منہاج یونیورسٹی کے ہوسٹل کی طالبات پر ظلم کی اصل حقیقت

ہوا کچھ یوں صاحب کہ 17 مئی کو رمضان المبارک کا پہلا روزہ تھا اس سے کچھ دن پہلے سے ہی یونیورسٹی کے ایک ’’سیکر کلب‘‘ نام کی سوسائیٹی جو کہ منہاج یونیورسٹی کے طلباوطالبات پر مشتمل ہے انکی جانب سے ایک پروگرام بنایا گیا کہ پہلے روزے کو افطار ڈنر رکھا جائے جس میں کافی تعداد میں سٹوڈنٹس Invite کیے گئے تھے اب ہوسٹل کی بچیوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے اجازت تو لے لی تھی مگر اپنے ہوسٹل کی انتظامیہ کو اس پارٹی کے بارے میں مطلع نہیں کیا۔اب جب 119 لڑکیا ں اکٹھی ہو کر جانے لگیں تو ہوسٹل وارڈن کی ہیڈ میڈم مدسرہ صاحبہ نے پوچھا یہ کیا ماجرہ ہے ؟ بچیوں نے کہا ہماری آج یونیورسٹی میں افطار پارٹی ہے ہمیں جانے دیں ۔ میڈم مدسرہ نے کہا مجھے پہلے اس بارے میں نہیں بتایا گیا لہذا میں کسی طور بھی نہیں جانے دے سکتی ، اب یہاں پر انکی انا کا بھی مسئلہ تھا البتہ ان بچیوں کو وہاں ہوسٹل کے فلور پر ہی روکے رکھا مگر بچیوں نے شور مچاتے ہوئے کہا ہمیں جانے دیں ۔۔ میڈم صاحبہ نے ہوسٹل کے انچارج جناب خرم نواز گنڈاپور صاحب کو کال کی اور بتایا یہ سب یہاں شور مچا رہی ہیں آپ آکر انہیں ہینڈل کریں ۔خرم نواز گنڈاپور صاحب ان بچیوں کے پاس گئے اور جاتے ہی ایسے لگا جیسے کسی جیل میں پانجا لگانے والا آگیا ہے اب کسی قیدی کی خیر نہیں۔ اب یہ آرٹیکل پڑھنے والے قارئین سے میری درخواست ہے آپ ذرا چائے پی لینا اسکو پڑھنے کے دوران ورنہ کہیں خرم نواز گنڈاپور کی باتوں سے جو میں لکھنے لگا ہوں اسکی وجہ سے آپکا سر نہ چکرا جائے۔۔!

گنڈاپور صاحب نے آتے ہی جب شور مچایا جیسے وہ پنجابی میں کہتے ہیں ’’اج یاتو نئی یا فیر میں نئی‘‘اسی دوران ایک بچی بولی سر ہمارا پرابلم سن لیں ۔گنڈاپور صاحب چلا کر بولے میں نہیں سننا چاہتا کوئی پرابلم مجھے پتہ ہے کیا پرابلم ہے تم لوگوں کے ماں باپ نہیں ہیں؟ یا انہوں نے تمیز نہیں سکھائی؟ آپ لوگ مجھے جانتے نہیں ہیں میں آج تک آپکے ساتھ بچوں جیسا Behave کرتا رہا ہوں پھر آگے جو انہوں نے انگریزی میں کہا اسکا مطلب تھا آپنے ابھی میرا دوسرا پہلو نہیں دیکھا ، مجھے کوئی پریشرائز نہیں کر سکتا یہ ہوسٹل ہم نے کرائے کی بلڈنگ نہیں لی ہوئی اگر ہوسٹل خالی ہو جائے گا ۔ یہ آپ لوگوں کو بھی پتہ ہے آپکے ساتھ کیا ہوگا پرائیویٹ ہوسٹلز میں۔ یہ کہ کر گنڈاپور صاحب جانے لگے تو پیچھے سے کچھ بچیاں بولنے لگ گئیں ۔ پھر انہیں گنڈاپورنے اچھی بھاری آواز میں شٹ اپ کال دی اور کہااب اگر کسی کے منہ سے آواز نکلی میں نے دیکھی سب سے پہلے وہ بندہ باہر جائے گا بول کے دکھاؤبولو آپس میں بولو ناکہاں گئی دلیری؟؟ بولے منہ کھولے ایک بچہ جو ہیرو ہے لیڈر ہے بولے منہ کیوں نہیں کھولتا؟یہ کہ کر گنڈا پور صاحب ذرا پیچھے ہوئے پھر ایک لڑکی کی آواز سن کر اسے باہر نکالنے لگے وہ کہتی رہی سر میں نہیں بولی سر جی کہتے بتاؤ پھر کون بولا؟ اگر نہیں بتاؤ گی ابھی باہر جاؤ گی یہاں سے۔۔ اسی دوران انکو ایک برطانوی گالی بھی یاد آگئی جسے انہوں نے اپنے ایک فقرے میں بیان کرتے ہوئے اس لڑکی کے منہ پر مار ڈالی۔۔!

