میں نہیں جانتا

 سابق مصری صدر انورالسادات کے قتل کا مقدمہ عدالت میں زیر بحث تھا کہ جج نے قاتل سے سوال پوچھا کہ تم نے سادات کو کیوں قتل کیا قاتل: کیونکہ وہ سیکولر تھا
جج: سیکولر کیا ہوتا ہے
قاتل: مجھے نہیں پتا
مشہور کاتب فرج فودۃ کے تین میں سے ایک قاتل کو جج نے پوچھا کہ تم نے اسکو کیوں قتل کیا
قاتل : کیونکہ وہ کافر تھا
جج: تمہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ کافر تھا
قاتل: اسکی کتابوں سے پتہ چلا
جج: تمہں اسکی کونسی کتاب سے پتہ چلا کہ وہ کافر ہے
قاتل: میں اسکی کتابیں نہیں پڑھتا
جج: تم اسکی کتابیں کیوں نہیں پڑھتے
قاتل: کیونکہ میں پڑھنا لکھنا نہیں جانتا

بالکل اسی طرح کی حالت ہمارے معاشرے کی ہے جہاں اس طرح کے ان پڑھ اور حالات حاضرہ سے بے خبر لوگوں کی بغض، حسد اور نفرت سے کوئی بھی صاحب علم و دانش محفوظ نہیں اس معاشرے میں سائنسدانوں کو ملحد اور شاعروں ادیبوں کو کافر کہنا ایک عام سی بات ہے اورا ٓپ اس طبقہ سے نفرت انگیزی کی وجہ پوچھیں گے تو جواب یہی ملے گا کہ "میں نہیں جانتا یا میں نہیں پڑھتا کیونکہ میں پڑھنا لکھنا نہیں جانتا"

آپ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی انسانی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کریں اور ہر قوم اور معاشرے کی بودوباش اور رہن سہن کو کھنگال کر دیکھ لیں تو آپ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ کسی بھی جاہل اور ذہنی پسماندگی کی حامل قوم یا معاشرے نے کبھی بھی ترقی نہیں کی جس معاشرے کی رگوں میں جہالت اور ذہنی پسماندگی سرایت کر چکی ہو اسکی ترقی کے خواب دیکھنا بھی سراسر جرم ہے۔

علمی و ادبی دنیا میں آپ ایک دوسرے سے بحث کر سکتے ہیں تنقید کر سکتے ہیں حتیٰ کہ مخالفت کی بھی اجازت ہوتی ہے مگرتشدد پسندانہ رویہ کی ہرگزاجازت نہیں ہوتی اور اگر آپ پچھلی چند دہائیوں کا ہی مطالعہ کریں تو یہ تشددپسندانہ رویہ اپنے آخری درجہ میں نظر آئے گاہم سیاسی میدان میں دیکھ لیں تو ایک سیاسی پارٹی کے ورکر دوسری سیاسی پارٹی کے متعلق کس قدر تشددپسندانہ رویہ رکھتے ہیں حتیٰ کہ ایک دوسرے کی عزت کے کپڑے اتارنے میں بھی دیر نہیں لگاتے جبکہ سیاسی لیڈروں کا حال آپ خوب جانتے ہیں۔ ہم مذہبی لیول پر دیکھ لیں تو ایک مکتبہ فکر کے لوگ دوسرے مکتبہ فکر کو مانے کے لیے تیار نہیں جہاد والے تبلیغ والوں کو نہیں مانتے تبلیغ والے خانقاہوں کو نہیں مانتے خانقاہوں والے سیاسی مذہبی جماعتوں کو نہیں مانتے سب ہی ایک دوسرے سے برسر پیکار نظر آئیں گے۔ آپ میری اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ ہمارے معاشرے کا جھکاؤ کیونکہ مذہبی نظریات کی طرف زیادہ ہے اسی لیے نام نہاد ملائیت نے زیادہ نقصان بھی اسی ضمن میں پہچایا ہے پچھلی چند دہائیوں میں قوم کو نام نہاد جہاد میں جھونکنے والی ملائیت ہی تھی فرقہ پرستی کی آگ میں دھکیلنے میں بھی اسی ملائیت کا ہاتھ تھا ملک کو دہشت گردی تک پہچانے میں بھی یہی ملائیت تھی اور اس کے لیے سب سے زیادہ فائدہ ان ملاؤں نے قوم کی جہالت اور ذہنی پسماندگی سے اُٹھایا ہے آپ کسی بھی مکتبہ فکر کت فلسفے کو پڑھ لیں شاید کسی ایک کے علاوہ ہر کسی کے مذہبی فلسفہ میں تشدد اور جنونیت ملے گی۔
یقین کیجیے اس جہالت اور ذہنی پسماندگی کو ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اس معاشرے میں رکھا گیا ہے تاکہ عوام ان ملاؤں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں استعمال ہو جائیں ۔

جس ملک میں جاگیردار مردم شماری نہیں ہونے دیتا ۔مولوی پولیو ویکسین نہیں ہونے دیتا ۔سیاستدان لوٹ مار کم نہیں ہونے دیتا ۔بیوروکریٹ سرکاری نطام ڈیجیٹل اور شفاف نہیں ہونے دیتا۔ استاد اور مولوی طالبعلم کو سوال نہیں اُٹھانے دیتا۔اس معاشرے میں ترقی شاید اگلے ایک سو سال بھی نہ پائے اگر اس جہالت اور ذہنی پسماندگی کو دور نہ کیا گیا تو ہم کبھی بھی سائنسدان، شاعر، ادیب اور صاحب علم ودانش پیدا نہیں کر سکیں گے اور اگر معاشرے میں جنونیت جڑیں پکڑتی گئی تو نہ جانے کتنے ہی بے قصور شاعروں، ادیبوں، استادوں، طالب علموں اور سائنسدانوں کو قتل کروائے گی اور قاتل بعد میں یہی جواب دے گا
" مجھے نہیں پتہ یا میں نہیں پڑھتا کیونکہ میں پڑھنا لکھنا نہیں جانتا"
 

Rana Khuram Javed
About the Author: Rana Khuram Javed Read More Articles by Rana Khuram Javed: 4 Articles with 3529 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.