صحابہ کرام کے مبارک ادوار کا رمضان

 آج سے چودہ سو سال پہلے کے رمضان کا اور آج کل کے رمضان کا اگر تقابل کیا جائے تو حیرت انگیز طور پر اِن دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔اُس زمانہ میں لوگ بھوکے رہ کر بھی روزہ رکھتے تھے اور آج کل شکم سیر ہوکر بھی روزہ نہیں رکھتے۔ اُس زمانہ میں روزہ رکھ کر بھی لوگ اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے تھے اور آج کل روزہ توڑ کر بھی اﷲ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے۔ اُس زمانہ میں رمضان المبارک کے آتے ہی لوگ خوشی سے جھوم اُٹھتے تھے اور آج کل لوگ رمضان المبارک کے آنے سے پہلے ہی چیں بہ جبیں ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اُس زمانہ میں لوگ روزہ رکھ کر اﷲ تعالیٰ کے راستہ میں نکل کر دشمنوں سے جہاد و قتال کرتے تھے اور آج کل لوگ روزہ رکھ کر گھنے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں، پنکھوں، ائیر کولروں اور ائیر کنڈیشنوں کے نیچے آرام سے سوکر بھی رمضان المبارک کی عبادات سے غافل رہتے ہیں۔

؂ آج کل کی معاشرتی زندگی کے موجودہ حالات و واقعات اور مشاہدات و تاثرات سے تو سبھی لوگ خوب اچھی طرح سے واقف ہیں اِس لئے اُن کے اعادہ کی چنداں ضرورت نہیں، البتہ زمانہ خیر القرون یعنی حضرات صحابہ کرام و تابعین عظام رحمہم اﷲ کے مبارک ادوار کے رمضان المبارک کے حوالے سے چند واقعات و نمونہ جات اور چند مشاہدات و تاثرات ذیل میں نذرِ قارئین کئے جاتے ہیں۔ پڑھیے اور سر دھنتے رہیے!:

چنانچہ حضرت عبد اﷲ بن رباح رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں چند وفود حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں آئے، اُن وفود میں میں بھی تھااور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بھی تھے، ہم لوگ ایک دوسرے کے لئے کھانا تیار کرتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے ہماری بہت دعوتیں کیں۔(مسلم، نسائی،مسند احمد)

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اہل صفہ میں سے تھے۔ رمضان المبارک کا مہینہ آگیا اور ہم نے روزے رکھنے شروع کردیئے، جب ہم افطار کرلیتے تو جن لوگوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے بیعت کی ہوئی تھی وہ لوگ آتے اور اُن میں سے ہر آدمی ہم میں سے ایک آدمی کو اپنے ساتھ لے جاتااور اُسے رات کا کھانا کھلاتا، ایک رات ہمیں لینے کوئی نہ آیا، پھر ہم لوگ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی حالت حضور صلی اﷲ علیہ کو بتائی، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے پاس آدمی بھیجاکہ اُن سے پوچھ کر آئے کہ اُن کے پاس کچھ ہے؟ تو اُن میں سے ہر ایک نے قسم کھاکر یہی جواب بھیجا کہ اُس کے گھر میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے کوئی جان دار کھا سکے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن اصحابِ صفہ سے فرمایاکہ تم سب لوگ جمع ہوجاؤ! جب وہ لوگ جمع ہوگئے تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کے لئے دُعاء فرمائی: ’’اے اﷲ! میں تجھ سے تیرا فضل اور تیری رحمت مانگتا ہوں ، اِس لئے کہ تیری رحمت تیرے ہی قبضہ میں ہے، تیرے علاوہ کوئی اور اِس کا مالک نہیں ہے۔‘‘ ابھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ دُعاء مانگی ہی تھی کہ ایک آدمی نے اندر آنے کی اجازت مانگی (آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اجازت دے دی) تو وہ ایک بھنی ہوئی بکری اور روٹیاں لے کر آیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمانے پر وہ بکری ہمارے سامنے رکھ دی گئی، ہم نے اُس میں سے کھایااور خوب سیر ہوگئے، تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایاہم نے اﷲ تعالیٰ سے اِس کا فضل اور اِس کی رحمت مانگی تھی، تو یہ کھانا اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت ہمارے لئے ذخیرہ کرکے (آخرت کے لئے) رکھ لی ہے۔ (سنن بیہقی، البدایہ والنہایہ)

