پاکستان کا غدار. بنگلہ دیش کا ہیرو

مطیع الرحمان بطور انسٹرکٹر پائلٹ کے طور پر مسرور کے پی اے ایف ائیر بیس میں تعینات تھے اور اسی دوران اس کی کوشش تھی کہ جنگی جہاز بھارت لیکر جائے. پائلٹ آفیسر راشد منہاس کی شیڈول میں اس دن ٹی تھرٹی تھر ی پر سولو فلائٹ تھی رن وے پرمطیع الرحمان راشد منہاس کو کلورفارم سے بے ہوش کیا اور راڈ سے اس کا ہاتھ توڑ دیا اور پھر ٹیک اف کیا .مطیع الرحمان کی کوشش تھی کہ جہاز کو بھارت لیکر جائے اسی دورا ن ٹی تھرٹی تھری کی پرواز بھی مطیع الرحمان نے نیچے رکھی تاکہ ریڈار پر نظر نہ آئیتاہم ہوش میں آنے کے بعد راشد منہاس نے جہاز کو دشمن ملک لے جانے سے بچانے کیلئے اپنی جان کی قربانی دی اور جہاز کو گرا دیا . اس واقعے میں دونوں ہی جاں بحق ہوگئے.اس وقت جہاز ٹھٹھہ کے قریب تھا اور 31میل جو کہ 51کلومیٹر بنتی ہے-مطیع الرحمان کی لاش موقع پر موجود تھی اس واقعے کے بعد مطیع الرحمان کی بیوی جس کا نام ملی تھا جبکہ اس کی دو بیٹیوں کو ایک ماہ قید میں رکھا گیا تاہم انتیس ستمبر 1971 کو انہیں رہا کردیا گیا

تاریخ کے جھروکے
مسرت اللہ جان

پاکستان ائیرفورس میں پائلٹ انسٹرکٹر کے طور پر کام کرنے والا مطیع الرحمان جو بنیادی طور پر بنگلہ دیش سے تعلق رکھتا تھا اسے بنگلہ دیش کی حکومت نے اس کی پاکستان سے غداری کرنے پر بعد از مر گ بنگلہ دیش کا سب سے بڑا ایوارڈ بیرشریشتو ایوارڈ سے نوازا تھا. وہ پاکستان ائیرفورس میں فلائٹ لیفیٹننٹ کے عہدے پر تعینات تھے.

مطیع الرحمان نے کوشش کی تھی کہ پاکستان سے فرار ہو جائے اور بنگلہ دیش لبریشن موومنٹ کیلئے پاکستان سے ٹی - تھرٹی تھری جہاز بھی لیکر جائے اس جہاز کا کوڈ نیم بلیو برڈ تھا اور اس کو بھگانے کی کوشش کی اس وقت اسکے پاس جہاز میں تربیتی مشن پر اکیس سالہ پائلٹ آفیسر راشدمنہاس تھا جو اس وقت اپنی پہلی سولو فلائٹ لے رہا تھا اس نے جہاز کو بھگانے کی کوشش ناکام کرنے کی کوشش کی مطیع الرحمان کی کوشش تھی کہ وہ جہاز کو لیکر بھارت چلا جائے لیکن تربیت لینے والے پائلٹ راشد منہا س نے جان پر کھیل کر اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا اور اسی کشمکش میں جہاز کریش ہوگیا-

بنگلہ دیش کے درالحکومت ڈھاکہ میں پیدا ہونیوالے مطیع الرحمان 29 نومبر 1941 ء کو آغا صادق روڈ پر مبارک لاج میں پیدا ہوا اس کے والد کا نام مولوی عبدالصمد تھا اور اس کی والدہ کا نام سیدہ خاتون مبارک النساء تھا مطیع الرحمان کے نو بھائی جبکہ دوبہنیں تھیں رحمان بہن بھائیوں میں چھٹے نمبر پر تھے. پرائمری تعلیم مطیع الرحمان نے ڈھاکہ کے کالجیٹ روڈ پر واقع پرائمری سکول سے حاصل کی.جس کے بعد وہ سرگودھا میں ائیرفورس کے سکول میں داخل کردئیے گئے اسی نے پندر ہ اگست 1961 کو پاکستان ائیرفورس کو جوائن کیا اس وقت رسالپور میں ائیرفورس کالج تھا جسے بعد میں اکیڈمی کا درجہ دے دیاگیا.

