عید بنگلوں میں ہی کیوں ہوتی ہے؟

ایک مرتبہ محسن انسانیت رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم عید کی نماز کے لئے تشریف لے جارہے تھے ، راستے میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے نئے کپڑے پہنے عید کی خوشیاں منارہے تھے ، اسی میں ایک بچہ نہایت غمگین ، اداس اس کے چہرے پر حسرت وایاس کے آثار نمودار تھے ، آنکھوں سے آنسوں ٹپک رہے تھے ، گندے اور میلے کپڑوں میں نہ جانے وہ کیا سوچ رہا تھا ، پیارے نبی ا یہ منظر دیکھ کر حیران وبے قرار ہوگئے ، اس بچے کو بلایا اور فرمایا : پیارے ! سارے بچے کھیل کود رہے ہیں اور عید کی خوشیوں میں مست ہیں ، آخر تجھے کیا ہوگیا ہے تو فکر مند کیوں ہے ؟ بچہ نے کہا یا رسول اﷲ ! ’’ أنا یتیم‘‘ (میں یتیم ہوں )میرے ماں باپ زندہ نہیں ہیں ، میرے پاس مال ودولت نہیں ، میرے پاس گھر بار نہیں ، میرا اس دنیا میں کوئی غم خوار نہیں ، کس پر ناز کروں ؟ کیسے عید کی خوشیاں مناؤں ؟ رحمت عالم ا کا دل یہ سن کر پارہ پارہ ہوگیا ، پیارے آقا ابے چین ہوگئے ، بچہ کا ہاتھ پکڑا اور گھر لے گئے ، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : اسے نہلاؤ ، نئے کپڑے پہناکر عطر لگاؤ اور فرمایا : اے پیارے بچے ! آج سے محمد تیرا باپ ہے اور عائشہ تیری ماں ، فاطمہ تیری بہن ہے ، یہ سن کر وہ بچہ جو تھوڑی دیر پہلے مایوس تھا ، خوشی سے جھوم اٹھا، فرط مسرت سے باغ باغ ہوگیا ، قارئین ! اگر پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یتیموں کی غم خواری اوربیواؤں کی دادرسی نہ فرماتے تو آج ان کاپرسانِ حال اس دنیا میں کوئی نہ ہوتا ۔

کیا ہم نے بھی کبھی ان یتیموں کے بارے میں سوچا جس کا بھی ایک گھر تھا ، ماں باپ تھے ، بھائی بہن ، ناز و نخرے اٹھانے والے تھے ، بہتے آ نسوؤں کو پونچھنے والے تھے ، ذراسی چوٹ پر تڑپ اٹھنے والے تھے ، رات بھر بیدار رہ کر ان کا خیال رکھنے والـے تھے ، بچکانہ فرمائشوں کو پورا کرنے والے تھے ، معصوم اور بچکانہ حرکتوں پر خوش ہونے والے تھے ، اف ! یہ کیا ہوگیا ؟ نازوں نخروں سے پلنے والے بچے آج محبت اور شفقت کے سائے سے محروم ہوگئے ، وہ روتے ہیں ، مگر ان کے آنسوؤں کو کوئی نہیں پونچھتا ، وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں پھرتے ہیں ، مگر ان پر کسی کو ترس نہیں آتا ، دوستو ! ذرا سوچئے ! ہمارے بچے عید کے دن اچھے خوبصورت نئے کپڑے پہن کر اچھلتے ، کود تے ، خوشیاں منارہے ہوں گے اور وہ یتیم بچے صرف ایک نئے جوڑے کی حسرت پر تڑپ اٹھیں گے ، غم کے آنسوں پیتے ہوئے دل ہی دل میں کہیں گے کہ کاش ! میرے ابو بھی زندہ رہتے ، مجھے بھی نئے نئے کپڑے دلاتے اور ہمارے گھر بھی عید ہوتی ، قرآن نے یتیموں کے دکھ اور الم کا احساس ہر دل میں پیدا کرنے کے لئے عجیب اندازِ بیان اختیار کیا ہے :

’’اور چاہئے کہ وہ اس بات سے ڈریں کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے ناتواں اور کمزور بچے چھوڑ جاتے جن کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ رہتا ہے (تو ان کے دل پر کیا گذرتی) پس اﷲ تعالیٰ سے ڈرکر موقع کی بات کہاکریں‘‘ (النساء : ۹)

اس عید الفطر کے مبارک موقع پر ہم سب عید سادگی کے ساتھ منائیں ، یتیموں ، بیواؤں ، بے کسوں ، ناداروں ، غریب مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی خبر گیری کریں ، اور انہیں بھی اپنی عید میں شامل کریں ؛ تاکہ ان کی بھی عید ہوجائے ۔

عید کے دن اداس سے گھر میں ایک بیوہ غریب رورہی تھی : اس کا بچہ یہ پوچھا تھا کہ عید بنگلوں میں ہی کیوں ہوتی ہے ؟؟

ضرورت اس بات کی ہے کہ صاحبِ نصاب حضرات اپنے رشتہ داروں،پڑوسیوں اور ایسے غریبوں کو جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے،انھیں ڈھونڈ کران کی خاموشی سے مدد کریں۔ان کی خودداری کو ٹھیس پہنچائے بغیر ان کی داد رسی کریں۔زکوٰۃ،صدقات اور فطرہ کا نظام اسی لئے بنایا گیا ہے کہ معاشرے سے تنگدستی،غربت اور محتاجی کا خاتمہ ہوجائے اور ہر فرد اور ہر خاندان آسودہ حال ہوجائے۔کاش!مسلمان اس حساس مسئلہ کو سمجھیں اور باریک بینی سے عمل کریں۔

Syed Muhammad Irfan Pasha
About the Author: Syed Muhammad Irfan Pasha Read More Articles by Syed Muhammad Irfan Pasha: 3 Articles with 1975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.