نوازشریف سے تو وفادار عام لوگ اچھے

لاہور میں چوبرجی کے قریب ریوازگارڈن میں ایک مشہور ہئیرڈریسر ہوا کرتا تھا جس کا ریٹ عام دکانداروں سے زیادہ ہوتا تھا۔ بچپن میں عید، شادی یا کسی بھی اہم موقع پر دوستوں کو ساتھ لے کر میں اسی سیلون سے کٹنگ کروانے جایا کرتا تھا۔ سیلون کے مالک کے بعد جو سب سے زیادہ تجربہ کار اور ماہر کاریگر تھا، اس سے کٹنگ کروانا تقریباً ناممکن تھا کیونکہ وہ صرف پکے گاہکوں کی کٹنگ ہی کرتا تھا جو بعد میں اسے ٹِپ وغیرہ بھی دے دیا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل میں دوبارہ یہاں کٹنگ کروانے آیا تو وہ ماہر شخص اب بوڑھا ہوچکا تھا اور اب وہ صرف شیو وغیرہ ہی کیا کرتا، ماڈرن کٹنگ کیلئے گاہک دوسرے کاریگروں کے پاس جانے کو ترجیح دیتے۔

میں نے یہ دیکھا تو مجھے بڑا افسوس ہوا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں اپنی جوانی میں اتنے مواقع ملے، ساتھ والے سیلون نے تمہیں کئی مرتبہ آفرز کیں لیکن تم یہیں پڑے رہے، ترقی نہ کرسکے ۔ ۔ ۔ ۔اس نے جواب دیا کہ میں نے کام یہیں سے سیکھا تھا، یہیں سے رزق کمایا، میرا کہیں اور دل لگ ہی نہیں سکتا تھا۔

ہمارے پرانے محلے میں بیکری کی ایک دکان ہوا کرتی تھی جہاں سے بسکٹ، پیسٹری، کریم رول سے لے کر کیک، پیٹز تک، سب کچھ مل جایا کرتا۔ واحد دکان ہونے کی وجہ سے اس کی خوب بکری ہوتی۔ دکان کا مالک اور ایک کاریگر مل کر یہ دکان چلایا کرتے اور کبھی کبھار مالک کا چھوٹا بھائی بھی کچھ وقت دکان میں لگا دیا کرتا۔ پھر فرنچائز کا دور آیا اور اس دکان کے ساتھ گورمے بیکرز کی ایک بڑی فرنچائز کھل گئی جس کی وجہ سے پرانی بیکری کا کام تقریباً ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ مالک اب بوڑھا ہوچکا تھا جس کی وجہ سے کام کا سارا بوجھ اس کے ملازم پر آگیا تھا۔ ملازم اب ایک ماہر شیف اور سیلز مین بن چکا تھا۔ ایک دن گورمے بیکرز کے مینیجر نے اس ملازم سے رابطہ کیا اور دگنی تنخواہ پر اسے اپنی بیکری پر کام کرنے کی آفر کی۔

ملازم نے شکریہ کے ساتھ وہ آفر ٹھکرا دی۔ جب لوگوں کو پتہ چلا تو انہوں نے اس سے اس بیوقوفی کی وجہ دریافت کی تو ملازم نے جواب دیا:

جب میں گاؤں سے آیا تھا تو اس وقت کبھی کیک رس کی شکل تک نہ دیکھی تھی، مجھے سارا کام اس دکان کے مالک نے سکھایا، آج جب اسے میری ضرورت ہے تو میں صرف زیادہ پیسوں کی خاطر اسے چھوڑ کر کیسے چلا جاؤں؟

