ٹیلی ویژن فیس یا بھتہ وصولی .ویسے یہ رقم جا کہاں رہی ہیں

ہر پاکستانی ہر ماہ بجلی کے بل میں پینتیس روپے ٹی ویژن فیس کے نام پر بھتہ حکومت کو جمع کرارہا ہے خواہ کسی کے گھر میں ٹیلی ویژن ہے کہ نہیں لیکن اگر اس کے گھر میں بجلی کا بل آتا ہے تو لازمی وہ پینتیس روپے ٹیلی ویژن فیس جمع کرانے کاپابند ہے .سب سے مزے کی بات کہ ٹیلی ویژن فیس مساجدپر بھی لاگو ہے جبکہ کمرشل سرگرمیوں والے ادارے جن میں ہسپتال ، ہوٹل شامل ہیں وہاں پر یہ فیس 100 روپے تک وصول کی جاتی ہیں.

پینتیس روپے..صرف پینتیس روپے کوئی اتنی بڑی رقم تو نہیں..لیکن.
اگر یہ 35 روپے ہر ماہ 22 کروڑ عوام سے جیبوں سے نکالے جائیں
تو..کیسا عمل ہے..
اگر اس رقم کا شمار عام موبائل پر کیا جائے تو موبائل کا کلکولیٹر جواب دیتے ہوئے میسج آتا ہے کہ " آؤٹ آف رینج"
لیکن یہ رقم سالانہ سات ارب سے بھی زیادہ بنتی ہیں.
یہ کسی قصے کہانی کی بات نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر پاکستانی ہر ماہ بجلی کے بل میں پینتیس روپے ٹی ویژن فیس کے نام پر بھتہ حکومت کو جمع کرارہا ہے خواہ کسی کے گھر میں ٹیلی ویژن ہے کہ نہیں لیکن اگر اس کے گھر میں بجلی کا بل آتا ہے تو لازمی وہ پینتیس روپے ٹیلی ویژن فیس جمع کرانے کاپابند ہے .سب سے مزے کی بات کہ ٹیلی ویژن فیس مساجدپر بھی لاگو ہے جبکہ کمرشل سرگرمیوں والے ادارے جن میں ہسپتال ، ہوٹل شامل ہیں وہاں پر یہ فیس 100 روپے تک وصول کی جاتی ہیں.

یہاں سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ ہم لوگ ٹیلی ویژن فیس کے نام پر وصول ہونیوالا بھتہ ہی کیوں حکومت کو ادا کریں کیونکہ اب تو کسی گھر میں ٹیلی ویژن موجود ہی نہیں اب تو دور ہے " ایل سی ڈی "اور ایل ای ڈی " سو ٹیلی ویژن فیس کی وصولی غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل ہے جس میں ہماری حکومت ملوث ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر ٹیلی ویژن یا ایل ای ڈی لوگ اپنی کمائی سے خریدتے ہیں اور اسے گھر میں لا کر رکھ دیتے ہیں اور اس پرکوئی پاکستان ٹیلی ویژن دیکھتا ہی نہیں کیونکہ کیبل کے موجودہ دور میں پانچ سو روپے فیس میں ساری دنیا کے چینل میسر ہوتے ہیں جس کیلئے ادائیگی بھی شہری اپنے جیب سے ادا کرتے ہیں تو پھرٹیلی ویژن فیس کے نام پر یہ بھتہ کیوں ..