حضرت معاویہ بن قرہ رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عمرو بن نعمان بن مقرن رضی اﷲ عنہ کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ جب رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو ایک آدمی دراہم کی تھیلی لے کر اُن کے پاس آیااور کہا امیر حضرت مصعب بن زبیر رضی اﷲ عنہ آپ کو سلام کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن کے ہر قاری کی خدمت میں ہماری طرف سے عطیہ ضرور پہنچ گیا ہے (اِس لئے آپ کی خدمت میں بھی بھیجا ہے)یہ دراہم اپنی ضرورت میں خرچ کرلیں، توحضرت عمرو بن نعمان رضی اﷲ عنہ نے لانے والے سے کہا کہ جاکر اُن سے کہہ دینا کہ اﷲ کی قسم! ہم نے قرآن دُنیا حاصل کرنے کے لئے نہیں پڑھا اور وہ تھیلی اُن کو واپس کردی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک آدمی ایک مجلس کے پاس سے گزرا، اُس آدمی نے سلام کیا جس کا اُس مجلس والوں نے جواب دیا، جب وہ اِن لوگوں سے آگے چلا گیا تو مجلس کے ایک آدمی نے کہا کہ مجھے تو یہ آدمی بالکل پسند نہیں ہے، مجلس کے دوسرے لوگوں نے کہا کہ چپ کرو، اﷲ کی قسم ہم تمہاری یہ بات اُس آدمی کو ضرور بتائیں گے۔ اے فلانے جاؤ اور اس نے جو کہا ہے وہ اُسے بتادو! (چنانچہ اُس نے جاکر اُس آدمی کو یہ بات بتادی، اِس پر) اُس آدمی نے جاکر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو ساری بات بتادی اور اُس آدمی نے جو کہا تھا وہ بھی بتادیا اور یوں کہا یارسول اﷲ! آپ اُسے آدمی بھیج کر بلائیں اور اُس سے پوچھیں کہ وہ مجھ سے کیوں بغض رکھتا ہے؟ چنانچہ اُس آدمی کے آنے پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھاکہ تم اِس آدمی سے کیوں بغض رکھتے ہو؟ اُس آدمی نے کہا یا رسول اﷲ! میں اِس کا پڑوسی ہوں اور میں اسے اچھی طرح سے جانتا ہوں(من جملہ اور باتوں کے) میں نے اِسے کبھی نفلی روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، یہ تو بس (رمضان کے) مہینے ہی کے روزے رکھتا ہے، جنہیں نیک و بد ہر ایک رکھ ہی لیتاہے۔ دوسرے آدمی نے کہا یارسول اﷲ! آپ اِس سے پوچھیں کیا اِس نے کبھی یہ دیکھا ہے کہ میں بیمار بھی نہ ہوں اور سفر پر بھی نہ ہوں اور پھر میں نے اُس دن روزہ نہ رکھا ہو؟حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس سے اِس بارے میں پوچھا تو اُس نے کہا کہ نہیں! اِس پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس سے فرمایا میرے خیال میں تو یہ آدمی تم سے بہتر ہے (کیوں کہ تم میں کدورت ہے اور اِس میں نہیں) (تاریخ دمشق لابن عساکر، کنز العمال)

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا ارشاد ہے کہ مجھے تین چیزیں پسند ہیں: ایک مہمان کی مہمان نوازی کرنا۔ دوسرے گرمی کے روزے رکھنا۔ تیسرے دُشمن پر تلوار چلانا۔(المنبہات لابن حجر الہیتمی) حضرت شعبی رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ (لوگوں میں) وعظ و نصیحت فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کے روزے کو اﷲ تعالیٰ نے فرض کیا ہے اور اِس کی تراویح کو (ثواب کی چیز بنایا ہے، لیکن)فرض نہیں کیاہے، اور آدمی کو یہ بات کہنے سے بچنا چاہیے کہ جب فلاں روزہ رکھے گا تو میں بھی رکھوں گا اور جب فلاں روزہ رکھنا چھوڑ دے گا تو میں بھی رکھنا چھوڑ دوں گا۔ غور سے سنو! روزہ صرف کھانے، پینے کے چھوڑنے کا نام نہیں ہے، بلکہ (روزہ میں) اِنہیں تو چھوڑنا ہے ہی ، لیکن اصل روزہ یہ ہے کہ آدمی جھوٹ، غلط اور بے ہودہ باتوں کو بھی چھوڑ دے۔ (سنن بیہقی، کنز العمال)

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 253058 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.