وفاقی وزیر پر حملہ……عدم برداشت پر قابو پانا ہوگا

آج ملک کو درپیش مسائل میں خطرناک و نقصان دہ چیلنج معاشرے میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کی بہتات ہے۔ عدم برداشت اور انتہا پسندی تشدد کو جنم دیتے ہیں، جس سے بدامنی، قتل و قتال اور خونریزی کو فروغ ملتا ہے۔ انتہا پسندی سے سب سے پہلے عدم برداشت و عدم تحمل کا خاتمہ ہوتا ہے، اس لیے انتہا پسندی کا شکار انسان اختلاف رائے کو کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ پاکستانی معاشرہ ایک عرصے سے مذہبی و سیاسی اور دیگر کئی مختلف قسم کی انتہاپسندیوں کی جکڑبندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ جس کے مناظر آئے روز سیاسی و مذہبی شخصیات کی جانب سے انتہاپسندانہ بیانات اور ان بیانات کے نتیجے میں کارکنوں کے تشدد پر مبنی اقدامات کی صورت میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ کوئی دوسرے کی بات ماننا تو کجا، سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا ہے، بلکہ صرف اپنا نظریہ، اپنی سوچ اور اپنا موقف دوسرے پر مسلط کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے۔ اپنی سوچ کی نفی ہونے کی صورت میں دوسرے کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا اور اپنی سوچ کو نافذ کرنے کی خاطر مخالفین کا قتل تک کرنے کو برا نہیں جانا جاتا۔ اتوار کے روز وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ اسی عدم برداشت اور انتہاپسندی کی ایک بدترین مثال ہے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال اتوار کے روز شکر گڑھ میں تقریب کے دوران قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئے۔ گولی ان کے دائیں بازو پر لگنے کے بعد پیٹ میں پیوست ہو گئی تھی۔موقع پر موجود سیکورٹی اہلکاروں نے حملہ آور کو دبوچ کر پستول قبضے میں لے لیا، جس میں مزید گولیاں بھی موجود تھیں۔ پولیس کے مطابق ملزم نے گولی چلانے کا اعتراف کیا اور اس کی وجہ ختم نبوت کا معاملہ بتایا ہے۔ واضح رہے کہ چند ماہ قبل موجودہ حکومت نے ختم نبوت قانون کی ایک شق میں تبدیلی کی تھی، جس کو بعد میں احتجاج ہونے پر اپنی اصلی حالت میں تبدیل کردیا گیا تھا، لیکن بعض مذہبی جماعتیں ابھی تک مصر ہیں کہ تبدیلی کیوں کی اور اس کے ذمہ داروں کو منظر عام پر لایا جائے۔ حملہ آور نے حملے کی وجہ وہی تبدیلی بتائی ہے۔ صدر مملکت، وزیراعظم، تینوں مسلح افواج کے سرابراہوں، سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور قومی رہنماؤں نے وزیرداخلہ پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ سیاسی رہنماؤں نے اس اقدام کو جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور جاپان سمیت کئی ملکوں نے بھی واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ملزم عابد حسین پرچون کی ایک دکان پر کام کرتا ہے اور مبینہ طور پر ایک مذہبی جماعت کا کارکن ہے۔ پولیس کو ابتدائی بیان میں اس نے اقبال جرم کرتے ہوئے کہا کہ احسن اقبال میرا ٹارگٹ تھے، بعد میں ملزم کا ایک ساتھی بھی گرفتار کر لیا گیا۔ وزیرداخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لیے پنجاب حکومت نے 5 رکنی جے آئی ٹی (جوائنٹ انوسٹی گیشن ) تشکیل دے دی ہے۔

حملہ آور کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے بتایا جاتا ہے۔ اسی مذہبی جماعت سے متاثر افراد نے احسن اقبال پر کوئی دو ماہ پہلے ایک تقریب میں جوتا پھینکا تھا، اسی طرح خواجہ محمد آصف پر سیاہی پھینکی گئی تھی، ان واقعات کے تھوڑے عرصے بعد لاہور میں جامعہ نعیمیہ کی ایک تقریب میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف پر بھی جوتا پھینکا گیا تھا۔ ان تمام واقعات کے ملزم گرفتار ہوگئے تھے اور غالباً وہ سب عدالتوں سے ضمانتوں پر رہا بھی ہوچکے ہیں، لیکن بات اب جوتے اور سیاہی پھینکنے سے فائرنگ تک پہنچ گئی ہے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ پر قاتلانہ حملہ افسوسناک ہی نہیں، تشویشناک بھی ہے، اس امر کی جانب اشارہ کہ سیکورٹی کے مسائل تاحال موجود ہیں۔ ملک میں انتخابات کا موسم ہے اور اگلے دو اڑھائی ماہ سیاسی جلسے، جلوس اور کارنر میٹنگز ہونی ہیں۔ صورتحال یہی رہی، سیاسی رہنماؤں پر حملوں کے خطرات برقرار رہے تو انتخابی مہم پھیکی پڑ جائے گی اور سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما، اپنے منشور اور مستقبل کی اپنی منصوبہ بندی کے بارے میں عوام کو ٹھیک طریقے سے آگاہ نہیں کر پائیں گے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس واردات کے ذریعے بیلٹ کا راستہ بلٹ سے روکنے کی ایک گھناؤنی کارروائی ہے، جس کی شفاف اور بلاتاخیر تحقیقات کے بعد ہی حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ ایسے حالات میں پرامن اور شفاف انتخابات کسی چیلنج سے کم نہ ہوں گے، نارووال سانحہ سے سبق لینے کے کئی ابواب کھلے ہیں۔