22 جون 1963کو مطیع الرحمان کمیشنڈ آفیسر بن گئے اور پائلٹ آفیسر کے طور پر چھتیسویں جی ڈی پی کورس میں تربیت مکمل کرنے کے بعد پائلٹ کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا.اسے تربیت مکمل کرنے کے بعد ماری پور کے سکواڈرن نمبر 2میں تعینات کردیا گیا اس وقت اسے ماری پور ائیربیس کہا جاتا تھا جوکہ اب کراچی کا مسرور ائیر بیس ہے,

مطیع الرحمان نے جیٹ کی تربیت بھی لی اور ٹی تھرٹی ٹی جہاز پر بھی کام کیا جس میں مطیع الرحمان نے اس کورس میں 75.66 فیصد مارکس حاصل کئے جسکے بعد اس نے فائٹر ٹریننگ کیساتھ ایف . ایٹی سکس پر بھی تربیت حاصل کی جو کہ اس نے 81 فیصد مارکس کیساتھ مکمل کرلی جس کے بعد اسے پشاور میں 19سکواڈرن میں تعینات کردیا گیا کیونکہ اس کا ریکارڈ شاندار تھا.اس وقت وہ فلائنگ آفیسر کے طور پر کام کرتا تھا پاک بھارت جنگ 1965 میں جنگ ختم ہونے کے بعد وہ واپس سرگودھا گیا جہاں پر اس نے مگ کی تربیت بھی حاصل کی جس کے بعد پاکستان ائیرفورس میں مطیع الرحمان کو فلائٹ لیفٹننٹ کے عہدے پر 1967 میں ترقی دیدی گئی .
بنگلہ دیش لبریشن موومنٹ کے دوران ہی فلائٹ لیفٹننٹ مطیع الرحمان نے گروپ کپٹن قدوس کی فیملی کو رائل سعودی عرب کی فیملی کو ون تھری جہاز میں غیر قانونی طور پر ریاض پہنچایا تھا مطیع الرحمان اور اس کی فیملی جنوری 1971 ء میں دو ماہ کی چھٹی پر ڈھاکہ اپنے گھر گئے تھے وہ اپنے علاقے رامن نگر رائے پور میں ہی تھے کہ اس دوران آپریشن شروع ہوا .

25مارچ 1971 ء کو اس علاقے میں پاک آرمی نے آپریشن سرچ لائٹ کے نام سے آپریشن کیا باوجود اس کے مطیع الرحمان پاکستان ائیرفورس کا ممبر تھا اس نے اپنے علاقے میں تربیتی کیمپ کھولا تھا اورمکتی باہنی کے نوجوانوں کو ویریپ کے علاقے میں گوریلا تربیت دیتا تھا اسی علاقے میں اس نے ڈیفنس گروپ کے نام سے بنگالی لڑکوں کا ایک گروپ بھی تیار کیا اور ان سب میں اسلحہ بھی تقسیم کیا.

14 اپریل 1971 ء کو اس کیمپ پر پاکستان ائیرفورس کے جہازوں نے بمباری کی تاکہ دہشت گردوں کی تربیت کا یہ سلسلہ بند ہو چونکہ مطیع الرحمان پاکستان ائیرفورس میں تھے اس لئے اسے بروقت اس کا پتہ چلا گیا اسی وجہ سے کیمپ میں نہیں گیا اور بمباری سے بچ گیا . مطیع الرحمان 23اپریل کو ڈھاکہ آئے اور پھر 9مئی کو اپنی فیملی کو لیکر کراچی آئے.

