احساس خدا کی نعمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ا۔۔ح۔۔س۔۔ا۔۔س پانچ حروف پر مبنی یہ لفظ جو ہر کسی کے پاس موجود نہیں ہوتا خدا کی خاص نعمت ہے اور خدا کچھ نعمتیں اپنے خاص بندوں کے لیے رکھتا ہے شاید آج کے اس دور میں خدا نے ہم پر سے اپنی اس نعمت کو اٹھا لیا ہے۔۔اس کا اندازہ ہمیں ارد گرد میں موجود ان لوگوں سے کرلینا چاہئے جن کے پیروں میں نہ چپل ہوتی ہے نہ تن پر کپڑا پر ہم بہت آرام سے انکو دیکھ کے آگے بھر جاتے ہیں اب آپ سوچیں گیں کے ہزاروں میں سے کن کن کو دیں تو اپنے آپ سے یہ ضرور پوچھیں کہ آپ نے ان ہزاروں میں سے ایک کو دیا ہےیا نہیں ؟؟؟

احساس کے نہ ہونے کا اندازہ مجھے اس وقت بھی ہوا کہ جب میں نے کچھ دنوں پہلے شدید گرمی کی حالت میں لیمو پانی خریدا جس کی قیمت فقط 10روپے تھی ۔۔دوپہر کے 3 بج رہے تھے گرمی کی شدت سے ہر شخص کی زبان خشک تھی ۔

میں نے اس شربت کو لے تو لیا تھا پر ایک دو گھونٹ پر ہی میری طلب ختم ہوگئی تھی اب سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کا کیا کیا جاۓ اپنے برابر میں کھڑی لڑکی کو تکلف میں پوچھا تو اسنے بھی انکار کردیا ۔۔پھر عقل نے کہا کے کون کسی کا جھوٹا پیتا ہے ۔۔

ابھی میں اپنی سوچ کی وادی میں گم تھی کہ سامنے ایک خاتون اپنے بچے کو اس تپتی دھوپ میں ٹھیلے پر لٹاتی نظر آئیں تھیں، میں نے انکے قریب جاکر شربت کی تھیلی کو ان کی جانب بڑھا یا تھا۔۔
"آپ کو برا نہ لگے۔۔تو یہ آپ پیلیں۔۔میں نے کھریدلیا۔۔۔۔۔"

ابھی جو دل میں تھوڑے خدشات آئے تھے کہ کہیں یہ خاتون بھی اس لڑکی کی طرح منع نہ کردیں یک دم جھاگ کی طرح بیٹھتے محسوس ہوۓ تھے۔۔
"میں۔۔؟
میں پی لوں یہ۔۔۔!!
وہ جیسے بے یقینی اور خوشی کے عالم میں میری سمت بڑھی تھیں۔۔۔
انکے چہرے پہ آئ خوشی سے میرے دل میں بھی خوشیوں کی لہر امڈ آئ تھی
۔۔پر۔۔۔
اگلے ہی لمحے مجھے اپنے آپ سے نفرت سی محسوس ہوئی تھی
۔۔۔ نفرت،ندامت،افسوس۔۔

وہ جو اس شربت کو بیتابی سے قبول کر چکی تھیں اور پینے کا ارادہ رکھتی تھیں یک دم ہی شربت منہ سے لگاتے لگاتے آگے بڑھیں تھیں اور سامنے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ایک بزرگ کو وہ شربت پیش کیا تھا۔
شربت انکو دیکر وہ وہاں سے چلی گئی تھیں لیکن میری توجہ اور نگاہیں اب جیسے اس شربت کی تقسیم پر مبذول تھیں، کونکہ اب وہ شربت ان بزرگ کے ہاتھ سے برابر میں بیٹھی خاتون اور پھر ان کے بعد انکے بچے کی سمت بڑھا تھا۔

کھبی ایک کے ہاتھ میں جاتا ہے کھبی دوسرے کے ان سب نے اس میں سے ایسے پیا تھا جیسے کوئی تبرک ہو ۔۔
مجھے اپنا آپ دنیا کا سب سے بڑا نا شکرا لگا جس کی زبان دعا میں بھی شکوہ ہی کرتی ہے ۔دل میں یہ پشیمانی تھی کہ شاید اگر مجھے یہ خاتون نہ ملتی تو میں سڑک کے کونے پر اس کو رکھ دیتی۔۔۔

مجھے ابھی تک اس بچے کا تھیلی کو نچوڑ کے اپنی زبان کو تر کرنا رلا رہا ہے۔۔۔کس قدر بڑی نعمت تھا وہ شربت انکے لیے جس کی قیمت اور حثیت میرے نزدیک کچھ بھی نہیں تھی ۔۔۔

انسان کس حد تک نا شکرا ہے جس کو خدا کی نعمت کا اندازہ بھی دوسرے کی غربت سے ہوتا ہے

۔ ہمارے نزدیک احساس کے معنی افسوس کرنے کے ہیں جب کے احساس وہ نہیں جس میں افسوس کر کے دو بول تسلی کے بولے جائیں ۔۔ احساس میں دوسرے کہ لیے کچھ کیا جاتا ہے اسکی پریشانی کو اپنا سمجھا جاتا ہے ۔۔۔
شاید اگر ہمارے دلوں میں یہ احساس کا جذبہ صحیح معنوں میں ہو تو آج ہمارے ملک کا ہر فرد مستحکم ہو۔۔۔۔۔امیر جذبۂ ایثاری سے مالا مال ہوجائے اور غریب شکر خداوندی کے ورد سے لب سجالے۔۔
یہ جو جذبہ ایثار،محبت،اخوت رمضان کے اس مہینے میں آتا ہے خدا کرے کے سارا سال رہے ۔۔۔

اس رمضان اپنے اندر پیدا ہونے والے احساس کو مرنے نہ دیں۔۔

ورنہ ایک دن آپ کے لیے بھی کسی کے دل میں کوئی احساس و فکر نہ ہوگی ۔۔

سنا ہے دل ٹھکانہ ہے
احساسات کا لوگوں
جہاں پر پیار ہوتا ہے
جہاں پر فکر ہوتی ہے
تبھی دل کے ٹھکانے کو
خدا کا گھر بھی کہتے ہیں
مگر پھر کچھ دنوں پہلے
ایک تحریر دیکھی تھی
اور اس میں لکھا دیکھا تھا
کہ جہاں کی سب سے گیہری قبر
اے لوگوں دل کو کہتے ہیں
کئی احساس کئی فکریں
یہاں پر دفن ہوتی ہیں
کوئی احساس مر جاے
یہی پر دفن ہوتا ہے
جب کھبی فکر مرتی ہے
یہی پر دفن ہوتی ہے
یہ دل احساس کا گھر ہے
یہ ہی رحمٰن کا گھر ہے
گر اسے قبر رکھنا ہے
تو میری بات سن جاؤ
کہ قبر وہ ٹھکانہ ہے
کہ جو تاریک ہوتا ہے
جہاں پر خوف ہوتا ہے
جہاں ویہشت برستی ہے
ہے بہتر یہ علیشاہ پھر
خدا کا گھر جو ہے یہ دل
اسے تم دل ہی رہنے دو
اپنے احساس جینے دو
اسے تم گھر ہی رہنے دو
 

Alishah Zaidi
About the Author: Alishah Zaidi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.