انسانیت ہونی چاہیے

میرے ایک دوست کی زبانی
میرا نام شہریار ہے اور میں پشاور کے ایک پسماندہ گاؤں کا رہنے والا ہوں، آج میں پہلی بار اپنے ساتھ ہونے والا ایک دردناک کہانی آپ سب کو سناتا ہوں، میں نے ٢٠١١ میں پشاور یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی میرا ایک کلاس فیلوایک افغانی تھا اور یہاں پشاور میں آباد تھا لیکن اسکی فیملی افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلع خوگیانی میں رہتی تھی اس افغانی کا نام جہانزیب تھا وہ میرا بہت اچھا دوست تھا دوسرے پختون اسکو اتنا ترجیح نہیں دیتے تھے لیکن میں نے اسے سب سے قریب دوست بنایا تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا یہ افغانی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو. وہ اکثر میرے ساتھ میرے گاؤں اتا اور یہاں پر رہتا تھا میں اسکا ہر طرح کا خیال رکھتا تھا. ٢٠١١ میں ہم نے جب اپنی ڈگری مکمل کی تو وہ سیدھا افغانستان چلا گیا اور وہاں نوکری کرنے لگا وہاں پر اسے بہت اچھی نوکری ملی اور اسکی تنخوا ڈالرز میں ہوتی تھی اس وقت ہمارے صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی میں نے ڈگری مکمل کرنے کے بعد بہت اداروں میں نوکری کے درخواستے دئے لیکن کہی سے بھی کوئی جواب نہیں ملتا تھا کہی اداروں میں ٹیسٹ بھی ٹاپ کیا لیکن پھر بھی میری سلیکشن نہیں ہوتی تھی پھر ایک ادارے میں ٹیسٹ ٹاپ کیا اور انٹرویو کے لئے بلایا گیا لیکن پھر بھی میری سلیکشن نہیں ہوئی اور میں غصے میں اکر اس ادارے کے سربراہ کے پاس گیا اور اپنی فریاد سنائی وہ کہنے لگا بیٹا میرے بس میں کچھ نہیں میں کچھ نہیں کر سکتا یہ سب سلیکشن اپر سے ہوتی ہیں اسلیے آپ سے التجا ہے کہ جب تک یہ حکومت ہوگی آپکو میرٹ پر نوکری نہیں مل سکتی یہ سن کر انتہائی دکھ ہوئی مجھے اور میں کہنے لگا کہ یہ کیا ہو رہا یہ تو باچا خان کے پیروکار اور باچا خان جیسا لیڈر دنیا میں پیدا نہیں ہوا. پھر میں نے نوکری کرنے کا سوچ ختم کیا اور گھر بیٹھ گیا ایک دن جہانزیب سے رابطہ کیا اور اسے کہا کہ اگر افغانستان میں کوئی نوکری مل سکتی ہیں تو مہربانی کر کے میرے لیے کوئی نوکری ڈھونڈ لو وہ کہنے لگا آپکو افغانستان آنا پڑیگا اس لیے میں نے اپنے والدین سے اجازت مانگی اور افغانستان چلا گیا ٢٠١٢ میں، میں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس لیے مجبور تھا جب میں افغانستان جہانزیب کے گھر پونچ گیا تو جہانزیب اور اسکے فیملی والو نے سیدھا مجھے قید کر لیا اور میرے گھر میرے والدین کو فون کیا کہ یا تو پچاس لاکھ روپے بھیج دو یا اپنے بیٹے کی لاش لے جاؤں میرے والدین بیچارے غریب تھے اس لیے میں نے انکو کہا کہ مہربانی کر کے مجھے چھوڑ دو لیکن وہ نہیں مانے اور مجھ پر بےپناہ تشدد کیا اور کرتا رہا آخر کار میرے رشتہ داروں ماموں نے پیسے جمع کر دئے اور افغانستان میں ان افغانیوں کو دے دیئے میں انکے پاس تقریباً ٢ مہینے تک قید رہا اور ان دو مہینوں میں ہر طرح کی تشدد کرتا رہا یہ دو مہینے میرے زندگی کے دردناک ہیں ابھی تک میں خود کو سمبھل نہ سکا ذہنی طور پر میرے فیملی پر اور میرے غریب والدین پر انتہائی سخت وقت تھا کیونکہ میں انکا فخر تھا میں انکا سب کچھ تھا اور میری دعا ہے کہ ہمارے دشمن بھی ایسی تکلیف سے الله بچاۓ میں باچا خان، ولی خان گاندھی اور قائد عظم کا پیروکار ہوں اسلیے نفرت کرنے سے میں ہمیشہ دور رہا میں اپنے دشمن سے بھی نفرت نہیں کرتا آج بھی جہانزیب کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور میں نے اسکو اور اسکے پورے خاندان کو معاف کیا ہے ہمارے پشاور میں لاکھوں افغان رہتے ہیں اور ماشاللہ میں سب کی بہت قدر کرتا ہوں انکی ہر طرح کی مدد بھی کرتا ہوں حلانکہ جب میں افغانستان میں انکے ساتھ قید تھا وہ اکثر مجھے سناتے کہ ہم افغان پاکستان کے تمام لوگوں سے شدید نفرت کرتے ہیں پختون پنجابی سندھی بلوچی سب سے نفرت کرتے تھے -

تو لہٰذا اس کہانی کا اصل مقصد ہیں کہ انسانوں کی قدر کیا کرو چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو کسی سے نفرت مت کیا کرو اور ہمیشہ کوشش کیا کرو کہ اپ کے ہاتھوں سے ظلم نہ ہو ہم سب انسان ہیں میں تو تمام جانداروں سے پیار کرتا ہوں میرا دل خفا ہوتا جب کوئی جاندار تکلیف میں ہوں اور ماشاللہ آج میں افغان مہاجرین کے لیے بہت کچھ کر رہا ہفتے میں دو دفعہ شمشتوں کیمپ جاتا ہوں اور انکے مسائل سنتا ہوں اور پھر حکومت سے مدد کی اپیل کرتا ہوں.
آپ سب کا بہت شکریہ
خدا حافظ

Mian Atif Nisar
About the Author: Mian Atif Nisar Read More Articles by Mian Atif Nisar: 5 Articles with 6517 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.