شادمان مارکیٹ میں ایک مردانہ کپڑوں کی دکان ہوا کرتی تھی جو آج سے تقریباً 40 برس قبل کھلی اور اس میں مالک اور ایک اس کا ہم عمر ملازم ہوا کرتا تھا۔ دکان نے ترقی کی اور پھر مالک کے بیٹے جوان ہوئے تو انہوں نے کام سنبھال لیا۔ بیٹوں نے دکان کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی اور تمام سیلز سٹاف سے کہا کہ وہ پینٹ شرٹ پہن کر آیا کریں۔ مالک کا ہم عمر سیل مین اب بوڑھا ہوچکا تھا، اس نے پینٹ شرٹ پہننے سے انکار کردیا۔ بیٹے کو غصہ آیا تو اس نے اسے نوکری سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ جب مالک کو خبر ہوئی تو وہ دکان پر آیا اور اپنے بیٹے سے کہا کہ یہ بوڑھا سیل مین وہ ہے جس نے اس کاروبار کو کھڑا کرنے میں میرا ساتھ دیا۔ اس لئے یہ اس دکان سے نہیں نکلے گا، البتہ تمہیں اپنے شوق پورے کرنے کیلئے میں اسی مارکیٹ میں ایک اور دکان کھول کر دینے کو تیار ہوں۔ پھر اس کے بیٹے نے اسی مارکیٹ میں اپنی دکان علیحدہ سے شروع کرلی لیکن پرانی دکان وہیں قائم رہی اور وہ بوڑھا سیل مین اس دکان کو شلوار قمیض پہنے چلاتا رہا۔

گوالمنڈی میں کالا قصائی نامی بیف کا گوشت بیچنے والا بہت مشہور ہوا کرتا تھا۔ ایک دفعہ میرے سامنے ایک لنگڑا کتا اس کی دکان کے پاس آگیا تو کالے قصائی نے چھوٹی سے بوٹی کاٹ کر اس کتے کو ڈال دی۔ پھر اس کے بعد اس کتے نے مستقل اس کے پھٹے کے نیچے اپنا ڈیرہ ڈال دیا۔ منگل کو جب گوشت کا ناغہ بھی ہوتا تو کالا قصائی اس دن اپنی دکان پر صرف اس کتے کو کھانا دینے آجاتا۔ ایک دن کالے قصائی کو کسی ایمرجینسی کی وجہ سے اپنی دکان کھلی چھوڑ کر جانا پڑ گیا۔ اس کی دکان پر گوشت بھی لٹکا ہوا تھا اور وہ گلا بھی رکھا تھا جس میں پیسے موجود تھے۔ اس دن پورے دو گھنٹے تک وہ لنگڑا کتا اس کے دکان کے باہر پہرا دیتا رہا اور جو کوئی بھی دکان کے اندر جانے لگتا، وہ بھونک بھونک کر اسے واپس جانے پر مجبور کردیتا۔ کالا قصائی جب واپس آیا اور ساتھ والے دکانداروں نے اسے یہ سارا واقعہ سنایا تو وہ رو پڑا۔

نوازشریف نے ڈان اخبار کے صحافی سرل المیڈا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا میں دہشتگردی دراصل پاکستان کرواتا ہے اور چند سال قبل ہونے والے دہشتگردی کے واقعہ میں 150 ہلاکتوں کی ذمے دار پاکستانی فوج ہے۔

ہئیرسیلون پر کام کرنے والا وہ بوڑھا نائی ہو یا اس چھوٹی سی بیکری پر کام کرنے والا گاؤں کا ملازم، کپڑے کی دکان کا وہ پرانے زمانے کا سیل مین ہو یا کالے قصائی کا لنگڑا کتا ۔ ۔ ۔ ان سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے وفاداری۔ انہیں جہاں سے رزق ملا، انہوں نے اس جگہ کے ساتھ مکمل وفاداری نبھائی۔

نوازشریف، تم انسان تو کیا؟ اس لنگڑے کتے کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تمہیں اس ملک نے تمھیں 2 مرتبہ وزیراعلی بنایا، تین مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ دلایا اور تمہاری اپنی کرپشن کی وجہ سے جب تمہیں عہدے سے برطرف کیا گیا تو تم اس ملک کے تمام احسانات بھلا کر دشمن کے ساتھ مل گئے۔

تم سے تو وہ لنگڑا کتا اچھا ہے جو کم از کم اپنے مالک کی غیرموجودگی میں اس کی دکان کی حفاظت تو کرتا رہا، تم تو اس ملک پر ہی وار کربیٹھے جس نے تمہیں تین مرتبہ وزارت عظمی کی کرسی دی۔
 
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 298677 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More