فاٹا اصلاحات اور قبائلی عوام

گرمی کی شدت و حدت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل مشروبات اور انرجی ڈرنک کی ایک بھر مار مارکیٹ میں آگئی ہے۔مقامی ، قومی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ان مشروبات کے ساتھ ساتھ لوگ دکانوں اور ریڑھیوں پر کھلے عام تیار ہونے والے جوس بھی پسند کرتے ہیں۔گزشتہ ہفتے کی بات ہے کہ ہم آفس سے واپس آرہے تھے۔جب راستے میں پیاس برداشت سے باہر ہوگئی تو میں نے اپنے دوست سے کہا کہ کہیں رُک کر ٹھنڈا پانی یا جوس پیتے ہیں۔’’ میرا بھی یہی خیال ہے ‘‘۔ دوست نے تائید میں کہا۔ بالآخر میران شاہ روڈ پر ایک بوڑھے شجر کے نیچے واقع گنے کے شربت والی ریڑھی پر سٹاپ کیا۔جہاں گرمی کے ستائے ہوئے لوگوں کا رَش پہلے سے موجود تھا۔ کچھ کھڑے ہوکر شربت پی رہے تھے تو کچھ بیٹھے ہوئے تھے۔ہمیں بھی تھوڑے انتظار کے بعد بیٹھنے کے لئے جگہ میسر آگئی۔اگرچہ رَش زیادہ تھا ہر بندہ اپنے حال میں بے حال تھا لیکن دیوار کے قریب بیٹھی معمر خاتون اور اُس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پوتے ، پوتیوں کے رونے اور چلانے نے ہماری ساری توجہ اپنی جانب مرکوز کر لی تھی۔ خاتون اپنے حلیے اور لباس سے قبائلی یعنی شمالی وزیرستان کی مکین لگتی تھی جو اپنی معصوم ننھے منھے پھولوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ گنے کے شربت سے بھرے گلاس خاتون اور بچوں کے پاس زمین پر پڑے تھے اور وہ کھبی اُڑتی ہوئی گرد اور مکھیوں کو اپنے دوپٹے سے جھل کر دور ہٹانے اور بھگانے کی کوشش کرتی تو کبھی نیزے کی طرح چھبتی سورج کی شعاعوں سے بچوں کے سر ڈھانپتی۔ اس کے علاوہ اُس کی نگاہیں ہر اُس گاڑی کو تاڑ رہی تھیں جو شمالی وزیرستان ایجنسی کی جانب گامزن تھیں۔واضح رہے کہ بنوں جنرل بس سٹینڈ سے لے کر شمالی وزیرستان ایجنسی کی حدود تک کوئی بھی مسافروں کے لئے انتظار گاہ یا چھپر نہیں ہے جہاں مسافر اطمینان سے بیٹھ کر گاڑی کا انتظار کریں۔ آج سے چار سال قبل شمالی وزیرستان ایجنسی میں آپریشن ضرب ِ عضب شروع ہوا تھااور گزشتہ برس آپریشن سے متاثر لوگ صوبہ خیبر پختون خوا کے مختلف اضلاع اور کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے کے بعد اپنے علاقوں کو لوٹ چکے ہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق آبادکاری ، استحکام امن اور سہولیات کی فراہمی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ یہ وہ مسائلہیں جو ہماری سیاسی جماعتوں کے نظروں سے اُوجھل ہیں۔ ہم صرف اپنی سیاسی دکانیں چمکانے میں مصروف ہیں کیوں کہ انتخابات میں چند ماہ رہ گئے ہیں اور ہم نے حقائق سے چشم پوشی اختیار کر کے فاٹا کے عوام کے جذبات سے کھلواڑ شروع کر رکھا ہے۔تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے سیاسی حربے کے طور پر فاٹا ایشو کو اپنے انتخابی منشور یا نکات میں شامل کیا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں فاٹا اصلاحات کے معاملے پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدرات میں ہونے والے اجلاس سیاسی جماعتوں کی ضد اور ہٹ دھرمیوں کے باعث بلا نتیجہ اختتام پذیر ہوگئے ہیں۔اگرچہ حکمران جماعت اور پاکستان تحریک انصاف فاٹا کے انضمام کے مؤقف پر ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آتی ہیں لیکن ایم ایم اے میں شامل دو بڑی جماعتیں جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی اس سنجیدہ معاملے پر ہم خیال نظر نہیں آتی ہیں۔البتہ پختون خوا ملی عوامی پارٹی میں یہ لچک ضرور پائی جارہی ہے کہ انضمام یا الگ صوبہ بنانے سے قبل قبائلی عوام کی رائے لی جائے اور اُسی کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے۔اس ساری صورت حال یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فاٹا اصلاحات 2018 کا وہی حال ہوگا جو اس سے قبل 2006 ء صاحب زادہ امتیاز احمد رپورٹ ، 2008 ء جسٹس (ر) میاں محمد اجمل رپورٹ ، 2011 ء لوکل باڈیز ریگولیشن اور 2015 ء فاٹا ریفارمز کمیشن کا ہوا تھا۔پس ضرورت اس امر کی ہے کہ فاٹا کے عوام کے ساتھ جاری سیاسی کھلواڑ کو بند کیا جائے اور وہاں استحکام امن اور بنیادی سہولیات کو اصلاحات سے قبل یقینی بنایا جائے تاکہ وہاں کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 262319 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.