہ بہترین فلسفے کو سمجھ کے سمجھ دار ناسمجھوں کو وسیلے کا سبق دیتے آپ خدا بنا جاۓ ۔۔ ممکن ہے مگر ہر چیز ہر جگہ، ہر ایک کے لیۓ قابلِ عمل و تحسین بھی ہو ۔۔ ممکن نہیں ۔ کیا بچے کو امام بنانا جائز نہیں مگر اس سے فتاویٰ نہیں لیے دیۓ جاسکتے باوجود یہ کہ وہ سب سے بڑھ کر قرآن جانتا ہو ہاں اسے ہونہار بروا کی جگہ گدھا کہہ دیا جاۓ تو باپ، چچا ۔۔ کی طرح کیا آپ بھی برا نہ کہیں گے؟
بس ہماری عوام و علم کا فرق یوں سمجھنا نہیں درست مگر اور کیا درست ان امثالات کے سوا لکھا جاسکتا ہے ۔

Arshia Ahsan
About the Author: Arshia Ahsan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.