سید محمد ناصر علی اور ان کی تصنیف ’خاکے کہانیاں‘ ۔ ایک مطالعہ

بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے ڈائیریکٹر تعلقات عامہ و مطبوعات سید محمد ناصر علی خاکہ نگار بھی ہیں اور کہانی کار بھی۔ خاکے کہانیاں ‘ ان کے خاکوں اور مضامین کا مجموعہ ہے۔ چند دن ہوئے ناصر صاحب نے یہ کتاب محمود عزیز صاحب کے توسط سے اس خواہش کے ساتھ بھجوائی کے میں اس پر اظہار خیال بھی کروں۔ اس سے قبل انہوں نے آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی ادیب ، دانشور، استاد ، محقق جناب افضل رضوی کی مرتب کردہ کتاب ’’ دَر برگِ لالہ و گل(کلام اقبالؔ میں مطالعہ بناتات) بھی عنایت کی تھی ساتھ ہی کتاب کی تقریب اجراء میں بھی مدعو کیا تھا، افضل رضوی نے ’ دَر برگِ لالہ و گل‘میں کلام اقبالؔ میں شامل تذکرہ نباتات کو موضوعِ تحریر بنایا ہے۔راقم نے اس کتاب کا تحقیقی مطالعہ قلم بند کیا تھا۔ ’ خاکے کہانیاں‘ کے مطالعہ سے قبل مصنف کا کچھ ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے ۔

کتاب کی ابتدا ’زندگی نامہ‘ سے ہوتی ہے جس کے مطابق ناصر صاحب کا تعلق ہندوستان کے معروف شہر رائے بریلی سے ہے،رائے بریلی یو پی (اتر پردیس) کا ایک ضلع ہے،یہاں ہمیشہ مسلمانوں کی اکثریت رہی ہے اور اب بھی ہے۔بریلی اپنے محل وقوع کی وجہ سے18 ویں صدی کے اوائل میں روہیلوں کا مرکز رہی ہے۔اکابرین بریلوی جنگِ آزادی کی تحریکوں میں سرگرم رہے۔ان حریت پسندوں میں ناصر علی کے اجداد بھی شامل تھے۔ رائے بریلی نہایت مر دم خیز علاقہ مشہور ہے۔ یہاں بڑی بڑی نامور ہستیاں وجود میں آئیں۔ ان میں ایک نام جناب احمد رضا خان بریلوی ؒ کا بھی ہے۔ معروف شاعر و ادیب اپنے نام کے ساتھ فخرسے دہلوی لگا تے ہیں۔ پاکستان میں دو مکتبہ فکر یعنی بریلوی مکتبہ فکر اور دیوبندی مکتبہ فکر سے کون واقف نہیں۔سید ناصر علی کے مطابق ان کے اجداد نے عراق سے ہندوستان ہجرت کی ، ان کے جدِ امجد کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادقؒ سے ملتا ہے۔ اس حوالے سے وہ جعفری ہیں اور رائے بریلی کے حوالے سے بریلوی بھی ہیں۔یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ نہ تو جعفری اور نہ ہی بریلوی لگاتے ہیں۔ ان کے والد بریلی کے ٹیکنیکل اسکول میں انسٹرکٹر تھے۔ ان کا خاندان 1950ء میں ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوا ۔ جامعہ کراچی سے صحافت میں اور جامعہ پنجاب سے سیاسیات میں ماسٹرکیا۔ عرصہ دراز سے اخبارات و رسائل کے لیے کالم و مضمون نگاری کررہے ہیں۔ ملازمت کا آغازوزارت خارجہ اسلام آباد کے ریسرچ ڈائریکٹریٹ سے کیا ، بیرون ممالک سعودی عربیہ میں بھی خدمات انجام دیں، مختلف اداروں میں انتظامی عہدوں پرفائز رہے ، کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز میں ڈائریکٹر پریس اینڈ پبلی کیشنز رہے اب بقائی میڈیکل یونیورسٹی سے وابسطہ ہیں۔