سال 2004 ء میں شروع کئے جانیوالے اس فیس کو تقریباچودہ سال ہوگئے ہیں جسے حکمران طبقہ وصول کررہا ہے لیکن یہ اربوں روپے کی سالانہ رقم کہاں پر جارہی ہیں کوئی اس بارے میں بات کرنے کو تیارنہیں . اس مد میں وصولی ہونیوالی رقم سے 20 فیصد رقم واپڈا اہلکار "چارجز کی " مد میں وصول کرتے ہیں کیونکہ ان کے بقول یہ رقم ہمارے بلوں کے ذریعے جمع ہوتی ہیں اس لئے اس کی وصولی ہمارا حق ہے.اب سوال یہ بھی ہے کہ واپڈا والے یہ رقم کہاں پر استعمال کررہے ہیں اس پر ابھی تک واپڈا حکام نے کتنے ڈیم بنائے ، کتنی علاقوں میں بجلی کی لائنیں ٹھیک کی ، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے. یا یہ رقم واپڈا کے حکام صرف اپنی تنخواہوں ، فیولنگ اور عیاشیوں کیلئے اڑا رہے ہیں-

جس وقت یہ فیس شروع کی گئی اس وقت پچیس روپے فی گھر وصولی کی جارہی تھی اور سال 2010 میں اس میں اضافہ کیا گیا-سال 2014-15 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 522 ملین اس مد میں عوام سے وصول کئے گئے 2015-16 میں یہ رقم 543 ملین تک پہنچ گئی یہ اس رقم کی تفصیل ہے جو پاکستان کی قومی اسمبلی میں ممبران اسمبلی کے مسلسل سوالات پرقومی اسمبلی میں ممبران اسمبلی کو بتا دی گئی تاہم یہ نہیں بتایاگیا کہ اتنی بڑی رقوم کہاں جارہی ہیں اور اس سے عوام کو کیا فائدہ ہے.ٹیکس گزار عوام سے بھتہ وصولی کی رقم کے بارے میں جب اس وقت کے وزیر سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ پاکستان ٹیلی ویژن ہی واحد ادارہ ہے جو اس کا صحیح جواب دے سکتا ہے.

ویسے پاکستان ٹیلی ویژن سے سوال تو بہت سارے ہیں لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی وی پر کتنی خبریں عوام کی چلتی ہیں کتنے عوامی مسائل سامنے لائے جاتے ہیں وزراء اور ممبران اسمبلی اور ان کے گماشتوں کی تقریریں کتنی چلتی ہیں اور اس ادارے میں بھرتی ہونیوالوں کا معیار کیا ہے کس بنیاد پر لوگوں کو لیا جاتا ہے اس بارے میں کوئی بتا سکتا ہے.ہم نے اب تک اس ادارے میں سرکار کی مدح سرائی کرنے والے اور ان کے آگے جی حضوری کرنے والوں کو نوکری کرتے ہوئے دیکھا ہے ،

ہم نے ایسے افرادکو ٹیلی ویژن میں نوکری دیکھا ہے جن کے والدین اس ادارے میں کام کررہے تھے او ر انہیں کوٹہ سسٹم میں بھرتی کیاگیا یہاں پر لائے جانیوالے مینجمنٹ "ویاگرا" کی ادویات بھی ٹیلی ویژن کے پیسوں سے منگواتے ہیں تنخواہیں کم سے کم 60ہزار روپے اور کام ٹکے کا نہیں. ایسے سنٹر بھی ہم نے دیکھے ہیں جہاں پرکیمرہ مین تو بھرتی ہوگئے ہیں مگر انہیں کیمرہ آن اور آف کرنے کا بھی نہیں پتہ . ہاں انہیں یہ پتہ ہے کہ ان کا ابا ایک سیاسی شخصیت کے آگے پیچھے "مالشی "بن کر کھڑا ہوتا ہے.ایسے ملازمین بھی چیف بنتے دیکھتے ہیں جنکی تنخواہیں تو لاکھوں روپے ہیں مگر وہ صرف کمپیوٹرائزڈ حاضری کے باعث صبح و شام ان اور آؤٹ لگانے کیلئے ٹیلی ویژن سنٹر کا رخ کرتے ہیں.یہاں پر صحافت کرنے والے ایسے افراد دیکھے ہیں جو" وزیر نے کہا ہے کہ کرلیں گے اور ہو جائیگا"جیسے پریس ریلیزیں تیار کرتے ہوئے عمریں گزر جاتی ہیں .یہاں پر پروڈکشن میں کام کرنے والے ایسے افراد بھی ہم نے دیکھے ہیں جن کیلئے " انگورکاپانی " ٹیلی ویژن کے پیسوں سے آتا ہے.یہاں پر ایسے پروڈیوسر بھی ہیں جو پروڈکشن کیلئے سامان مارکیٹ سے کرایہ پر لاتے ہیں اور اتنا کرائے کی مد میں اپنے مخصوص لوگوں کو ادا کرتے ہیں کہ ادا کی گئی رقم میں متعلقہ اشیاء مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہیں.جبکہ بعض ایسے ہوشیار بھی ہیں کہ اپنی غلطیوں کو چھپانے کیلئے آگ بھی لگوا دیتے ہیں تاکہ ریکارڈ نہ رہے اور ادائیگی کرنی پڑے تاکہ اس میں بھی خرچہ پانی مل سکے.

