بیت الخلاء

حکومت پنجاب نے لاہورشہر میں نہر کے دونوں اطراف والے روڈ کو جہاں کشادہ کیا وہاں نہر کے ساتھ ساتھ بہت دیدہ زیب دلکش مردانہ اور زنانہ بیت الخلاء بھی بنائے ہیں جو حکومت پنجاب کا ایک قابل ستائش ، قابل تعریف کام ہے۔اور امید ہے کہ حکومت یہ پروجیکٹ پورے لاہور شہر اور ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی بنائے گی۔ اس طرح کے کام براہ راست عوام کے لئے ہوتے ہیں اور یہ وہ کام ہیں جس کے کرنے سے حکومت اور کرنے والے کو دعائیں ملتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ حکومت عوامی مسا ئل سے کس حد تک واقف ہے۔ رفع حاجت کا ہونا ایک قدرتی عمل ہے اور یہ کب ہو جائے کچھ نہیں کہاجا سکتا۔بیت الخلا دیکھ کے مجھے ایک بزرگ یاد آ گئے وہ بزرگ اب اس دنیا میں نہیں ہیں(اﷲ انکے درجات بلند کرے)وہ اپنی زندگی میں دو کام کرنا چاہتے تھے ایک عوام کے لئے پبلک بیت الخلاء اور دوسرا مقدس اوراق کے لئے محفوظ جگہ کا انتظام کرنا تا کہ مقدس اوراق کی توہین نہ ہو۔بیت الخلا دیکھ کے مجھے ایسے لگا جیسے کسی نے انکے خواب کی تکمیل کردی ہو اور انکی کوششیں رنگ لے آئی ہوں۔ انکی عمر کوئی ساٹھ کے آس پاس تھی ،گھنگریالے آدھے سفید آدھے سیاہ بال، چہرے پہ داڑھی، پاجامہ اور کُرتاپہنتے تھے نماز پنجگانہ ادا کرتے تھے حلیہ بلکل بھیک مانگنے والوں جیسا پر انجیئنرنگ میں تعلیم حا صل کر رکھی تھی۔دیکھ کے لگتا نہیں تھا کہ یہ بندہ تعلیم یافتہ ہوگاانکا نام یوسف شجا ع تھا میری ان سے ملاقا ت میر ے ماموں کے کمپوزنگ سنڑ پر ہوئی تھی۔میر ے ماموں کی مغل پورہ میں کمپوزنگ کی دکان ہے جو وہ ایک عرصے سے چلا رہے ہیں میں انکے پاس بیٹھا تھا تو یہ بزرگ تشریف لائے مجھے لگا کہ کوئی بھیک مانگنے والا بابا ہے کیونکہ انکا حلیہ ہی کچھ ایسا تھا۔ پر وہ وہاں پہ حکومت وقت کے نام خط لکھوانے کے لئے آئے تھے۔ خط کا متن تھا کہ عوام کے لئے پبلک مقا مات پر بیت الخلاء بنائے جائیں اور مقد س اوراق کی حفاظت کے لئے بندوبست کیا جائے جس سے مقد س اوراق کی توہین نہ ہو۔ان سے بات چلی تو وہ بیت الخلا ء کی ضرورت بتانے لگے۔ کہتے ایک دن میں مغل پور ہ پل کے پاس نہر کے کنارے سیر کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ دو عورتیں تھیں جن میں سے ایک کو رفع حاجت ہو گئی ۔ پبلک بیت الخلاء نہ ہونے کی وجہ سے وہ عورت نہر کنارے پودوں کے پیچھے چھپ کر رفع حاجت کرنے پر مجبور تھی گو عورت نے خود کو چھپانے کی بہت کوشش کی کے کسی کی نظر نہ پڑے پرآ جاتے لوگ اسے دیکھ رہے تھے مجھے یہ دیکھ کے بہت شرمندگی ہوئی اور میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس عورت کی شرمندگی کا کیا عالم ہوگا اور احساس ہوا کے اسکی جگہ میر ی ماں، بہن بیٹی بھی ہو سکتی تھی اور لگا کہ پبلک بیت الخلاء کتنے ضروری ہیں اگر پبلک بیت الخلاء ہوتا تو یہ عورت آج ہم سب کے سامنے بے پردہ نہ ہوتی اور اسکی عزت کا جنازہ نہ نکلتا۔

