بزرگ ضمیر

پاکستان میں حالیہ سیاسی منطر نامہ کا ادبی انداز میں تجزیہ ، میاں صاحب کے سوال کا ایک انوکھا انداز،

کچھ دنوں سے "بادامی طرز" کے ایک معصومانہ سوال نے، ذہن کو خادم رضوی کا "فیض آباد" بنا رکھا ہے، یعنی کسی اور خیال کی آمد و رفت کا سلسلہ منقطع ہے۔

میاں صاحب کے ہاں ، نا اہلی کے بعد "ضدی انقلابی بچے" کی پیدائش، ریاست کے بند کمروں میں ہونے والی "بڑے لوگوں" کی " چھوٹی حرکات" کو عوام الناس میں لانے کا سبب بن رہی ہے۔ عام طور پر ہمارے ہاں کے سیاست دان اپنا بیانیہ ، اپنی بنیان کے ساتھ ہی بدل ڈالتے ہیں اور انور مسعود کی بنیان کی طرح ،
"پاندے او تے پئیندی نئی، پئے جائے تے لیہندی نئی" کے مصداق

اپنے ہی بیان کی زد میں مارے مارے پھرتے ہیں، لیکن سابق وزیراعظم اس دفعہ احتیاط کی سبھی کشتیاں جلا کر نکلے ہیں۔ ویسے بھی میاں صاحب کا ضدی بچہ، اپنی ننھی منی ، بلکہ "نانی منی" بیٹی کے ہمراہ جس مخلوق سے مقابلے کو نکلا ہے ، وہ ایک عرصہ تک "خالائی" رہنے کے بعد اب خلائی ہو چکی ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی زہن میں اٹکے ایک سوال کی ، اور وہ یہ ہے کہ ،
ماضی کی کئی جائز جمعوری حکومتوں کے کامیاب قتل کے بعد ، جفا سےتوبہ کرنے والے، زود پشیماں ،میاں صاحب کی حالیہ تحریک کا بنیادی محرک موصوف کی جمعوری نشونما اور شعوری پختگی ہے یا محض"نومولود" ضدی انقلابی بچے کا ردِعمل؟

ہمارے ایک قابل دوست ، ریاست علی میر صاحب ،جو ریاست کے معاملات پے کڑی نگاہ رکھتے ہیں، نے بالکل عجیب بات بتائی، کہتے ہیں کہ نااہلی کے فورًابعد میاں صاحب نےکتب بینی کا شوق پیدا کر لیااور ایک انقلابی کتاب سے" جمعوری نروان " پایا۔ ایک رات "اصولی مراقبے"کے نتیجے میں اپنے "بزرگ ضمیر"کو جھنجھوڑتےہوئے بیدار کیا اور یو ں گویا ہوئے؛

اے میرے ہمراز و ہمزاد، اٹھ ،کہ عمر کے اس نازک حصّہ میں وہ وقت آ ن پہنچا ہے کہ ہم ریاست کے فائدے کو ذات پے مقدم جانیں ، اے طاہرِلاحوتی ، جن شانوں پے تشریف رکھ کہ میں نے کئی منزلوں کا سفر کیا، کئی حکومتوں کی بہاریں لوٹی، کئی عدالتوں کے منصف خریدے ،وہ اب میرےہی خلاف برسرِ پیکارہیں، میں اکیلا ہوں، اداس اور مایوس،اٹھو اور میرا ساتھ دو۔

"بزرگ ضمیر" نے کروٹ بدلی ، اور پُرخراش گلے کو صاف کرتے ہوئے بولا،
"چل رین دے ،چھیٹر نہ درداں نوں"
میا ں صاحب کے اُترے ہوے چہرےپے سنجیدگی دیکھی تو "بزرگ ضمیر" نے کانپتے ہاتھوں سے نظر کی عینک ناک کے عین وسط میں اٹکائی اور اُس کے اوپر سے میاں صاحب کا بغور مشاہدہ کرنے لگا۔

زمانہ ء طالبِ علمی کے بعد ، عالمِ بیداری میں، یو ں پہلی دفعہ میاں صاحب سے ملاقات پر خوشی اور حیرت کے ملے جُلے جذبات میں " بزرگ ضمیر" آبدیدہ ہو گیا، قریب تھا کہ دھاڑیں مار مار کہ روتا لیکن میاں صاحب کو مزید پریشاں نہ کرنےکی غرض سے ضبط کر گیا۔