مطیع الرحمان بطور انسٹرکٹر پائلٹ کے طور پر مسرور کے پی اے ایف ائیر بیس میں تعینات تھے اور اسی دوران اس کی کوشش تھی کہ جنگی جہاز بھارت لیکر جائے. پائلٹ آفیسر راشد منہاس کی شیڈول میں اس دن ٹی تھرٹی تھر ی پر سولو فلائٹ تھی رن وے پرمطیع الرحمان راشد منہاس کو کلورفارم سے بے ہوش کیا اور راڈ سے اس کا ہاتھ توڑ دیا اور پھر ٹیک اف کیا .مطیع الرحمان کی کوشش تھی کہ جہاز کو بھارت لیکر جائے اسی دورا ن ٹی تھرٹی تھری کی پرواز بھی مطیع الرحمان نے نیچے رکھی تاکہ ریڈار پر نظر نہ آئیتاہم ہوش میں آنے کے بعد راشد منہاس نے جہاز کو دشمن ملک لے جانے سے بچانے کیلئے اپنی جان کی قربانی دی اور جہاز کو گرا دیا . اس واقعے میں دونوں ہی جاں بحق ہوگئے.اس وقت جہاز ٹھٹھہ کے قریب تھا اور 31میل جو کہ 51کلومیٹر بنتی ہے-مطیع الرحمان کی لاش موقع پر موجود تھی اس واقعے کے بعد مطیع الرحمان کی بیوی جس کا نام ملی تھا جبکہ اس کی دو بیٹیوں کو ایک ماہ قید میں رکھا گیا تاہم انتیس ستمبر 1971 کو انہیں رہا کردیا گیا-

مطیع الرحمان کی لاش کو لینے کیلئے بنگلہ دیش کی حکومت نے پاکستان سے کئی مرتبہ رابطہ کیا اور تقریبا اس سلسلے میں تیس سال تک مذاکرات ہوتے رہے اس کی لاش 24جون 2006 کو بنگلہ دیش کی حکومت کے حوالے کردی گئی اس وقت دفتر خارجہ پاکستان کے ترجمان تسنیم اسلم کے مطابق اچھے تعلقات کی وجہ سے یہ اقدامت اٹھایا گیا جس کے بعد مطیع الرحمان کی لاش کو ڈھاکہ کے میرپور میں واقع قبرستان لے جایا گیا جہاں پر اسے باقاعدہ ملٹری اعزاز کیساتھ دفن کردیا گیا.

مسرور ائیربیس پر ایک عرصے تک انٹری پوائنٹ پر اس کی تصویر تھی تاکہ آنیوالے اس غدار وطن کو پہچانیں تاہم بعد میں یہ تصویر ہٹا دی گئی . مطیع الرحمان پر بنگلہ دیش کی ٹی وی چینل نے ڈاکومنٹری ڈرامہ بھی بنایا جس کا نام آگنی بولکائے شام ہے اس ڈاکومنٹری ڈرامے میں بنگلہ دیش کے فلم ایکٹر ریاض نے مطیع الرحمان کا کردار ادا کیا جبکہ اداکارہ ترین نے مطیع الرحمان کی بیوی کا کردار ادا کیا .بنگلہ دیش ائیرفورس نے اس کے نام پر جیسور ائیربیس کا نام تبدیل کرکے مطیع الرحمان ائیربیس بھی رکھا .جبکہ ائیرفورس میں بہترین کارکردگی دکھانے والے بنگلہ دیشی پائلٹ کیلئے ٹرافی بھی اس کے نام سے شروع کی جس کا نام بیرش ریشتو مطیع الرحمان ٹرافی رکھا گیا ہے جسے گولڈن پین ایوارڈ کا نام بھی دیا جاتا ہے جبکہ بنگلہ دیش کے مختلف کیڈٹ کالجزاس کے نام کے ہال بھی بنائے گئے ہیں-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 588 Articles with 418321 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More