دوسری جو انھوں نے بات بتائی وہ یہ تھی کہ ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور پاکستان کی97فیصد آبادی مسلم ہے۔ یہاں روز اخبار شائع ہوتا ہے اور اس میں قرآنی آیات کا ترجمہ، اﷲ تعالیٰ اور اﷲ تعالیٰ کے پیغمبر وں کے نام چھپتے ہیں۔جب کوئی اسلامی دن،عید، شب برات، معراج شریف، رمضان کا مہینہ، جمعہ اور دیگر دن آتے ہیں تو ان کے حوالے سے بہت سے خصوصی مضامین اخبار میں شائع ہوتے ہیں جس میں قرآنی آیات کا ترجمہ اور احادیث چھپتی ہیں۔ قرآن پاک ، احادیث مبارکہ ، اﷲ تعالیٰ اور حضرت محمد ﷺ پوری دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہیں اور وہ اﷲ کا کلام ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے اسکا احترام ہم سب پہ فرض ہے۔اخبار ایک دن کے لیے کار آمد ہوتا ہے اور اسکے بعدہمارے ہاں اخبار ردی کردیا جاتا ہے اور اخبار سے مختلف قسم کے کام لئے جاتے ہیں مثلاََ اخبار میں تندور والا روٹی لپیٹ کے ، پکوڑے وا لا پکوڑے، قصاب گوشت،گلی محلوں میں چیزیں بیچنے والا چیزیں ، پر چون والا مرچ مصالحہ غرض اخبار سے ہر طرح کا پیکنگ کا کام اور صفائی ستھرائی کا کام لیا جاتاہے ا خبار کے ٹکرے گلی محلوں میں گلی نالوں میں بھی پڑے ہوتے ہیں جو ہماری دین سے محبت کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کلام پاک، احادیث مبارکہ ، اﷲ اور اﷲ کے نا م کی بے حرمتی ہوتی ہے۔اس بزرگ جیسے کچھ نیک لوگ،تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت گلی محلوں میں ڈبے لگا دیتے ہیں تاکہ لوگ مقدس اوراق ڈبے میں ڈال دیں۔لیکن کچھ بیوقوف ان ڈبوں میں کوڑا کڑکٹ ڈال دیتے ہیں جو ایک اور توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگاکہ اخبار کے ٹکڑے دیواروں کی دراڑوں میں، کسی کی کھڑکی کی گِرل کے ساتھ، بجلی کے کھمبوں میں پھنسائے ہوتے ہیں جو کہ ہماری اﷲ اور اسکے رسول ﷺ سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جس طرح وہ بزرگ اپنی آواز احباب اختیار تک پہنچانا چاہتے تھے اسی طرح احباب اختیا ر کو چاہئے جس طرح نہر کے ساتھ بہت خوبصورت بیت الخلاء بنائے ہیں اسی طرح سرکاری سطح پر مقد س اوراق اور قرآن پاک جو شہید ہوجاتے ہیں ان کے لئے پورے ملک میں گلی محلوں میں جگہ جگہ بہت ہی پیارے پاک صاف کولیکشن سنٹر بنائے جائیں تاکہ مقدس اوراق کی گلی محلوں اور چیزیں لپیٹ کے بیچ کے توہین نہ کی جائے اسلامی ملک اور سچے مسلمان ہونے کا حق ادا کیا جائے ۔ عوام سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی اخبار میں چیزیں لپیٹ کے نہ بیچیں یہ کام آپ کے خود کرنے کا ہے کہ آپ انکا احترام خود کریں اور اپنے بچوں کو بھی بتائیں۔ پبلک مقامات پر اخبار ملے تو کوشش کریں کے اسے اپنے پاس سنبھال کے رکھ لیں جہاں مناسب جگہ ملے وہاں رکھ دیں۔اور آخر میں بیت الخلا ء ہمارے فائدے کے لئے بنائے گئے ہیں تاکہ ہماری ماؤں بہنوں کا سب کے سامنے عزت کا جنازہ نہ نکلے اور نہ ہی ہماری ۔ لہٰذا عوام سے گزارش ہے کہ جب بیت الخلا استعمال کر لیں تو اچھی طرح سے پانی بہا کے صفائی کریں اور ایک مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیں۔

Rizwan Ali
About the Author: Rizwan Ali Read More Articles by Rizwan Ali: 4 Articles with 5594 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.