گذشتہ دنوں ایک پرائیویٹ ٹی ویژن چینل کے کیمرہ مین نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ سر آپ تو سینئر ہیں زرا پتہ کریں پی ٹی وی میں ساڑھے چار لاکھ روپے پر کیمرہ مین کی نوکری مل رہی ہیں اور ایک مخصوص سیاسی شخصیت کا نام لیکرکہہ دیا کہ یہ صاحب کررہے ہیں تو آپ ذرا کنفرم کروائیں تاکہ میں وہاں پر جاؤں. میں نے اس سے پوچھا کہ کہ تمھارے پاس ساڑھے چار لاکھ روپے ہیں تو اس نے نفی میں جواب دیا کہ کہیں سے قرض لیکر دونگا. تو میں نے اسے کہہ دیا کہ بھائی اگر قرض کرنا ہی ہے تو پھر یہ قرض لیکرکسی کاروبار میں لگا دو. یہاں پرائیویٹ ادارے میں لگے ہو. شکر اللہ کاادا کرو کہ ٹھیک ٹھاک تنخواہ مل رہی ہیں .ویسے بھی جو نوکری تم رشوت دیکر حاصل کرو گے تو کیاوہ حلال ہوگی.تواس کا منہ لٹک گیا.اس ادارے میں نوکری حاصل کرنے کی وجہ پوچھی تو موصوف نے بتایا کہ "کام کم ہے اورتنخواہ اچھی ہے"سو ہم بھی ذرا مزے لینگے.

یہ پاکستان ٹیلی ویژن کے نوکریوں کا حال ہے اور اس کیلئے پاکستان کے ہر شہری سے پینتیس روپے بھتہ وصولی ہر ماہ لی جارہی ہیں اس ادارے کی تووزارت موجود ہے لیکن کوئی ہمیں یہ بتا دے گا کہ وزرا ء کی ہو جائیگا ، کرلیں گے جیسے بیانات کے علاوہ اس کی اور کیا کام ہیں جسے لوگ سراہیں.لیکن اگر یہ کچھ عوام کے پیسوں سے حکمران اپنی مرضی کیلئے کررہی ہیں تو پھر غریب عوام یہ بھتہ ٹیکس کیوں ادا کریں. ویسے عوام کیلئے بری خبراور حکمرانوں کیلئے ایک خوشخبری بھی ہے.. پاکستان ٹیلی ویژن نے قومی اسمبلی کی خبروں کیلئے الگ چینل قائم کردیا ہے .اب یہاں پر بھرتیاں ہونگی .مخصوص لوگ آئینگے پیسہ حکمرانوں کے جیبوں میں جائیگا.پھراسی میں بیٹھ کرلوگ شفافیت کے نعرے اور تقریریں بھی کرتے دکھائیں دینگے اور عوام سے امید ہے کہ فیس وصولی میں بھی مزید اضافہ ہوگا لیکن یہ نہیں بتائیں گے کہ اب تک ٹیلی ویژن فیس کی مد میں وصول ہونیوالا بھتہ کدھر گیا...

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 419315 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More