وحشی کا قصہ

حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رسول اللہ کے سگے چچا تھے ۔ بہادر اور دبنگ شخصيت کے مالک ، خوش شکل ، خوش اطوار ، زبان کے پکے اور خطرہ کے وقت ثابت قدم رھنے والے ۔ نسبی وجاھت اس کے علاوہ تھی ۔ ايک جنگ کے دوران ان کی تلوار نے اوروں کے ساتھ ايک ايسے سورماء کو بھی کاٹ گرايا جو اپنے قبيلے کا سردار بھی تھا ۔ بدلہ لينے کے ليے قبيلے نے ايک اور جنگ کی تياری شروع کر دی ليکن يہ عام آدمی کا بدلہ نہ تھا ۔ اس کے خاندان کی ايک عورت نے حضرت حمزہ کا کليجہ چبانے کی قسم کھائی اور اس مقصد کے ليے وحشی نامی ايک غلام کو دولت کے لالچ ميں تيار کيا ۔ ياد رھے اس وقت جنگ سورماء اور بہادر جنگجو لوگوں کے درميان ھوا کرتی تھی اور وحشی جيسے غلام کو جس طرح استعمال کيا وہ جنگی روايات کے خلاف اور دھوکہ تھا ۔ جناب امير حمزہ عين جنگ کے گمسان کے وقت جب بہادری کے جوھر دکھا رھے تھے اس وقت وحشی نے انھيں دھوکہ سے شہيد کر ديا ۔ اور اپنی کاميابی کی قيمت وصول کرنے جب مکہ پہنچا تو اس کو سوائے مايوسی کے کچھ حاصل نہ ھوا ۔ اور دولت بھرے وعدے کی ايفا سے انکار کر ديا گيا ۔ وحشی نے اپنے دل ميں کہا کہ ميں حضرت حمزہ کو تو زندہ کر نہيں سکتا ، کيوں نہ اپنی آخرت ھی سنواروں ۔ وہ ايک آدمی کے واسطے سے نبی اکرم سے معافی کا خواستگار ھوا ۔ اپنے جرم کی سنگينی کا بھی احساس تھا ، پوچھا
کيا در گذر اور معافی کی گنجائش نکل سکتی ھے ۔
رحمت العالمين کی طرف سے جواب آيا 'ھاں' اگر تو توبہ کر لے تو ضرور گنجائش ھے ۔ وحشی نے پھر کہلوايا کہ
ميں ضمانت چاھتا ھوں ۔
حضور اکرم نے فرمايا ميں ضمانت ديتا ھوں ۔ وحشی کا خوف کم نہ ھوا پھر کہلوا بھيجا کہ
آپ کے خدا کا يہ فرمان ھے کہ آپ کو خود کسی امر کا اختيار نہيں ھے ۔ ضمانت تو اس کی چاھيے جس کے اختيار ميں کچھ ھو ۔
اس پر فرشتے نے رب العالمين کا حکم پہنچايا کہ
جس نے شرک نہ کيا اس کی بخشش اللہ کی مشيت پر ھے ۔
وحشی کا خوف پھر بھی دور نہ ھوا اور کہلا بھيحا کہ
بخشش کا حال اس کی مرضی پر ھے ، مجھے نہيں معلوم کہ وہ مجھے بخشے گا کہ نہيں لہذا اس سے بہتر شرط چاھتا ھوں تاکہ آپ کی اتباعت ميں آ جاوں،
اس پر حکم نازل ھوا کہ
وہ لوگ جنھوں نے کسی دوسرے معبود کو نہ پکارا، کسی شخص کو بلا جرم اور گناہ قتل نہ کيا اور زنا کے مرتکب نہ ھوے ۔ وحشی کا خوف بڑھ گيا اور کہلا بھيجا کہ
ميں تو تينوں کا مرتکب ھوں وہ مجھے نہيں بخشے گا ۔ اس سے بہتر کوئی شرط ھو تو ميں حاضر ھوتا ھوں ۔
جواب آيا مگر جس نے توبہ کی اور عمل صالح کيا ۔ خوف زدہ کا خوف دور نہ ھوا ۔ کہلا بھيجا کہ
ايمان تو لے آوں گا مگر عمل صالح کی شرط پوری نہ کر سکوں گا ۔ اس سے بہتر شرط ھو تو حاضر ھوتا ھوں ۔
اس پر قرآنی فرمان آيا
' کہدو، اے ميرے بندے ، جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کيا ھے ، رب کی رحمت سے مايوس نہ ھونا ، اللہ تمام گناھوں کو معاف کر دے گا ۔ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحمت کرنے والا ھے' ۔
اس پر وحشی مطمن ھو گيا اور دربار نبی ميں حاضر ھو کر مسلمان ھو گيا۔ بعد میں وحشی نے جنگ یمامہ میں خالد بن ولید کے زیرکمان مسیلمہ کذاب کوقتل کر کے اھل ایمان کے دلوں کو راحت پہنچائی ۔
اے اللہ ، اے محمد کے رب ، اے وحشی کو معاف کرنے والے کريم ، اگر تو نے ھم سے بڑے کسی گناہگار کو معاف کيا ھے تو ھميں بھی بخش دينا اور محشر کے دن ذلت اور ندامت سے محفوظ رکھنا اور چشمہ کوثر سے سيراب کرنا ۔ امين

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 149434 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.