نل کس نے کھولا ہے!

صاحبانِ اختیار و اقتدار کے لیے دو چیزیں نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ایک وقت پہ دانش مندانہ فیصلہ لینے کی صلاحیت اور دوسرا جذباتی استحکام۔ خیر سے ہمارے ہاں شروع دن سے ہی ان دونوں چیزوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اور یہ فقدان ریاست و حکومت تک ہی نہیں محدود بلکہ مختلف شعبہ ہائے جات میں اس کی عملی تفسیر تلاشی جا سکتی ہے۔ روزمرہ معمولات اور مختلف اداروں سے وابستگی کے دوران ایسے بہت سے واقعات میری نظر سے گزرے ہیں جنھیں سمجھنے کی کوشش کروں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اختیار و اقتدار ہوتے ہوئے بھی دانشمندی اور جذباتی استحکام کا مظاہرہ خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مجھے یاد ہے ملک کے ایک بڑے نجی ادارے میں ایک سابق دفاعی افسر کو ڈائریکٹر کا عہدہ ملا تو مالک نے تعارفی تقریب میں ملازمین سے ان کی صفات کا خوب تذکرہ کیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ایسے حالات بھی آئے کہ ادارے کی ایک بڑی کاروباری میٹنگ کے دوران مالک نے اسی ڈائریکٹر سے کہا کہ ’’مجھے میٹنگ روم کے راستے میں بیت الخلا سے پانی کی آوازیں آ رہی تھیں جا کے دیکھیں کہ کون سے بیت الخلا کا نل کھلا ہے اور کیوں کھلا‘‘۔ یہ ایک بڑے نجی ادارے کے مالک کا اپنے ڈائریکٹر سے رویہ تھا کیونکہ اسے اپنی طاقت کا اظہار کرنا تھا سو اس نے ایسے لمحہ پہ کیا جب ادارے کے سب سرکردہ لوگ موجود تھے۔ ایک طرح سے اس نے اپنے تئیں ڈائریکٹر کو ذلیل کرنے کی کوشش کی۔ یہ کیفیت ایک مالک کی تھی لیکن مالک سے نیچے ڈائریکٹر بھی تو صاحبِ اختیار و اقتدار تھا۔ اس نے بھی غیر دانشمندی اور جذباتی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر بیت الخلا کے دروازے پہ زور زور سے دستک دینا شروع کر دی اور ساتھ ساتھ بلند آواز میں اندر موجود لوگوں سے سوال پوچھنا شروع کر دیا کہ ’’نل کس نے کھولا ہے‘‘۔ اندر والوں کی حالت ویسے ہی مضحکہ خیز ہو گئی کہ انھیں زندگی میں پہلی بار ایسا تجربہ ہوا کہ ایک بڑے ادارے میں سکون سے رفع حاجت کی آزادی بھی چھین لی گئی۔ اس واقعہ کے بیان کا مقصد اختیار اور اقتدار کی اس حالت کو بیان کرنا ہے کہ جہاں غیردانشمندی اور جذباتی پن موجود ہو وہاں ناانصافی اور زیادتی کا جنم ہوتا ہے اور استحصال کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

موجودہ سیاسی منظر نامہ میں میاں صاحب کے انٹرویو نے ہنگامی صورتِ حال قائم کر رکھی ہے۔ جس پہ ایک جانب چھوٹے میاں صاحب وضاحتیں جاری کر رہے ہیں اور دوسری جانب خود میاں صاحب اپنے بیان پہ قائم ہیں۔ بیان کی تفہیم مختلف لوگ مختلف انداز میں کر رہے ہیں۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ لگائیے کہ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ بیٹھ گئی جس کے بعد وزیراعظم کی پریس کانفرس برائے راست نشر ہونے سے محروم رہی۔ گویا ملک کے چیف ایگزیکٹیو کی گفتگو کوئی معانی ہی نہیں رکھتی یا پھر اس گفتگو میں اتنی پائیداری ہی نہیں تھی کہ اسے چلایا جاتا۔ خیر صاحبانِ اختیار و اقتدار میں اپنی اپنی بساط کے مطابق ہی حوصلہ ہوتا ہے۔ کون مالک ہے کون ڈائریکٹر اور کون ماتحت عملہ اس کا تعین ریاست کے اعلیٰ عہدے داروں میں بڑا مشکل ہوتا ہے۔ کہنے کو تو بڑی کرسی پہ کوئی بھی بیٹھا ہو سکتا ہے لیکن کرسی کن سہاروں پہ قائم ہے اور کن جھٹکوں سے خائف ہے یہ سب پہ عیاں نہیں ہوتا۔ نل کس نے کھلا چھوڑا ہے اور کون بہتے پانی سے مستفید ہو رہا ہے یہ سب بآسانی آشکار نہیں ہوتا۔