عشروں پر محیط ، فراق کے گلے شکوے ، وصل کی اس نایاب گھڑی میں کہاں ممکن تھے؟ کچھ لمحات کی گہری خامشی کے بعد میاں صاحب نے "بزرگ ضمیر" سے درد بھرے لہجے میں پوچھا،
مجھے کیو ں نکالا ؟ کیو ں نکالا مجھے؟؟؟
"بزرگ ضمیر " نے نفی میں سر ہلاکر لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا ،
میں تو یہاں موجود نہ تھا،اور اگر یہ سب کچھ میری عدم موجودگی اور غفلت کی وجہ سے ہوا ہے تو میں معافی کا طلبگار ہوں ، ٓپ جانتے ہیں میں چار دہایاں پہلے آپ سے بچھڑتے وقت، کس قدر اداس تھا، ٓپ مجھے کچھ وقت دیجیے ، میں اس سوال کا جواب ضرور تلاش کر وں گا۔

ہاں ہاں، جاو اور مجھے بتاو ّ ، کیوں نکالا مجھے ؟ او رہاں ماضی کو بھول جاو، میں نواز شریف تم سے عہد کرتا ہوں کہ تمھیں کبھی اکیلا نہ چھوڑوں گا، آج کے بعد ہم ایک ساتھ جییں گے اور ایک ساتھ مریں گے۔

مریں آ پ کے دشمن ، ٓپ کی جانب اٹھنے والی میلی آنکھ کو، میری لاش پر سے گزرنا ہوگا۔

"بزرگ ضمیر " کے جوشِ خطابت میں"شہبازی" جذبات دیکھ کر میاں صاحب کی پریشانی کچھ اور بڑھ گئی تو آنے والے جلسے میں کرنےوالی تقریر کی تیاری کے لیے ساتھ والے کمرے میں مریم بیٹی کے پاس چل دیئے۔

رات گئے جب "پرچی" مکمل ہوئی تو میاں صاحب تقریر کو دہراتے دہراتے اپنے کمرے میں داخل ہوے، کیا دیکھتے ہیں کے کمرے کی دیواروں پر کچھ تصاویر آویزاں ہیں اور ہر تصویر ایک ہی سوال پوچھ رہی ہے "مجھے کیوں نکالا"؟

سامنے والی دیوار پر بینظیر بھٹو کی وہ تصویر تھی جس میں وہ دونوں ہاتھ آسمان کی جانب رہی ہیں کے " مجھے کیوں نکالا"؟ اٹھا ے آبدیدہ ہیں اور پوچھ دروازے کے اوپر چھو ٹے سے فریم میں یو سف رضا گیلانی ، کالے سوٹ میں ملبوس بار بار پوچھ رہے تھے "کیوں نکالا مجھے کیوں نکالا"؟

بائیں دیوار پر پرویز مشرف "مریضاناں" لباس کو ہاتھ میں لہراتے ہوے حیرت اور خوشی کے عالم میں گنگنا رہے تھے ،
مجھے کیوں نکالا۔۔ مجھے کیوں نکالا۔۔۔
میں نے ریاست علی میر صاحب کی بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے استفسار کیا کے میاں صاحب لنڈن میں فلیٹ تو خرید سکتے ہیں ، ممکن ہے کے بھول چُوک میں کچھ کرپشن بھی کر گزرے ہوں لیکن اُن کی سیاسی تاریخ شاہد ہے کے کتاب پڑھنے کا الزام سراسر بہتان کے سوا کچھ نہیں۔
میر صاحب اخبار سے نطریں ہٹائے بغیر بولے ،

اچھا بھائی ، وجہ کچھ بھی ہو ، سوال تو درست ہے نا ، ہم تو کہتے ہیں کہ ربِ عیسی ؑ اگر اس بچے کو قوتِ گویائی دے تو اس بے بس کا سوال بھی یہی ہو گا،

میں نے میر صاحب کے ہاتھ سے اخبار لیا، خبر تھی کہ ایک نحیف و ناتواں ماں نے ایک بچے کو رکشہ میں جنم دیا ہے ۔

Abrar Khan
About the Author: Abrar Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.