پاک چین تعلقات اور سی پیک منصوبہ

پاک چین تعلقات کی جب بھی بات کی جائے تو اس نقطہ نظر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا پاک چین تعلقات میں اس نقطہ نظر سے تواقعات خدشات کامیابیاں اور دیگر معاشی اثرات و اسباب کی تویل بحث منسلک ہوجاتی ہے پاک چائنہ تعلقات موجودہ دورِ حکومت میں اپنے عروج پہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ پاکستان نے ترکی، چین اور روس کی جمہوری ریاستوں سے اپنے تعلقات کو 148 دو اورلو147 کے اصول پہ مستحکم کیئے ہیں ۔ وہ نئی ریاستیں جو تجارت کے لئے بہت کار آمد ہیں ان کی طرف پاکستان نے توجہ کی ہے۔ خاص طور پر، چین بہت بڑی Investmentپاکستان لا رہا ہے اور پاکستانی تاجر چین جا رہے ہیں۔چین سے پاکستان منتقل ہونے والے انجینئرز، کاریگراور ورکرز کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو مختلف منصوبوں میں مصروفِ کار ہے۔ مستقبل میں اس سے زیادہ افراد کی آمد اور سکونت کی امید کی جا سکتی ہے۔ جس سے پاکستان میں خوشحالی کا دور آئے گا۔ پاکستانی حکومت پاکستان میں جاری منصوبوں کا ذکر بڑے فخر سے کرتی ہے اور کرنا بھی چاہئے۔ اس ترقی کا سوچ کر خوشی ہوتی ہے لیکن فکرمندی بھی لاحق ہوتی ہے اور یہ فکر مندی دو حوالوں سے ہے۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی قوم گئی ہے خواہ وہ روزگار کے سلسلے میں گئی اس نے اس قوم کے کلچر ، رہن سہن اورسماج کو ضرورمتاثر کیا ہے ۔اگر اس قوم کا کلچر ،رہن سن اور سماج مضبوط بنیادوں پر استوار ہے تو اس نے آنے والی قوم کومتاثر کیا ہے۔ ابتدائے اسلام میں ،مسلمان جہاں گئے انہوں نے وہاں کے لوگوں کو اپنی اقدار و کردار سے متاثر کیا۔ اس قوم میں مذہب ، معاملات اور سیاست کے حوالے سے تبدیلی کا باعث بنے۔ آج بھی مسلمان جن ممالک میں روزگار کے لئے گئے ہیں ،اگر مسلمان بطور خاندان و مذہب متاثر ہوئے وہاں انہوں نے اس قوم کو بھی متاثر کیا۔ مسئلہ یہ نہیں ہے ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ چائنہ کے لوگ کثرت سے پاکستان منتقل ہوتے ہیں۔ یہاں وہ کاروبار کرتے، کمپنیز بناتے اور آفسز کھولتے ہیں۔ سماجی اورمعاشرتی سطح پر ان کے تعلقات پاکستانیوں سے قائم ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ان کے بچے، نوجوان اوربچیاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کی اخبارات اورچینلز کا اجراءہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شادیاں، دوستیاں اور میل جول وجود میں آتا ہے۔ان کے نتائج کیا ہونگے؟ کیا ان معاملات پہ کبھی اہل حل و عقد اور اہل دانش و علم نے غو ر کیا ہے مغربی ممالک کے پالیسی ساز ، دانشور اور اہل علم اپنی حکومت و ریاست کو ان مسائل سے صرف آگاہ نہیں کرتے بلکہ اسے Road Map بھی بناکر دیتے ہیں۔ ریاست اس پہ پلان بناتی اور اس کا نفاذ بھی کرتی ہے ،یہ ایسی انہونی بات ہونے نہیں جا رہی کہ چائنہ سے لوگ پاکستان میں آباد ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی تجارت، منصوبوں اور انفراسٹرکچر میں دلچسپی لے رہے ہیں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے مانا کہ پاکستان چائنہ کی شراکت اورتعاون سے معاشی اورسائنسی میدان میں ترقی کر ے گا۔موٹروے ،ایئرپورٹس کی عالیشان تعمیراور درآمدات و برآمدات میں اضافہ ہو جائے گا لیکن سوال یہ ہے کیا اس سے پاکستانی عوام کو بھی فائدہ پہنچے گا؟۔اس نظام میں کبھی غریب کا فائدہ نہیں ہوا اگر ہوا تو وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتا ہے۔ اگر اس وقت بھی جائزہ لیا جائے ، پاکستان میں تجارت کے مختلف سیکٹرز میں ،اکثرانہی لوگوں کا قبضہ نظر آتا ہے جوحکومتوں کے کارندے اور نمائندے ہوتے یا رہتے ہیں ۔ یہی وہ طبقہ ہے جسے اندر کی کہانی پہلے سے معلوم ہوتی ہے اور یہ وقت سے پہلے مارکیٹ پہ قبضہ کر لیتا ہے۔ اس کی چھوٹی سی مثال لاہور میں زیر تعمیر ہاﺅسنگ سوسائٹیز ہیں یہ وہ مضافاتی علاقے ہیں جو پہلے ویران اور بے آبادتھے یاجہاں لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ حکومت میں موجود سرکاری نمائندوں نے ان جگہوں کو خرید لیا یا اپنے دوستوں کے ذریعے معمولی قیمت پہ خرید لی۔ انہیں معلوم تھا کہ پانچ سال بعد اس علاقے کو Develop جانا ہے ۔ انہوں نے انہی معلومات کی روشنی میں اونے پونے ،ہزاروں ایکڑ زمینیں خرید لیں آج وہاں عظیم الشان ہاﺅسنگ سوسائٹیز قائم ہوچکی ہیں جہاں غریب کو پانچ مرلے کا پلاٹ ایک کروڑ سے کم کا نہیں ملتا۔ یہ صرف ایک مثال ہے، ورنہ ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ یہ وہ کرپشن ہے جس پہ کوئی عدالت ہاتھ نہیں ڈال سکتی کیونکہ یہ جائز کرپشن ہے۔ چائنہ کی آمد اور چائنہ کی Investment سے کیا واقعی پاکستانی عوام کو فائدہ ہو گا یا حسب دستور چند معمولی خاندان پاکستان کے امیر خاندانوں میں شامل ہو جائیں گے جو اپنی ہوس مٹانے کے لئے اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچنے دیں گے، جن کا ہر منصوبہ میٹروبس کی طرح ہوگا جو عوام کو جھولے دے گا لیکن معیاری تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم نہیں کرے گا۔ ان خاندانوں تک معاشی ثمرات ڈیم کے پانی کی طرح پہنچیں گے اور غریب تک چھاننی سے چھن کر آئیں گے۔ یہ دونوں مسئلے اور خدشات ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ چین پاکستان آکر ہیاں کے کلچر اور مذہب کو متاثر کرے اور اس منصوبے سے جو بھی فائدہ ہو وہ حکومت لوٹ کر لے جائے اور عوام کے ہاتھ کچھ نہ آئے-

SALEEMULLAH
About the Author: SALEEMULLAH Read More Articles by SALEEMULLAH: 2 Articles with 1955 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.