سچی توبه

محترم پڑھنے والوں کو میرا آداب , مہ رمضان کا بابرکت مہینہ ہم سے رخصت ہونے کو ہے اور اب تک گزرنے والے روزوں میں گرمی کی شدت نے لوگوں کا برا حال کردیا لیکن دیکھا یہ ہی گیا کہ جس کو اللہ رب العزت نے توفیق اور ہمت دی تو اس نے اتنی شدید گرمی میں بھی روزہ رکھا اور اس مبارک مہینے کی عبادات میں مشغول رہے اس وقت بیشتر مساجدوں میں نماز استسقاء یعنی بارش کے لئیے پڑھی جانے والی نماز ادا کی جارہی ہے تاکہ باری تعالی رحمت کی بارش برسا دے اور گرمی کی شدت میں کمی واقع ہوجائے ایسے واقعات صرف آجکل کے زمانے میں ہی نہیں ہوتے بلکہ نبیوں کے دور میں بھی شدت کی گرمی کے واقعات موجود ہیں بلکہ آج تو اس رب کائنات نے ہمیں کئی قسم کی سہولیات سے نواز رکھا ہے جبکہ پہلے کے وقتوں میں نہ کوئی اتنے درخت تھے نہ کوئی چھاؤں نہ اے سی کی سہولت اور نہ ہی ٹھنڈے کی پانی کی وافر مقدارتو آئیےاس سلسلے میں ایک سچا واقعہ آپ کی نظر کرتا چلوں کہ حضرت موسی علیہ سلام کے زمانے میں ایک دفعہ قحط پڑگیا اور لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس گئیے جب حضرت موسی علیہ سلام کو علم ہوا تو آپ نے اللہ کی بارگہ میں عرض کیا کہ اے باری تعالی کیا میری نبوت میں کوئی کمی رہ گئی تھی جس کی سزا میری امت کو اس قحط کی صورت میں مل رہی ہے تو حکم ہوا کہ اے موسی اپنی امت کے تمام لوگوں کو پہاڑ پر لے جاکر دوزانو بٹھادو اور کہدو کہ دعا کے لئیے ہاتھ اٹھا لیں اور سب کی نظریں نیچے ہوں حضرت موسی علیہ سلام نے حکم کی تعمیل کی سب لوگ جب بیٹھ گئے تو رب تعالی نے فرمایا کہ تیری امت میں سے ایک شخص ایسا ہے جس کے چالیس سال کے گنہوں کے سبب ایسا ہوا اور وہ مسلسل چالیس سال تک میری نافرمانی کرتا آرہا ہے تب حضرت موسی علیہ اسلام نے اعلان کیا کہ وہ شخص اپنی جگھ سے کھڑا ہوجائے اور دیکھ لے کہ اس کی وجہ سے پوری امت پر عذاب آیا ہوا ہے لیکن کوئی بھی اپنی جگھ سے کھڑا ہونے کو تیار نہیں تھا اتنے بڑے مجمعے میں جس کی تعداد کم وبیش ستر ہزار کے قریب ہوگی ایک نوجوان تھا اس نے سوچا کہ کوئی بھی اپنی جگھ سے کھڑا نہیں ہوا اس کا کیا مطلب کیا ان میں سے کوئی گنہگار نہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ شخص میں ہوں اور میرے گنہوں کی وجہ سے یہ قحط سالی ہوئی ہو اب کیا تھا وہ نوجوان گڑگڑا کر رونے لگا اور باری تعالی سے دعا منگنے لگا کہ اے باری تعالی میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے اگر میں کھڑا ہوگیا تو میرا کیا ہوگااے باری تعالی اگر وہ گنھگار میں ہوں تو تجھے اپنی رحمت کا واسطہ مجھے معاف کردے میں اپنے گنہوں کی وجہ سے تجھ سے پشیمان ہوں میرے گنہوں کی سزا پوری امت کو نہ دے میرے مولی میرے گنہوں کو معاف کردے میرے مالک یہ کہکر اس نے اپنا منہ نیچے کی طرف جھکا دیا اور منہ پر چادر ڈال لی ابھی حضرت موسی علیہ اسلام کسی کے کھڑا ہونے کا انتظار ہی کررہے تھے کہ چھما چھم بارش شروع ہوگئی سارے لوگ حیران و پریشان کہ یہ کیسے ہوگیا حضرت موسی علیہ اسلام نے جب اللہ رب العزت کی بارگہ میں عرض کیا کہ یا اللہ ابھی وہ گنھگارتو سامنے آیا ہی نہیں پہر بارش کیسے ہوگئی تو میرے اور سب کے خالق حقیقی نے فرمایا اے موسی جس شخص کے گنہوں کے سبب تیری امت پر قحط نازل ہوا تھا اس شخص کی ہی دعا کی بدولت میں نے تمہاری امت سے قحط سالی ختم کردی تو حضرت موسی علیہ اسلام نے عرض کیا اے باری تعالی مجھے ایک دفعہ اس سے ملوا تو دیتا تو باری تعالی نے فرمایا جس شخص کو چالیس سال کی نافرمانی پر میں نے رسو ا اور خوار نہیں کیا تو آج توہ میرا فرمانبردار بن چکا ہے میں کیسے رسوا کروں یہ میرا اور میرے بندے کا معاملہ ہے .

گویا مطلب یہ کہ اگر ہر انسان اپنے گنہوں سے اسی طرح توبہ کرتا رہے اور اس رب کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگے تو وہ رب جو بڑا غفور و رحیم ہے اور ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا رب ہے کبھی اپنے کسی بندے پر مصیبت اور عذاب نازل نہیں کرتا .
 

محمد یوسف راهی
About the Author: محمد یوسف راهی Read More Articles by محمد یوسف راهی: 112 Articles with 75916 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.