حملہ آور نے چونکہ وفاقی وزیر پر گولی چلانے کی وجہ مذہبی معاملہ بیان کی ہے اور حملہ آور شکل و صورت سے ان پڑھ اور کم فہم معلوم ہوتا ہے، جس نے یقینا مذہبی جماعت کے رہنما کی تقریر سے متاثر ہوکر یہ گھناؤنا قدم اٹھایا ہوگا، جو قابل مذمت ہی نہیں بلکہ تشویش ناک بھی ہے، جس پر ملک بھر کے مذہبی رہنماؤں کو ایسے مذہبی رہنماؤں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے جو انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ اسلام کسی انسان کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا، اسلام میں تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، بلکہ کوئی بھی مذہب قتل وغارت اور تشدد و ایذارسانی کو جائز نہیں سمجھتا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی دو بڑی اقسام سیاسی و مذہبی انتہا پسندیوں کا تجزیہ کیا جائے تو انتہائی پریشان کن اور افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ بہت سے فرقے اور نظریے کے ماننے والوں کی تمام کاوشوں کا محور دوسرے فرقے، دوسرے نظریے اور دوسرے خیالات کے حاملین کو ناحق، باطل اور گمراہ ثابت کرنا ہوتا ہے اور بہت سے تو اپنے ذاتی مفادات کے لیے بھی مذہب کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس قسم کے مفاد پرست لوگ اپنے سیاسی اور مسلکی مخالفین کے خلاف مذہب کے نام پر اپنے پیروکاروں میں نفرت پیدا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے پیروکار مخالفین کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اس سوچ نے معاشرے میں خونی تنازعات کو جنم دیا ہے۔ دوسری جانب اگر ملک میں سیاسی انتہا پسندی پر غور و خوض کیا جائے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ ملک میں سیاسی انتہا پسندی بھی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔

سیاسی جماعتیں بھی مذہبی مسالک کی طرح سیاسی مسالک بن چکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان صرف اپنے آپ کو درست اور دوسرے کو بالکل غلط تصور کرتے ہیں۔ ایک جماعت کے لوگ دوسری جماعت والوں کو ہر لحاظ سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے سے لے کر مخالفین سے لڑائی جھگڑا اور قتل تک روا رکھا جاتا ہے۔ اشتعال انگیز تقریروں کے نتیجے میں جو ذہن متاثر ہوتے ہیں وہ کبھی جوتا پھینکتے، کبھی چہرے پر سیاہی کی پچکاری مارتے اور زیادہ اشتعال کی حالت میں فائرنگ پر بھی اتر آتے ہیں۔ گزشتہ روز کراچی میں پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے کارکنان کی شدید لڑائی بھی انہیں نفرتوں کا شاخسانہ ہے اور اس سے پہلے بھی وقتا فوقتا سیاسی جماعتوں میں لڑائی ہوتی رہتی ہے۔ سیاسی، مذہبی اور دینی جماعتیں غیر قانونی اور انسان دشمنی پر مبنی رویوں کی حوصلہ شکنی کریں، ان پر لازم ہے کہ وہ سیاست میں در آنے والی سیمابیت، غضبناکی، جذباتیت اور عدم رواداری و برہمی کے جملہ عناصر کی اپنے جمہوری اور سیاسی طرز عمل سے روک تھام کریں۔ عدم برداشت اور انتہا پسندی کی بہتات میں معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ کسی بھی معاشرے میں یہ ممکن نہیں کہ تمام انسان ایک ہی سوچ، فکر اور نظریے کے حامل ہوں، اس لیے ہر ایک پر زبردستی اپنی سوچ و فکر نہ تو مسلط کی جاسکتی ہے اور نہ کرنی چاہیے، اگر کوئی زبردستی کسی پر اپنی سوچ و فکر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ تشدد کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 625801 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.