سلسہ وار ناول رازی قسط نمبر ۱٠

قسمت اچھی ہو تو اتفاقات بھی اچھے ہوتے ہیں۔ اور اگر انسان کا مقدر بگڑا ہو تو اتفاقات بھی الٹے ہوتے ہیں۔ رازی کی قسمت اچھی تھی کہ اس پر پہلا وار قدرت نے ناکام بنا دیا تھا ۔ مگر اب یہ سلسلہ چل نکلا تھا تو رکنے والا معلوم نہیں ہوتا تھا کیونکہ رئیس کو پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی کہ دو مرد اور دو عورتیں کسی بھی روپ میں ان تک رسائی کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ سپر مین کے جاسوس تھے اور تھیں ۔ ایس ون کی ٹیم تو اتفاق سے پکڑی گئی تھی مگر سپر مین کی ٹیم کیسے ہاتھ آتی ۔ اس کے بارے میں بہت کچھ کرنا باقی تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ رئیس نے زکریا ، احمد یٰسین اور ریاض علوی کو حضرت صاحب کے پاس طلب کیا تھا تاکہ وہ اپنے کشف سے اس بارے میں کوئی رہنمائی فرمائیں۔
چاروں حضرات ، حضرت صاحب کے حجرے میں بیٹھے تھے کہ حضرت صاحب بھی وہاں آ گئے ۔ چار وں نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا۔ جب حضرت صاحب تشریف فرما ہو گئے تو وہ بھی بیٹھ گئے ۔
حضرت صاحب نے اﷲ کا نام لیا اور فرمانا شروع کیا کہ غیب کا علم صرف اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ کسی انسان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ آنے والے واقعات کے بارے میں پہلے ہی بتا دے غلط بات ہے ۔ توکل اس کا نام نہیں کہ انسان ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائے ۔ کچھ نہ کرے اور کہے کہ مجھے سب کچھ توکل سے ملے گا۔ بلکہ توکل اس بات کا نام ہے کہ آدمی اپنی طرف سے تمام اسباب کرے اور پھر توکل کرے ۔ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور یہاں پر سب کچھ کسی نہ کسی سبب سے ہی ملتا ہے ۔ اﷲ کے بندوں کو غیب سے مدد ہوتی ہے ۔ انہیں بہت ہی مشکل صورتحال میں رہنمائی بھی ملتی ہے جیسا کہ تمہیں ایس ون کی ٹیم کی صورت میں مل چکی ہے ۔ اب تم کیا اسباب اختیار کرتے ہو کہ تمہیں سپرمین کے آدمیوں سے کوئی نقصان نہ ہو۔ یہ تمہاری دانش پر منحصر ہے۔ اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے اپنے نیک مقاصد کو آگے بڑھاؤ اور جتنے بھی وسائل تمہارے پاس ہیں انہیں خلوص سے استعمال کرو ۔ اﷲ تمہارا حامی و ناصر ہو گا ۔ یہ فرما کر حضرت صاحب اپنے خلوت خانہ میں واپس چلے گئے ۔
حضرت صاحب کے اس بیان کے بعد کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ سپرمین کے آدمیوں کے بارے میں کوئی سوال کریں کیونکہ حضرت صاحب نے اشاراۃً فرما دیا تھا کہ ایک سرا ایس ون کی ٹیم کی صورت میں مل چکا ہے ۔ دوسرا انہیں خود تلاش کرنا پڑے گا اور ذریعہ یہی سرپینٹائں ٹیم بنے گی ۔
رئیس اور علوی نے احمد یٰسین اور زکریا مختار کو یہ مشن سوپنے کی تجویز دی جب کہ زکریا مختار نے احمد یٰسین کے ساتھ علوی کو مناسب سمجھا اور کہا کہ صحافی تفشیشی سوال زیادہ کر سکتا ہے ۔ ہم مشورہ دیں گے کہ یہ دونوں اس پرعمل کریں گے ۔ رئیس نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور احمد یٰسین کااور ریاض علوی کو یہ مشن دے دیا گیا ۔
**۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔**
مومنہ نے قسم کھا لی تھی کہ جن لوگوں نے اسے اس حال میں پہنچایا تھا وہ ان کے شیطانی جال کو ضرور توڑے گی اور کسی بھی مسلمان ملک کو ایسے نقصان نہیں پہنچنے دے گی ۔ اس مقصد کے لئے اس نے مرکز کےسربراہ سے مشورہ کیا ۔ تو انہوں نے اس کے نیک ارادوں کو سراہا اور اسے ہدایت کی کہ وہ بیماری کا بہانہ کر کے عملی میدان سے ہٹ جائے مگر اس ایجنسی کی ملازمت ترک نہ کرے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے ۔ اور اپنے مسلمان ہو جانے کی پرچار بھی نہ کرے بس خاموشی سے دینی علوم سیکھتی رہے اور ان پر عمل کرتی رہے۔ فی الحال وہ اپنا نام بھی وکٹوریا ہی رکھے تاکہ کسی کو اس پر شبہ نہ ہو۔ اسے وقتاً فوقتاً ان کے چار جاسوسوں کے بارے میں معلومات بھی مومنہ نے ہی دیں تھیں جن کی بنیاد پر رازی اپنا دفاع کرنے جا رہی تھی۔ مومنہ کے پاس بس اتنی ہی معلومات تھی یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ چاروں کس کس روپ میں ہوں گے ۔ اور کہاں ہو ں گے ۔ جتنا اسے معلوم ہوا اتنا اس نے مرکز کے امیر حسن صاحب کو بتا دیا تھا جو انہوں نے اسی وقت رئیس کو ٹرانسفر کر دیا ۔
*****
ٹی ایف ڈبلیو کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسلام کا دفاع کرے ۔ ٹی ایف ڈبلیو کے مراکز تمام بڑے چھوٹے ممالک میں قائم کرنے کا منصوبہ تھا۔ فی الحال بڑے بڑے ممالک میں اس کے مراکز قائم تھے۔ ان مراکز میں اسلامی اقدار رائج تھیں اور ہر بات کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھ کر پھر اس پر عمل کیا جاتا تھا۔ ہدایت بھی یہی تھی کہ مغربی ممالک کے مراکز پر بالخصوص توجہ دی جائے۔
انہی ممالک میں چونکہ مسلمانوں کے خلاف ہر روز لڑائی زیادہ ہوتی تھی اس لئے اس کا دفاع ضروری تھا ۔ ان مراکز کی یہ ذمہ داری تھی کہ کوئی بھی غلط بات یا نظر یہ جسے اسلامی کہہ کر پکارا جائے یہ اس کا بطلان کریں اور صحیح بات لوگوں پر واضح کریں ۔
ساتھ ہی ٹی ایف ڈبلیو کی یہ بھی ذمہ داری تھی کہ وہ ان تحریکات پر نظر رکھیں جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ہوں۔ کس طریقے سے یہ ممالک اسلام کے خلاف پرایپگنڈہ کرتے ہیں اس کی فوری اطلاع ٹی ایف ڈبلیو کے بڑے مرکز میں دی جائے۔
اس کا کام یہی تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ ایک مسلح دستہ کی بھی حامل تھی۔ یہ تربیت یافتہ کمانڈو احمد یسیٰن کی فورس سے تعنیات کئے جاتے تھے۔ یہ ایک مرکز میں نہیں بھیجے جاتے تھے بلکہ مخصوص مقامات پر انہیں بھیجا جاتا جہاں کسی ایسی تنظیم کا پتہ چلے جو عملی طور پر مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہی ہے ۔
ٹی ایف ڈبلیو کے پاس تمام خفیہ معلومات حاصل کرنے کے لئے بھی فورس موجود تھی ۔ اور اس فورس میں عام طور پر وہاں کے مقامی باشندے شامل ہوتے تھے۔ ان لوگوں کو پہلے اچھی طرح پرکھا جاتا اور پھر ان سے یہ کام لیا جاتا تھا۔
*****
احمد یسیٰن اور ریاض علوی کا مشن جاری تھا ۔ حضرت صاحب کے اشارے نے انہیں ایک اور خفیہ منصوبہ دیا تھا جس کے تحت وہ سپر مین کے آدمیوں کی تلاش میں نکلنے والے تھے۔ جے جے اور ویلنیٹنا کے سامان کی تلاشی کے دوران ایک بہت ہی اہم چیز ان کے ہاتھ لگی۔ یہ لیپ ٹاپ تھا۔ جس کا رابطہ براہ راست ایس ون کے ساتھ تھا۔ کوڈ ورڈ ز چونکہ انہیں پہلے ہی معلوم ہو چکے تھے اس لئے انہوں نے ایس ون کو استعمال کرنے کا پروگرام بنایا ۔ ٹرانسمٹر بھی وہ استعمال کر سکتے تھے مگر اس میں آواز میں پہنچانے جانے کا اندیشہ تھا۔ اس لئے ان کے لئے یہ معلومات غیر متوقع طور پر ملیں کہ جے جے کمپیوٹر سے بھی رابطہ کر سکتا تھا۔ ریاض علوی نے یاسر جمال کو بلایا اور اسے تمام باتیں بتائیں اور یہ کہا کہ جس کمپیوٹر سے جے جے کا رابطہ ہے اس میں جتنا بھی ڈیٹا تمہیں ملتا ہے وہ ڈاؤن لوڈ کر لو۔ یاسر جمال نے کمپیوٹر سامنے رکھا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ اس کام کے لئے اسے ایک گھنٹہ لگا ۔ اور اس ایک گھنٹے کی محنت رازی کے لئے معلومات کا خزانہ اکٹھا کر لیا۔ انہیں سرپنیائن کا بخوبی علم ہو گیا اور وہ کیسے کام کر رہی تھی۔ اور کیا تھی سب کچھ بطریق احسن انہوں نے اپنے ریکارڈ میں محفوظ کر لیا ۔ پہلے وہ محض میڈیا سے معلومات حاصل کر رہے تھے اب اندر کی معلومات کا علم بھی انہیں ہو گیا ۔ احمد یسٰین نے وہ فلاپی اپنے پاس محفوظ کر لی اور یاسر جمال کو رخصت کر دیا ۔ اس کے بعد وہ کمپیوٹر پر آیا۔ اور اس نے اپنا کام شروع کیا۔ رابطہ چونکہ براہ راست تھا اور صرف ایس ون کے ساتھ تھا اس لئے اسے کو ئی دقت پیش نہ آئی ۔ اس نے کوڈورڈ ز ان کئے ۔ تھوڑی ہی دیر میں سے کوڈ آ گئے اور رابطہ ہو گیا ۔ ایس ون نے پوچھا کہ ٹرانسمٹر سے رابطہ کیوں نہیں کیا ۔ احمد یسٰین نے جے جے بن کر کہا کہ ٹرانسمٹر کی فریکوئنسی ڈی ٹیکٹ ہو سکتی تھی اس لئے وہ احتیاطی تدابیر کر رہا ہے۔ ایس ون نے اسے شاباش دی اور کام کے متعلق پوچھا :۔
احمد یسٰین نے کہا کہ سر ہم کامیابی کے قریب ہیں رازی کا خاص آدمی ہماری نظروں میں آ چکا ہے اس کا معمول بھی ہم نے نوٹ کر لیا ہے ۔ مصیبت یہ ہے کہ اس کے گرد دن رات گارڈز کی ایک پلٹن ہوتی ہے۔ یہ دو کے لئے ناممکن ہے کہ ہم اس کے قریب جا سکیں ۔ باقی تمام حربے ہم نے استعمال کئے ہیں ۔ وہ کسی طرح سے بھی آرام سے قابو میں آنے والا نہیں ۔ اس لئے ہمیں ایسے مدد گار ساتھیوں کی ضرورت ہے جو ہماری بھرپور مدد کر سکے اور جن پر ہم بھروسہ بھی کر سکیں۔
تمہیں شیر ون نے ایڈریس لکھوائے تو تھے۔
سر ومقامی ہیں اور کوئی بھی مقامی آدمی اس شخص کے خلاف کوئی ایسا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ وہ بہت بڑی روحانی طاقت کے روپ میں ہیں۔
اچھا ۔ یہ بات ہے ۔ ایس ون نے کہا
جی سر! اگر سپر مین کے کوئی آدمی وہاں ہیں تو ا ن سے ہمارا رابطہ کروا دیں۔ ان سے مل کر ہم یہ مشن بہت جلد مکمل کر سکتے ہیں ۔ تم ہمیں اس روحانی شخصیت کانام و پتہ تو بتاؤ۔
احمد یسیٰن پہلے تو تھوڑا سا گھبرایا مگر فوراً اس کے ذہن میں ایک ایسی ہستی کا نام آ گیا جو روحانی شخصیت کے روپ میں تھا اور جس کا روزانہ اشتہار اخبار میں آتا تھا۔
اس نے عامل بابا کا نام بتا دیا ۔
اس کے بعد دوبارہ احمد یسیٰن نے کہا کہ ہمیں کچھ افرادی قوت درکار ہے اور وہ قابل بھروسہ ۔
ایس ون نے کچھ دیر بعد رابطہ کرنے کو کہا
احمد یسٰین نے اپنا رابطہ برقرار رکھا ۔
تھوڑی دیر بعد ایس ون کا پیغام سکرین پر نمودار ہوا کہ اس نے سپر مین سے اس سلسلے میں رابطہ کیا ہے۔ اس کی ٹیم بھی سلطنت اسلامیہ پہنچ چکی ہے اور یہ ان کا بائیو ڈیٹا ہے ۔ اس وقت وہ بھی تمہارے ساتھ اسی شہر میں موجو د ہیں۔ وہ دو مرد اور دو عورتیں ہیں۔ وہ چاروں الگ الگ ہیں اور کسی ایک وقت آپس میں رابطہ کر کے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ۔ اور دوسرے دن کی لائن آف ایکشن تیار کرتے ہیں ۔ میں نے انہیں اس عامل بابا کا پتہ دیا ہے۔ وہ بہت جلد اس تک پہنچنے کی کوشش کریں گے ۔ ان تک تمہارا پیغام پہنچ چکاہے اور ٹھیک دوگھنٹے بعد تم ان سے رابطے میں ہو گے ۔
رائٹ سر! میں دو گھنٹے بعد پھر ملوں گا ۔ بائے

akramsaqib
About the Author: akramsaqib Read More Articles by akramsaqib: 76 Articles with 58375 views I am a poet,writer and dramatist. In search of a channel which could bear me... View More