ملک میں صورت حال کچھ ایسی ہے کہ میاں صاحب کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا ہے۔ وہ جس کندھے پہ سوار ہو کے میدانِ سیاست میں کھیلتے رہے ہیں اسی کندھے سے گرے ہیں تو انھیں احساس ہوا ہے کہ ان کی جگہ لینے کوئی اور آ چکا ہے اور یہی ان سے دیکھا نہیں جا رہا۔ سو وہ ہر اُس جوڑ پہ حملہ کریں گے جو کمزور ہو گا۔ ان نے ممبئی حملوں کا تذکرہ یونہی نہیں کیا۔ آنے والے دنوں میں وہ مزید آگے بڑھ کے باؤنسرز کریں گے اور انھیں مسلسل اس کا ردِ عمل بھی برداشت کرنا پڑے گا کہ یہ یقینی ہے۔ اس وقت دو قسم کا رویہ عام دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک جناب میاں صاحب کے حمایتی ہیں جو جنرل درانی، رحمان ملک، جنرل شاہد عزیز، حمید گل وغیرہ کے بیانات چلا کے یہ دلیل قائم کر رہے ہیں کہ میاں صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کی کہ یہ سب پہلے بھی بہت سے ذمہ داران کہہ چکے ہیں۔ اور دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو میاں صاحب کو غداری اور وطن فروشی کی اسناد جاری کر رہے ہیں اور آرٹیکل ۶ کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔پہلی صورت میں تو یہ دلیل نامناسب ہے کہ الف ایک بات کہہ رہا ہے تو بے نے کہہ دی تو کیا ہوا۔ ہر شخص اپنے قول و فعل کا خود ذمہ دار ہے۔ دوسری صورت میں کسی کو یہ حق بھی نہیں کہ غداری کی اسناد بانٹتا پھرے۔ سابق صدر پرویز مشرف بھی اس معاملہ میں اپنی علمیت بکھیرتے نظر آئے جبکہ انھی نے اپنے باوردی عہدِ حکومت میں واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو میں پاکستانی عورتوں کے بارے میں یہ تک کہہ دیا تھا کہ یہ پیسے اور کینیڈین ویزے کے لیے اپنا ریپ خود کروا لیتی ہیں۔

میاں صاحب خوش قسمت ہیں کہ ان کا تعلق پنجاب سے ہے اور وہ بھی لاہور سے۔ اگر یہ بلوچستان، سندھ یا خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتے ہوتے تو اب تک ان کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ ان سے بار بار یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جب آپ وزیراعظم تھے تو تب کیوں خاموش تھے۔ جو بیانات اب دے رہے ہیں ان کی بنیاد پہ تحقیقات کو منطقی انجام تک کیوں نہ پہنچایا۔ لیکن اس پہ میاں صاحب کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں کہ تب ان کے اس پار کچھ اچھے دن چل رہے تھے۔ یہ تو برا ہو ڈان لیکس کا کہ جس نے ان کے اچھے دنوں پہ پانی پھیر دیا۔ اور اب کی بار بھی وہی اخبار وہی صحافی اور کچھ ویسا ہی قصہ…… میاں صاحب نے اس بار واقعی غیر دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھیں یہ انٹرویو کم از کم بی بی سی یا واشنگٹن پوسٹ کو دینا چاہیے تھا تا کہ اس کی گونج زیادہ دور تک سنی جاتی کہ یہی ہمارے مقتدر صاحبان کی روایت ہے۔ دیوار پار آواز پہنچانا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ میاں صاحب بادشاہ مزاج ہیں اگر ایسے میں ان نے بادشاہ گروں سے لڑنے کی ٹھان ہی لی ہے تو مشت بھر دانش بھی ساتھ رکھ لیتے کہ بعض اوقات کسی دوسرے کا کھلا رہ گیا نل بھی خود بند کرنا پڑتا

Kashif Butt
About the Author: Kashif Butt Read More Articles by Kashif Butt: 25 Articles with 15751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.