اب آتے ہیں کہ افطار پارٹی پر آخر کس نوعیت کی تھی ؟کیا وجہ یہ تھی کہ اس پارٹی میں کسی قسم کی بے حیائی ہونی تھی؟ ارے نہیں صاحب میں اس پارٹی سے ایک دو دن پہلے وہیں یونیورسٹی میں ہی موجود تھالیکن پارٹی اٹینڈ نہیں کر سکا البتہ اس پارٹی میں کوئز پروگرام ہونا تھا جسکی تیاری اس دن کچھ بچے میرے سامنے ہی کر رہے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ گرلز ہوسٹل میں شام پانچ بجے کے بعد کوئی بچی باہر نہیں جا سکتی اب پارٹی کے لیے باہر تو جانا تھا مگر اپنی ہی یونیورسٹی میں اب چونکہ ہوسٹل کا ایک دروازہ یونیورسٹی سے منسلک ہے وہاں سے سٹوڈنٹس آجا سکتی تھیں۔۔اب آپ سوچ رہے ہونگے پھر تو اتنا مسئلہ نہیں ہوگا ؟ واقعی ایسا ہی تھا مسئلہ آکر ہوسٹل وارڈن کی ہیڈ میڈم مدسرہ کی انا کا بنا جنکا ابھی تک یہی موقف ہے کہ مجھے پہلے سے انفارم کیوں نہیں کیا گیا؟؟

دکھ پھر سب سے زیادہ خرم نواز گنڈاپور صاحب کی اس بات کا ہوا جب انہوں نے کہا کیا آپکے ماں باپ نے یہ تمیز سکھائی ہے؟ یہ بات سن کر اگلے دن لڑکی دل برداشتہ ہو کر رونے لگی اور کہتی میں چھوٹی سی تھی جب میرا باپ گزر گیا میں نے طاہرالقادری صاحب کو اپنا روحانی باپ کہا ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا اور گنڈاپور سر نے مجھے آج یہ کہہ دیا؟؟

خیر اس رات کو بچیوں نے اپنے لیے افطاری خود بنائی پھر اگلے دن جب یونیورسٹی آئیں تو لڑکے اور لڑکیوں نے مل کر احتجاج کیا جسکے نتیجے میں حسین محی دین جو کہ طاہر القادری صاحب کے صاحبزادے ہیں اور یونیورسٹی کو مکمل طور پر کنٹرول کرتے ہیں وہ وہا ں پر آئے اور یقین دلایا کہ میں آپکے مطالبات پر غور کرتا ہوں لہٰذا اس وقت اپنا سٹرائیک ختم کریں ۔یہ کہ کر وہ چلے گئے اسکے بعد اب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ہوسٹل میں مقیم تمام طالبات کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ 25 مئی2018 تک آپ سے بیڈ کی سہولت لے لی جائے گی اور 30 مئی2018 تک ہوسٹل کی بلڈنگ مکمل طور پر خالی کر دی جائے پھر اپنا آپ لوگ انتظام کہیں باہر کر لیں جسکے نتیجہ میں بچیوں نے باہر ہوسٹلز کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے ہیں۔۔!

اب آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ حسین محی دین صاحب خود ’ویسٹ‘ سے تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں کیا وہاں پر جو ہوسٹلائز بچیاں تھیں انکے ساتھ یہ سلوک ہوتا تھا؟ گنڈاپور صاحب اپنے آپ کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہتے ہیں میں ان بچیوں کے باپ کی جگہ ہوں کیا باپ کا حق نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کو ڈانٹ سکے؟ جناب ڈانٹنا اور ہوتا ہے جو آپ نے الفاظ استعمال کیے ہیں اور جس طرح کا ہوسٹل وارڈن ہیڈ میڈم مدسرہ کی جانب سے پیغام موصول ہوا ہے کہ اگر بات میڈیا تک گئی تو ہم آپکی ایسی ایسی تصاویر وائرل کر دیں گے جسکے بعد آپکے کہیں رشتے نہیں ہو سکیں گے؟؟ حضور مجھے ایسے ماں باپ لا کر دکھا دیں سب سے پہلے ان پر تو کیس کریں جو اپنے ہی بچوں کی عزتیں پامال کر کے انکے رشتوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔۔اگر ایسی تصاویر آپکے پاس موجود تھیں پہلے سے تو آپ لوگوں نے انکے ماں باپ سے چھپا کر انکو دھوکے میں کیوں رکھا ؟ کیا گنڈا پور صاحب اور میڈم مدسرہ اپنے ذاتی بچوں کے ساتھ گھر میں اس طرح کی زبان استعمال کرتی ہیں؟؟

گنڈا پور صاحب جس طرح آکر ان بچیوں پر برسے اس سے تو یہ ظاہر ہو رہا تھا جیسے وہ خرم نواز گنڈاپور نہیں بلکہ غنڈا پور ہیں ۔مگر ان سب باتوں کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ادارے کی بدنامی ہو ادارہ ہمیں بہت پیارہ ہے اور ان تمام سٹوڈنٹس کو بھی جو وہاں پر زیرِتعلیم ہیں مسئلہ صرف وصرف گرلز ہوسٹل کی انتظامیہ کے بے حد غلط رویے اور بد سلوکی کی وجہ سے پیش آیا ہے ۔ ادارے کے لیے سب کی یہی دعا ہے کہ اسی طرح قائم رہے اور دن رات ترقی کی راہ پر گامزن رہے ۔مگر ہوسٹل کی اس بد انتظامی کی وجہ سے ادارے کو بھی بدنامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔(سوچئیے گا ضرور)

Osama Siddiq
About the Author: Osama Siddiq Read More Articles by Osama Siddiq: 35 Articles with 25049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.