جہالت میں ڈوبے لوگوں کی فرسودہ سوچ اور عورت کا مقام

 ’’جہالت میں ڈوبے لوگوں کی فرسودہ سوچ اور عورت کا مقام ـــ‘‘ یہ عنوان ایک ایسی قدامت پرستانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس میں حد درجہ پرانی اور غیرمناسب فکر کو بنیاد بنا کر موجودہ دور میں انسانیت کی تذلیل اور خصوصاً عورت کے معیار کوگھٹایا جا رہا ہے۔ تنقید پسندانہ مزاج کے مالک خواتین حضرات کیلئے واضح کر دیا جائے کہ یہاں دور حاضر کی بے پردہ عورتوں کی آزادی و معیار کی بات نہیں ہو رہی بلکہ اصل اسلام میں رہ کر ایک عورت کے بلند مقام اور جن حقوق کی وہ مالک ہے ان پر دلائل کے ساتھ بات ہو گی کیونکہ بہت سے گروہ تاریخ اسلام کے ایک پہلو کو دیکھتے ہوئے بے جا پابندیاں تو لگا دیتے ہیں لیکن بقیہ پہلو فراموش کر دیتے ہیں ۔

اسلام نے جہاں عورت کیلئے چار دیواری کو ایک محفوظ پناہ گاہ ٹھہرایا ہے وہیں جنگی حالات کے پیش نظریہ منظر بھی سامنے آتا ہے کہ باپردہ خواتین و صحابیات میدانِ جنگ میں زخمیوں کو پانی پلاتیں اور ان کی مرہم پٹی کرتیں تھیں ۔حضرت موسیٰ ؑاور ان کی اہلیہ سفر پر تھے ۔ اہلیہ حمل سے تھیں اور انہیں سردی محسوس ہو رہی تھی جیسا کہ القرآن ، سورۃ طہ : 10 میں ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے یہ دیکھ کر ان سے ارشاد فرمایا : ’’ تم یہیں ٹھہرو ! میں نے ایک آگ دیکھی ہے شاید میں اس میں کوئی شعلہ تمہارے پاس لے آؤں یا وہاں کوئی رہبر پاؤں۔‘‘ صحیح بخاری:4211 باب غزوۃ خیبر نبی ﷺ کی سنت سے ایک واقعہ لیا گیا ہے رسول اﷲ ﷺ اپنی زوجہ محترمہ اُم المومنین حضرت صفیہؓ کیلئے اونٹ کے قریب بیٹھ گئے اور گھٹنہ مبارک کھڑا فرما دیا، اُم المومنین نے اپنا قدم اس مبارک زینے پر رکھا اور با آسانی اونٹ پر سوار ہو گئیں ۔ رسولﷺ گھر کے کام کاج میں ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹاتے،حتیٰ کہ کپڑے پر خود پیوندلگا لیتے، جوتے کی اصلاح فرما لیتے،پھٹا ہوا پانی کا ڈول درست فرما دیتے وغیرہ ۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انبیاء کرام ؑ نے جہاں دین کی دعوت کا فریضہ سرانجام دیا وہیں انہوں نے ازدواجی زندگی کی تکمیل کرتے ہوئے بے مثال کارہائے سرانجام دئیے،کیونکہ ازدواجی زندگی سے فرارہونا درحقیقت معاشرتی حقوق کی ادائیگی سے فرار ہونا ہے ۔ ایک کنوارہ انسان خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو جائے لیکن وہ ایمان کے کامل رتبے کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کے وہ ازدواجی زندگی میں داخل ہو کر اپنے حقوق و فرائض کو ادا نہ کر لے ۔ ان تمام واقعات سے یہ ظاہر ہے کہ بہترین خاوند اپنی بیوی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے اور اسے کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور ایسا کرنا انبیاء ؑ کی مبارک سنّت ہے ، لیکن ان سب کے باوجود آج بھی پاکستان میں بہت سے دیہات اس قسم کی فرسودہ سوچ میں مبتلا ہیں کہ جو شخص اہلیہ کیلئے گاڑی کا دروازہ کھولے وہ بے غیرت سمجھا جاتا ہے جو اہلیہ کے بیٹھنے کیلئے کرسی رکھے وہ کمزور شخصیت کا مالک کہلاتا ہے ، جو اہلیہ کی سہولت کی خاطر کبھی بچے سنبھال لے وہ بیوی کا غلام سمجھا جاتا ہے غرض جو بھی شخص اہلیہ کا کسی کام میں ہاتھ بٹائے تو وہ زن مرید اور بیوی کا غلام سمجھا جاتا ہے ۔اس قسم کی سوچ رکھنے والوں کی ذہنیت عرب دور کے بدوؤں سے بھی گئی گزری ہے ۔

ایک اور اصطلاح جو تعلیم کی کمی کے باعث بیماری کی طرح ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کئے جا رہا ہے وہ پنپتا ہوا ناسور ’’زن مریدی‘‘ کے نام سے ہماری آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے کے در پہ ہے ۔ایسے لوگ جو اس اصطلاح کومزاق کے طور پر بھی محض اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ میاں بیوی کے رشتے میں پھوٹ ڈالیں یقین مانیں وہ شیطان کے نقش قدم پر ہیں کیونکہ شیطان کوہی سب سے زیادہ خوشی ازدواجی رشتہ ٹوٹنے سے ہوتی ہے ۔عورت ماں ہو ،بیٹی ہو ،بہن ہو ،بیوی ہو غرض کوئی بھی رشتہ ہو لیکن عورت کو ہر مقام پر کم تر اور نیچ سمجھنا زمانہ ِ جاہلیت کے لوگوں کا شیوہ تھا ۔موجودہ دور میں بھی کچھ ایسی سوچ و فکر کے لوگ موجود ہیں جنہیں عورت کا نجی و فروعی یا گھریلو البتہ کسی بھی معاملہ میں بولنا بدتمیزی و غیر اخلاقی معلوم ہوتا ہے ۔خود چاہے لاکھ غلطیاں کر لیں ،نقصانات کے باجھ تلے دب جائیں، جھگڑے فسادات میں پھس جائیں لیکن عورت کی رائے لینے یا بات سننے میں عار محسوس کرتے ہیں ۔

میرا خیال ہے کہ یہ افراد عورت کی رائے کو اس لئے بھی اہمیت نہیں دیتے کیونکہ جن عورتوں سے ان کا واسطہ پڑتا ہے چاہے وہ ماں ہو، بہن ہو، بیوی ہو، یا بیٹی ؛ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر یا اَن پڑھ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس بھی کوئی بہتر حل نہ ہو ،لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کے ساتھ ساتھ پوری عورت ذات کو تنقید کا نشانہ بنا کر معاشرے میں انہیں کم تر درجہ دیا جائے۔یہ کالم ایک آئینہ ہے جس میں ہر فرد اپنا عکس دیکھ کر اپنی پہچان کرتا ہے کہ آیا وہ اسلام کی پیروی کر رہا ہے یا فرقے کی۔
Follow Islam,Don't Follow Sect
 

Mehak Aqib
About the Author: Mehak Aqib Read More Articles by Mehak Aqib: 7 Articles with 7031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.