مطالعہ، فوٹوگرافی اور مصوری سید ناصر علی کے خاص شوق ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے، کہانیاں اور مضامین ان کے صاحب طرز ادیب ہونے کی عکاسی کر تے ہیں۔ ’ خاکے کہانیاں‘کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ’’ کتاب میں جو خاکے شامل ہیں ان میں وہ کردار ہیں جنہیں میں نے دیکھا، ان کے ساتھ رہا، ان سے قربت قلبی بھی رہی، قربت ذہنی بھی، بعض کردار وہ ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ’’تو من شدی۔ من تو شدی‘‘ ، کہتے ہیں کہ اس ربط اور تعلق نے ان کے بارے میں لکھنے پر اکسایا اور خاکہ وجود میں آگیا‘۔خاکہ تو نام ہی کسی بھی شخصیت میں پوشیدہ خوبیوں اور کوتائیوں کو ادب کے پیرائے میں بیان کرنے کا ہے۔ شمیم حنفی کے بقول ’بہترین خاکہ وہ ہے جس میں کردار کی صحیح تصویر کشی کی گئی ہو‘۔ کیونکہ مصوری اور فوٹو گرافی ناصر صاحب کے شوق میں شامل ہیں ،چنانچہ ان کے رشحاتِ قلم سے بے شمار عمدہ خاکے منظر عام پر آئے ۔ ایک مصور اپنی تخلیق کردہ تصویر کو جس باریک بینی سے دیکھتا ہے، ایک اضافی نقطہ بھی وہ اپنے شہکار میں برداشت نہیں کرتا ، اسی طرح خاکہ نگار اپنے موضوع کی ایسی تصویر نگاری کرنا پسند کرتا ہے کہ اس شخصیت کاایک ایک پہلو الفاظ میں ڈھل کر سامنے آجائے۔ ناصر علی کا انداز تحریر سادہ، عام فہم ہے، وہ مشکل الفاظ استعمال نہیں کر تے بلکہ آسان الفاظ میں اپنی بات بیان کرتے ہیں۔ ان کے کردار جان دار اور بھر پور اثر لیے ہوتے ہیں۔کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے بقائی یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر زاہدہ بقائی نے ناصر علی کی تصنیف کو ایک دلچسپ تحریرقرار دیا،لکھتی ہیں ’ان کے تہہ بہ تہہ جملے خاکہ کے پیکر کو روبرو لا کھڑا کر دیتے ہیں۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ دونوں ہی گہرائی لیے ہوئے ہیں اپنی بات سلیقے سے دوسروں تک پہنچانے کا فن جانتے ہیں، ان کی اپنے موضوع سے پوری پوری واقفیت ، ابلاغ کی ذمہ داری خیر و خوبی سے ادا ہوجاتی ہے۔ زبان کی سادگی اور ہلکی ہلکی مزاح کی چاشنی سے ان کے خاکوں کی طرح ان کی کہانیوں میں بھی کشش پیدا کردی ہے‘‘۔ایک مضمون ’’خاکہ نگاری اور میں‘‘ بھی ہے۔ مضمون کے آغاز میں معروف سنگ تراش مائیکل انجیلو کی یہ رائے نقل کی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ ’تصویریں تو پتھر میں پہلے سے موجود ہوتی ہیں میں تو صرف فالتو پتھر ہٹا دیتا ہوں‘۔مائیکل انجیلو کیونکہ سنگ تراش تھا اس لیے اس نے تصویر اور پتھر کی بات کی ۔ خاکہ نگار خوبصورت لفظوں ، جملوں اور ادبی چاشنی کے ساتھ مزاح کے تڑ کے سے شخصیت کی ایسی تصویر کشی کرتا ہے کہ پڑھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ شخص اس کے سامنے موجود ہے۔ سیدناصر علی کے مطابق ’’شخصیت کی شکل، صورت ، قد کاٹھ ، علم و دانش اور اس کی خوبیاں اور خامیاں اس طرح لفظوں میں ڈھالی جائیں کہ پردہ تصور میں مجسم تصویر بن جائے‘‘۔ محمد ذہین عالم خاں سروہا نے درست لکھا کہ ’’سید ناصر علی نے اپنی تحریر کو حسین تر بنا نے میں محنت کی ہے۔ اپنے خاکہ کے’معمول ‘ کا اچھی طرح مشاہدہ کیا ہے اور مشاہدہ کو الفاظ میں ڈھال کر شبیہہ بنانے کو کوشش کی ہے‘‘۔ افضل رضوی صاحب کا طویل مضمون ’’اردو خاکہ نگاری کا ایک منفرد نام‘‘ کتاب اور صاحب کتاب پر سیر حاصل مواد فراہم کرتا ہے۔ افضل رضوی کے مطابق ’’سید ناصر علی کی کہانیاں جہاں سلیس اردو کی ترجمان ہیں وہاں نئے دور کے نئے تقاضوں کی بھی عمدہ مثال ہیں‘‘۔ محمود عزیز نے اپنی رائے میں سید ناصر علی کے تحریر کردہ خاکوں میں شامل چیدہ چیدہ باتوں پر روشنی ڈالی۔

پہلے خاکے کا عنوان ہے ’’ اپنی بھی ۔۔ ایک کہانی‘‘ ، یہ سید ناصر علی کا اپنا خاکہ ہے ۔ خاکہ نگاری کی روایت ہے کہ خاکہ نگارعام طور پر اپنے اوپر بھی ہاتھ صاف کیا کرتے ہیں۔ ہم نے بھی کیا اور اپنا خاکہ ’’اپنی تلاش ‘‘ کے عنوان سے لکھا جو ہمارے خاکوں کے مجموعے ’’جھولی میں ہیرے اور موتی‘‘ میں شامل ہے۔ سید ناصر علی نے اپنے خاکے میں اپنے آپ کو تلاش کرنے کی سعی کی جس میں وہ کامیاب و کامران دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی پیدائش سے بات شروع کرتے ہیں، رائے بریلی کو اپنا موضوع بناتے ہوئے اپنے آبائی شہر ’’مظفر پور ‘‘ کے بارے میں مختصر روشنی ڈالتے ہیں ، والدین ، بہن بھائیوں کا ذکر کرتے ہیں المختصر بریلی میں اپنی یادوں کے تانے بانے بنتے ہوئے اپنے خاندان کی کراچی ہجرت بیان کرتے ہیں۔ لیجئے صاحب سید ناصر علی سے ہمارا ایک خاص تعلق نکل آیا اگر ہم ان کے خاکے کوتوجہ سے نہ پڑھتے تو اس راز پر پردہ ہی پڑا رہتا۔ وہ یہ کہ پاکستان ہجرت کے بعد سید ناصر علی کراچی کی قدیم بستی ’بہار کالونی ‘ میں رہائش پذیر رہے ، ہم بھی بہار کالونی کے مکین تھے،ہم پھر آگرہ تاج کالونی میں منتقل ہوگئے۔لیاری کے علاقے میں لیاری ندی کی جانب سے شروع ہونے والی سڑک آتما رام پریتم داس روڈہے، اب اس کا نام کچھ اور ہوگا۔ اس کے ایک جانب بہار کالونی اور دوسرے جانب آگرہ تاج کالونی ہے۔ سید ناصر علی نے مسان روڈ پر قائم غازی محمد بن قاسم اسکول میں پڑھا ، میں نے چھٹی جماعت تک اسی اسکول کا طالب علم تھا، یہ زمانہ تھا 1957 ء سے 1962ء کے درمیان کا ہے ۔غازی محمد بن قاسم اسکول کے سربراہ جناب آزاد بن طاہر مرحوم تھے، ان کا نام ابو ظفر آزاد تھا ۔ وہ سیکنڈری اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی تھے۔ میری رہائش آگرہ تاج کالونی میں تھی جو کبھی مسان ہوا کرتا تھا یعنی یہاں ہندو اپنے مردوں کو جلایا کرتے تھے۔ اسکول کی عمارت جو آ ج بھی ہے ہندو ں کا کوئی فلاحی مرکز یا کسی ہندوں سرمایہ دار کی رہائش گاہ تھی۔ آزاد بن طاہر نے ہندوں کے اس مرکز کو حاصل کر لیا اور اس میں یہ اسکول قائم کیا ، یہاں ان کی رہائش بھی تھی۔ آ زاد بن طاہر کا تعلق ہندوستان کے علاقے بہار شریف سے تھا۔ ان کی شادی انتہائی نفیس خاتون عطیہ ظفر سے ہوئی، شادی کے وقت تک عطیہ ظفر نے اسکول کی صورت نہیں دیکھی تھی۔ شادی کم عمری میں ہوگئی تھی،آزاد صاحب بنیادی طور پر استاد تھے، پڑھانا اور پڑھنے کی ترغیب دینا ان کی طبیعت کا لازمی حصہ تھا۔ اپنی شریک حیات کو تعلیم کی جانب مائل کیا، عطیہ ظفر نے میٹرک اور انٹر کے بعد ایم بی بی ایس کیا، دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جب عطیہ ظفر 1962 ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کر رہی تھیں توان کے ساتھ ان کا بڑا بیٹاسید ٹیپو سلطان بھی کالج کا طالب علم تھا جو بعد میں سول اسپتال کا معروف ڈاکٹر ہوا۔ ڈاکٹر عطیہ ظفر نے اپنے اسکول کی دکانوں میں ڈسپنسری بھی قائم کی ،اس زمانے میں وہ ہمارے خاندان کی معالج بھی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا، غازی اسکول بھی سرکاری اسکول بن گیا جو آج بھی اور اس علاقے کا معیاری اسکول شمارہوتا ہے۔ آزاد صاحب یہاں سے ملیرسٹی منتقل ہوگئے۔ جہاں پر ایک بڑا اسپتال قائم کیا۔ آزاد صاحب اور ڈاکٹر عطیہ ظفر کی ایک نمایاں خصو صیت یہ بھی ہے کہ ان کے تین بیٹے اور چھ بیٹیا ں ہوئیں ، تمام کے تمام ڈاکٹر بنے، بعد میں ان کے بچے بھی ڈاکٹر بنے جن کی تعداد پچاس سے زیادہ بیان کی جاتی ہے ، ڈاکٹر عطیہ ظفر کا انتقال ہوا تو ڈان اخبار نے سرخی لگائی ’’Mother of 9 doctors dies ‘‘، ڈاکٹر عطیہ ظفر کا انتقال 88سال کی عمر میں فروری2014ء کو ہوا۔

سید ناصر علی نے لکھا ہے کہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر جو ان کے بہنوئی تھے کا نام حکیم محمد یونس تھا۔ میں اسی زمانے میں اس اسکول میں پڑھا کرتا تھا، دیگر اساتذہ میں ماسٹر حسین اور ماسٹر شبیر کے نام حافظہ میں ہیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کا نام معلوم نہیں تھا ، ناصر صاحب نے اس کمی کو پورا کردیا،ان کا چہرہ نظروں میں ہے ۔ بہار کالونی اور غازی محمد بن قاسم اسکول سے تعلق نکل آیا اس لیے بات کچھ ذاتی تعلق کی جانب ہوگئی۔ اپنے اس خاکے میں ناصر صاحب نے اپنی زندگی کی کہانی خوبصورت انداز میں بیان کی ہے ۔ جامعہ میں ایم اے کرنا یہ وہی زمانہ تھا جب ہم بھی جامعہ کراچی سے وابستہ تھے۔ ناصر صاحب نے1971میں صحافت میں ایم اے کیا ہم اسی سال جامعہ کراچی میں ایم اے سال اول کے طالب علم تھے۔ گویا سید ناصر علی صاحب ہمارے اسکول ، جامعہ کے ساتھیوں اور بچپن کے پڑوسیوں میں سے ہیں۔