امید نہ لگانا

زندگی دھوپ چھاوں کی طرح ہوتی ہے۔چھاوں میں تو سب ساتھ دیتے ہیں لیکن دھوپ میں کم ہی لوگ ساتھ ہوتے ہیں ۔جب مشکل وقت آتا ہے تو لوگ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔اور چھاوں میں آپکے دائیں بائیں ہر جگہ لوگ ہی لوگ ہوتے ہیں۔لیکن ان بہت سارے لوگوں میں سے صرف دو تین ہی لوگ مشکل وقت میں آپکے ساتھ ہوتے ہیں۔جسطرح خوشیاں ساری زندگی ساتھ نہیں رہتیں اسی طرح غم بھی ساری زندگی ساتھ نہیں رہتے ۔مشکلات تو ختم ہو جاتی ہیں لیکن ان مشکلات میں لوگوں کے رویے،لوگوں کی باتیں ساری زندگی دل کو کچو کے لگاتی ہیں۔اور دل کے ان زخموں سے ہمیشہ خون رستا ہے۔

زندگی دھوپ چھاؤں کی طرح ہوتی ہے۔چھاؤں میں تو سب ساتھ دیتے ہیں لیکن دھوپ میں کم ہی لوگ ساتھ ہوتے ہیں ۔جب مشکل وقت آتا ہے تو لوگ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔اور چھاوں میں آپکے دائیں بائیں ہر جگہ لوگ ہی لوگ ہوتے ہیں۔لیکن ان بہت سارے لوگوں میں سے صرف دو تین ہی لوگ مشکل وقت میں آپکے ساتھ ہوتے ہیں۔جسطرح خوشیاں ساری زندگی ساتھ نہیں رہتیں اسی طرح غم بھی ساری زندگی ساتھ نہیں رہتے ۔مشکلات تو ختم ہو جاتی ہیں لیکن ان مشکلات میں لوگوں کے رویے،لوگوں کی باتیں ساری زندگی دل کو کچو کے لگاتی ہیں۔اور دل کے ان زخموں سے ہمیشہ خون رستا ہے۔

غیر دکھ دیں تو اتنا بڑا نہیں لگتا نہ ہی دل کو چبھن محسوس ہوتی ہے لیکن جب اپنے آپکے برے وقت میں اپنے رویوں اور باتوں کی چابک سے آپکو مارتے ہیں تو ان سے ساری زندگی خون رستا ہے۔اور زخم ٹھیک نہیں ہوپاتا ۔یہ زخم اتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ بھلانے سے بھی نہیں بھولتے ۔کسی نے سچ کہا تھا کہ اچھی باتیں بھول جاتی ھیں لیکن زخم دی ہوئی باتیں کبھی نہیں بہولتی ۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ انسان دکھی باتوں کو چاہنے کے باوجود نہیں بھول پاتا ہے۔کیونکہ دکھی باتیں کانٹوں کی طرح کی ہوتی ہیں اور کانٹوں کو جتنا بھی ھاتھ لگایا جاتا ہے ہر دفعہ ھاتھ لگانے پر تکلیف ہی ہوتی ہے ۔جس طرح کانٹوں کا زخم لمبے عرصے تک ھاتھ پر رہتا ہے اسی طرح دکھ دینے والی باتوں کا زخم بھی صدیوں تک دل میں رہتا ہے ۔یہ دکھ ایسا ہوتا ہے کہ جو چاہنے کے باوجود کسی کو بتا نہیں پاتے۔اور سچ بات یہ بہی ہے کہ اس دکھ کو دوسرے لوگ محسوس نہیں کرتے۔اس دکھ کی تکلیف اتنی ہوتی ھے کہ محفل میں بھی یاد آنے پر انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے اور بے بسی کا احساس اس وقت شدید تر ہوتا ہے جب چاہنے کے باوجود آنکھوں سے آنسو نہیں ٹپکتے پاتے۔کبھی کبھی دل چاہتا ھے کہ چیخ چیخ کر روئے لیکن آنکھوں پر ایسے جالے لگے ہوتے ہیں کہ ایک آنسو بھی نہیں ٹپکتے پاتا۔اور اس وجہ سے زخم ہرا بھرا رہتا ہے۔عام طور پر زخم آپکو آپکے اپنوں سے ہی ملتے ہیں اسلئے میری آپ سے گزارش ہے کہ کسی سے امید نہ لگائیں۔کیونکہ جب یہ امید ٹوٹتی ہے تو انسان کو لگتا ھے کہ میں ختم ہو گیا ہوں اسلئے زیادہ سے زیادہ کو شش یہی کی جائے کہ کسی سے امید نہ لگائ جائے بس اپنی محنت کرنی چاہیے اور خدا کی ذاتی کے آگے سر باوجود ہو کر اپنے لئے دعا مانگیں چاہیئے ۔وہی جگہ ہے جہاں سے سب کو ملتا ہے امیر ،غریب سب اسی در کے فقیر ہیں۔اسلئے لوگوں سے امید رکھنے کے بجائے اللہ سے مانگنا چاہئیے ۔اللہ تعالی ہم سب کو صرف خود کے آگے جھکائے۔آمین

Ayesha Saeed
About the Author: Ayesha Saeed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.