پھر وہ اپنی ملازمت کا حال سناتے ہوئے جوانی سے بڑھاپے کی جانب پہنچ جاتے ہیں، خاکے کی جو تعریف ادب نے بیان کی ہے ناصر علی کا خاکہ اس پر پورا اتر تا ہے۔ ہر اعتبار سے مکمل اور جاندار خاکہ ہے۔ ایک خاکے کا عنوان ہے ’بوا‘ جس میں انہوں نے پرانی تہذیب و معاشرت کی علم بردار کو خوبصورت انداز میں متعارف کرایا ہے ،ڈاکٹر بقائی کا خاکہ ’فردِ فرید۔ فرید الدین‘ کے عنوان سے ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹر بقائی کی شخصیت کو خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے۔ ’ناسم‘ میں مصنف کے مزاح اور شگفتگی کی جھلک نظر آتی ہے، ایک مضمون کاعنوان ہے ’میرکا عکس مرے آئینہ ادراک میں ہے‘ یہ عمران میر کے ساتھ گزرے واقعات پر مبنی ہے،ان کے عزیز دوست معروف اور معین کا زندگی نامہ بھی حسین یادیں لیے ہوئے ہے۔ چند دن خالد علیگ کے ساتھ‘ عمدہ تحریر ہے ، ’کس نمی پرسد‘ میں بہت ہی پیاری بات سید ناصر علی نے کہی کہ ’ادب کے بارے میں میرا ایک نظریہ ہے کہ ایسا ادب تخلیق ہونا چاہیے جس میں معاشرے کے سدھرنے کا کوئی پہلو نکلتا ہواور جس میں انسانیت اور اس کی قدروں کا تذکرہ ہو، جس سے ہماری آنے والی نسلوں کو اپنی شناخت میں دشواری نہ ہو‘۔ اسی طرح ’کھوکھر سا ہم کویا رملا‘، ’تضاد، شاد باد ‘شاندار تحریریں ہیں ۔’ عشرت بُھٹہ‘ عمدہ کہانی ہے ، ’ایک عجیب سی لڑکی‘ میں وہ دولت کو معیار بنانے والوں پر گہری طنز کرتے دکھائی دیتے ہیں ، ’گھامڑ‘ میں وہ اپنے زمانہ طالب علمی کی یادداشت کو خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں ، ’ملاقات جو پہلی نہ رہی‘ ذہین عالم خان کا خاکہ ہے۔ مکتوب نگاری کی بھی ایک جہلک سید ناصر علی کی اس تصنیف میں ملتی ہے ۔ وہ اپنے بیٹی کے نام خط ’بیٹی کے نام‘ میں آخر میں لکھتے ہیں کہ دعاؤں سے پہلے آخری بات بلکہ خواہش کہ اپنے عمل اور اعمال سے ہمارے لیے صدقہ جاریہ بننا ‘۔یہ ایک ایسی خواہش ہے کہ سارے والدین کے دل میں ہوتی ہے۔ سید ناصر علی کئی تصانیف و تالیفات کے خالق ہیں۔ ان کی تصانیف میں ہمارے خواب ہمارا عزم، قلم رکنے سے پہلے (مجموعہ مضامین) 2016ء میں منظر عام پر آئی، گلدست مضامین ، بقائی یونیورسٹی پریس ۔دس سالہ جائزہ، بات اس ماہ کی ۔ بقائے صحت کے اداریے اور دیگر تالیفات شامل ہیں۔ کتاب کی اشاعت کا بار بقائی یونیورسٹی کے شعبہ نشر و اشاعت اٹھایا۔ آخر میں سید ناصر علی کو مختصر لیکن عمدہ تصنیف منظر عام پر لانے پر دلی مبارک بات ۔ یہ کتاب کالم نگاروں، ادیبوں اور ادب کے طالب علموں کے لیے عمدہ کتاب ہے ، اسے ہر لائبریری کی زینت بھی ہونا چاہیے(23مئی2018ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277989 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More